میرا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے نہیں۔ میں اْ ن سادہ لوح عام پاکستانیوں میں سے ہوں جو وطن سے پیار کرتے ہیں۔ جو وطن کی سلامتی اور وطن کی حرمت پر جان کی قربانی دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ جو ہر نماز کے بعد وطن کی سلامتی اور وطن کی ترقی کے لئے دعا گو رہتے ہیں۔ میں اْن خوش قسمت یا بد قسمت پاکستانیوں میں سے ہوں جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا اور خوشیاں منائیں۔ پاکستان لٹتے دیکھا اور پھر پاکستان ٹوٹتے دیکھا۔ کئی پیارے دوستوں اور ساتھیوں کی شہادتیں دیکھیں لیکن آنسو بہانے اور ذاتِ باری تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاکر دعا مانگنے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ توقع تھی کہ آزاد پاکستان میں حالات بدلیں گے۔ نئی زندگی ملے گی۔ اپنی قسمت کے خود مالک ہونگے۔ کسی بنئے یا انگریز کی غلامی نہیں کرنی پڑے گی۔ ہر دن نئی امیدیں اور نئی توقعات لے کر طلوع ہوتا۔
آج پون صدی بعد جبکہ میں زندگی کی آخری سیڑھی پر کھڑے ہو کر پیچھے دیکھتا ہوں تومایوسی اور ناکامی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ہم جو موسم ِ بہار کی امیدیں لئے ہوئے تھے وہ چھین لی گئیں۔ یہ امیدیں چھیننے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں۔ جنہیں ہم نے رہبر سمجھ کر ملک کی قسمت کی باگ ڈورکا مالک بنایا۔ ہماری بد قسمتی کہ وہ رہزن نکلے۔ انہوں نے اس پیارے وطن کو لوٹ مار کی آماجگاہ بنا دیا۔اسے نوچ نوچ کر اس کی وہ حالت کر دی کہ آج ہر پاکستانی اپنی جگہ پر پریشان ہے۔ ملک کی قسمت پر بھی اور ملک کے حالات پر بھی۔
حضور کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’ مومن ایک ہی سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا۔‘‘
لیکن اپنی بد قسمتی دیکھیں کہ ہم بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے گئے ہیں اور ڈسے جا رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی اْسی سوراخ میں انگلی دینے سے باز نہیں آتے۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان پر ایسے لوگ قابض ہوئے جن کی سوچ ذاتی مفادات کے حصول تک ہی محدود تھی۔ جنہیں ملک کی آزادی کی قدر ہی نہیں تھی۔خوش کن الفاظ اور پْر جوش تقریروں سے عوام کو سبز باغ دکھانے میں ماہر تھے لیکن اصل مقصدذاتی مفادات کا حصول ہی رہا۔ ہم عوام اتنے بھولے ہیں کہ ایسے لوگوں کی عادات اور فطرت جاننے کے باوجود اقتدار کی کرسی انہی کو پیش کرتے رہے اور یہ روایت تا حال جاری ہے۔ ہر دفعہ بھولے عوام اعتماد کرتے ہیں اور ہر دفعہ دھوکا کھاتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کے لالچ نے عوام کی زندگیاں اس حد تک اجیرن کر دی ہیں کہ لوگ خود کشیوں میں نجات سمجھتے ہیں۔ جن میں خود کشی کی ہمت نہیں وہ موت کی دعائیں مانگتے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہم پاکستانیوں میں ایماندار قیادت کا جنم ہی عنقا ہو چکا ہے۔ بلکہ ہم ملک چلانے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔شاید ہم آزادی کے اہل ہی نہیں۔
یہ سوچ کر ذہنی تکلیف ہوتی ہے کہ ہماری تاریخ کرپشن اور نالائقی کے سوا کچھ نہیں۔ آزادی کے فوری بعد ہندوستان نے ڈیڑھ سال کے اندر اندر اپنا آئین بنا لیا جس پر عمل پیرا ہو کر آج وہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکے ہیں جبکہ ہمیں آئین بنانے میں آٹھ سال لگ گئے اور پھر اْس پر بھی عمل نہ ہوسکا۔ آئین بنتے رہے اور ٹوٹتے رہے لیکن عوام کی حالت کبھی نہ بدلی۔ ویسے موجودہ حکومتیں اس لحاظ سے کافی سمجھدارہیں کہ آئین کو چھیڑنے کی بجائے اپنے ناجائز مفادات کے حصول کی ترامیم کر کے اپنا مطلب پورا کر لیتی ہیں۔
آئین کے بغیر یقینا کوئی ملک نہیں چل سکتا۔ ہندوستان نے آئین سازی کے بعد چند سال میں الیکشن کراکے طرزِ حکمرانی یقینی بنا لی اور آج تک اس پر قائم ہیں بلکہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتے ہیں اور یہ جمہوریت آج تک پْرامن انداز میں چل بھی رہی ہے۔ اْن کے مقابلے میں آئین بنانے میں تو ہمیں آٹھ سال لگے لیکن جمہوری الیکشن کرانے میں تقریباً ربع صدی لگ گئی اور پھر اس پر بھی عمل نہ ہوسکا۔ اسے سوائے بد قسمتی یا نااہلی کے اور کیا کہا جا سکتا ہے؟
ہم پاکستانیوں میں تین بہت بڑی خامیاں ہیں جو ہماری ناکامیوں بلکہ تباہی کا موجب بنتی ہیں۔ اوّل ہمارا ہر سیاست دان جائز یا ناجائز طریقے سے اقتدار چاہتا ہے اور پھر وہ ہمیشہ کے لئے اقتدار میں رہنا چاہتا ہے۔ وہ کرسی پر مر تو سکتا ہے لیکن اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا۔اقتدار کے حصول کے لئے اگر ملک و قوم کا سودا کرنا پڑے تو ان میں سے کچھ سیاستدان وہ بھی کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسا سانحہ ہم 1971ء میں بھگت چکے ہیں جس کے لئے ہمیں بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ جنگ ہوئی۔ ہزاروں کے حساب سے شہادتیں ہوئیں۔ 93ہزار فوجی اور سویلین بھارت کی قید میں چلے گئے۔ ملک ٹوٹ گیا لیکن اقتدار کا مقصد پورا ہوگیا۔ ہماری دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ اہلِ اقتدار جمہوری نہیں بلکہ شاہانہ اقتدار چاہتے ہیں۔ وہ اقتدار میں رہ کر نہ تو کسی قانون کی پرواہ کرتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی مخالفت برداشت کرتے ہیں۔ وہ بادشاہ سلامت سے بھی بڑے بادشاہ بننا چاہتے ہیں۔ اْن کی مزید کوشش ہوتی ہے کہ اقتدار مکمل طور پر انہی کے خاندان میں رہے۔ اپنے مخالفین کو جیلوں میں ڈالنا ، مقدمات میں پھنسانا ،ان کی فیملیز کو تنگ کرنا اور اگر موقع ملے تو ان کے قتل سے بھی بازنہیں آتے۔ یہ ہے ہمارے آزاد پاکستان کی شاندار تاریخ۔ تیسری بڑی خامی ’’مداحی گروپس‘‘ کی تخلیق ہے۔تمام سیاستدان خصوصاً جب اقتدار میں ہوں تو وہ اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو جمع کرتے ہیں جو ہر وقت ’’بادشاہ سلامت کے گن گاتے رہیں۔ یہ گروپس صاحب بہادروں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ہر کام کی حتیٰ کہ اْن کی کرپشن کی بھی صبح شام تعریف کرتے ہیں۔کچھ میڈیا بھی اس بے جا تعریف میں شامل ہو جاتا ہے جس کا نقصان ملک اور عوام کو پہنچتا ہے۔ کرپٹ ، نااہل اور بد معاش سیاستدانوں کی تعریفیں کر کر کے (نعوذباللہ )پیغمبرانہ درجے تک پہنچا دیتے ہیں۔
اب ایک دفعہ پھر ملک 1970ء کے الیکشن کے بعد والی صورتحال سے گزر رہا ہے۔عوام کی نظر میں (غلط یا صحیح )جو پارٹی اقتدار کی حقدار ہے وہ سب حکومتی سختیوں کا شکار ہے۔ مخالفین حسب روایت جیلوں میں پڑے ہیں اور ان پر اتنے مقدمات بنا دئیے گئے ہیں اور بنائے جا رہے ہیں کہ اگر وہ کئی بار بھی پیدا ہوں تو ان مقدمات کی سزائیں ختم نہیں ہونگی۔ نتیجتاً ملک اس وقت افرا تفری کی حالت میں ہے۔ حکومت والی کوئی بات کہیں نظر نہیں آتی۔ مخالفین کو بیانات اور پروپیگنڈا کے ذریعے غدار اور وطن دشمن ثابت کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان اور فاٹا اس وقت خانہ جنگی کے عذاب سے گزر رہے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے عوام کی زندگی جہنم سے کم نہیں۔ اہلِ اقتدار بجائے کام کرنے کے مسلسل جھوٹ بول بول کر اور اپنے مداحی گروپس سے تعریفیں کراکراکے عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ عوام مجبور ہیں مگر اہلِ اقتدار کو کوئی پرواہ نظر نہیں آتی۔ سب پارٹیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنا اقتدار محفوظ بنانے میں کوشاں ہیں۔ خدا رحم کرے۔ ہماری حالت تو اس وقت افریقی ممالک سے بھی بری ہو گئی ہے۔ لہٰذا سیاستدانوں سے اپیل ہے کہ خدارا ملک و قوم پر رحم فرمائیں۔ ذاتی عداوات ختم کریں اور ملک کی سالمیت کا تحفظ کریں جو کہ آپ کا اولین فرض ہے۔
٭…٭…٭