اماراتی نائب وزیراعظم کا دورہ ٔپاکستان:امید و اعتماد کی نئی جہتیں

متحدہ عرب امارات کے نائب وزیراعظم شیخ عبداللہ بن زاید النہیان نے دورہ پاکستان کے دوران وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور دوطرفہ تعلقات کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی موجود تھے۔ ملاقات میں دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے پر اتفاق ہوا اور تجارت، سرمایہ کاری اور توانائی میں تعاون بڑھانے پر زور دیا گیا۔
متحدہ عرب امارات کے نائب وزیراعظم شیخ عبداللہ بن زاید النہیان کا دورہ پاکستان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان اقتصادی دباؤ، سیاسی بے یقینی، اور اندرونی خلفشار سے گزر رہا ہے۔ اس دورے نے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات کو ایک نئی سمت دی بلکہ اس سے پاکستان کے لیے ایک نئے معاشی افق کے دروازے کھلنے کی امید بھی بندھی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے شیخ عبداللہ بن زاید کی ملاقاتیں روایتی سفارتی رسوم سے بڑھ کر اقتصادی، تجارتی اور توانائی کے شعبوں میں حقیقی تعاون کو فروغ دینے کی عملی کوششوں کا مظہر ہیں۔ ملاقاتوں میں دونوں ممالک نے اس امر پر اتفاق کیا کہ تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو نئی جہت دینی چاہیے اور انہیں محض رسمی بیانات سے نکال کر ٹھوس معاہدات میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔
یہ دورہ اس لیے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس سے پہلے یو اے ای کے پاکستان میں سفیر نے اعلان کیا تھا کہ پاکستانی شہری پانچ سالہ ویزا اسکیم سے فائدہ اٹھا سکیں گے، جو دونوں ممالک کے درمیان انسانی، سماجی اور اقتصادی روابط کو مزید مستحکم کرے گا۔ شیخ عبداللہ بن زاید کی طرف سے پاکستانی کمیونٹی کی خدمات کو سراہنا اور تعاون کے تسلسل کا عزم ظاہر کرنا نہ صرف جذبہ خیر سگالی کی عکاسی ہے بلکہ یہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد کا اظہار بھی ہے۔
یو اے ای پہلے ہی پاکستان میں ایک بڑے سرمایہ کار اور اہم تجارتی شراکت دار کے طور پر موجود ہے۔ مشرق وسطیٰ میں یہ پاکستان کا بڑا تجارتی حلیف ہے جبکہ ترسیلات زر کے حوالے سے بھی یو اے ای ایک بڑا ذریعہ ہے۔ لاکھوں پاکستانی تارکین وطن یو اے ای میں مقیم ہیں اور نہ صرف معیشت بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی ان کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ایسے اعلیٰ سطح کے دورے اور معاہدے پاکستانی معیشت کو واقعی دیرپا بنیادوں پر استحکام دے سکتے ہیں یا یہ سب وقتی سہارا ثابت ہوں گے؟
حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ معیشت مضبوط خطوط پر استوار ہو رہی ہے اور ملک ’’ٹیک آف‘‘ کی پوزیشن میں ہے۔حکومتی اکابرین اور ادارے مہنگائی میں معتدبہ کمی کے دعوے بھی کرتے ہیں جو زمینی حقائق کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں۔
مہنگائی، بیروزگاری، روپے کی گرتی ہوئی قدر، اور بجلی و پیٹرولیم مصنوعات کی آسمان کو چھوتی قیمتیں عام آدمی کو کچل رہی ہیں۔ اگرچہ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں کچھ کمی کی ہے، مگر یہ کمی ان بے تحاشا اضافوں کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے جو اپریل 2022ء کے بعد دیکھنے میں آئے۔ حکومت کا یہ نیا فلسفہ کہ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی کو بجائے عوام کو ریلیف دینے کے، بجلی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں استعمال کیا جائے، اپنی جگہ قابلِ بحث ہے، لیکن عوامی نکتہ نظر سے یہ غیر مؤثر نظر آتا ہے۔دوسری طرف، معیشت کی بہتری کے دعوے اگر صرف اشرافیہ کی مراعات، تنخواہوں میں اضافے، اور سرکاری افسران کے لیے مہنگی گاڑیوں کی خریداری تک محدود ہوں، تو یہ ایک طبقاتی تضاد کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسے میں سرمایہ کاری کے مواقع اور بیرونی امداد صرف اشرافیہ کے فائدے کے لیے رہ جاتی ہے، جبکہ غریب عوام کو اس کے ثمرات نہیں پہنچتے۔
سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے سب سے اہم عنصر سیاسی استحکام اور قانون کی حکمرانی ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے سیاسی کشمکش، ادارہ جاتی تصادم، اور پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان سرمایہ کاری کے لیے ایک رکاوٹ بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، بیوروکریسی کی روایتی سست روی اور کرپشن جیسے مسائل بھی سرمایہ کاروں کو بدظن کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ون ونڈو آپریشنز، ڈیجیٹلائزیشن، اور شفاف طریقہ کار کو ترجیح دے۔
توانائی کا شعبہ، جو ہر صنعتی اور تجارتی سرگرمی کی بنیاد ہے، پاکستان میں بحران کا شکار ہے۔ یو اے ای جیسے ممالک سے اس شعبے میں تعاون نہایت اہم ہے، بالخصوص متبادل توانائی جیسے سولر، ونڈ اور گرین انرجی کے شعبوں میں۔
 حکومت کو چاہیئے کہ وہ سولر سسٹم جو تیزی سے فروغ پا رہا ہے،اس کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ توانائی کا بحران کم ہو اور صنعتوں کو تقویت ملے۔
حکومت کو چاہیئے کہ وہ دوست ممالک سے حاصل ہونے والے اعتماد کو صرف وقتی ریلیف کے طور پر نہ لے بلکہ ان تعلقات کو اقتصادی پالیسی کا مستقل حصہ بنائے۔ ہر سفارتی دورہ، ہر معاہدہ، اور ہر یادداشت تبھی مؤثر ہو سکتی ہے جب ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف جیسے اداروں پر انحصار کم کرے اور اپنی معاشی خودمختاری کی بحالی کے لیے متبادل راستے اختیار کرے۔ اس کے لیے بیرونی سرمایہ کاری، مقامی صنعتوں کا فروغ، زرعی اصلاحات، اور انسانی وسائل کی ترقی بنیادی ستون بن سکتے ہیں۔
پاکستان اور یو اے ای کے درمیان اس نئی قربت کو خوش آئند اور امید افزا قرار دیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ یہ قربت محض اعلیٰ سطحی بیانات اور تصاویر تک محدود نہ ہو۔ اگر پاکستان نے ان مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا، تو یہ نہ صرف معیشت کو سہارا دیں گے بلکہ عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن