مسجدالحرام میں صفائی کا اعلی انتظام

اس ماہ رمضان کے پندرہ روزوں میں ایک اندازے کے مطابق 45لاکھ سے زائد عمرہ زائیرین نے عمرہ ادا کیا اتنی بڑی تعدا د میں 24گھنٹے حرم میں گزارے ہیں وہاں صفائی کا اہتمام اشد ضروری ہے یہ یقین کرنے کیلئے کافی ہے اور سعودی انتظامات کی تعریف کیلئے کافی ہے کہ دوران طواف، سعی ،پورے حرم میں صفائی کا کام محض 35 منٹ میں مکمل کیا جاتا ہے اس دوران زائرین کے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ساڑھے تین ہزار کارکنان یہ خدمات انجام دیتے ہیں جو 12مشینوں اور 697 کلینگ مشینوں کی مدد سے کام کرتی ہیں۔
صفائی کے دوران مسجدالحرام سے یومیہ 70 ویسٹ جمع کیا جاتا ہے جو رش کے دنوں میں 100ٹن تک بڑھ جاتا ہے۔ انہیں مسجد الحرام اور
 اس سے باہر رکھے گئے تین ہزار سے زیادہ ویسٹ کنٹینرز میں منتقل کیا جاتا ہے۔صفائی کارکنان کی کوشش ہوتی ہے کہ زائرین کے طواف اور عبادت میں کسی قسم کا خلل پیدا نہ ہو۔ یہ تمام کام تربیت یافتہ سعودی عملے کی نگرانی میں ہوتا ہے۔
جدہ میں پرجوش افطار اور سحور دعوتیں

سعودی عرب میں پاکستان کمیونٹی رمضان المبارک سحور، اور افطار کے انتظامات کرنے اور دوستوں کو دعوت دینے کیلئے رمضان المبارک سے قبل ہی اپنے دوستوں کو تواریخ نوٹ کرادیتے ہیں تاکہ مہمان اپنے پروگرام مرتب کرسکیں ، تبلغی دوست کہتے ہیں کہ سحور اور افطار پر خرچ کی جانے والی رقم اگر ضرورت مندوں میں تقسیم کی جائے تو زیادہ ثواب حاصل ہوگا ، افطار اور سحور ملاقاتوں کا ایک بہانہ ہے نیز یہ بھی مقابلہ ہوتا ہے اکثر اوقات کہ میری افطار میں کتنے لوگ ا?ئے نیز ایک بڑا مقابلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ قونصلیٹ سے کتنے افسران نے رونق بخشی۔ مخلص دوست رمضان المبارک کے علاوہ بھی عشائیوں کا اہتمام کرتے ہیں سعودی عرب میں یہ بات نہایت خوش ا?ئند ہے کہ یہاں کسی بھی دعوت میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ اکھٹے ہوتے ہیں وہاں سیاسی سوچ یا سیاسی تقسیم کارگر نہیں ہوتی یہ بات قابل ستائش ہے ا?دھا رمضان گزر چکا ہے ، میں کچھ مصروفیات کی بناء￿  امریکہ ا?یا ہوں ، جدہ سے دوست خبر پہنچاتے رہتے ہیں کہ جدہ میں افطار اور سحور کی رونقیں عروج پر ہیں اللہ دوستوں کی خوشیوں میں مزید اضافہ کرے۔جدہ میں ہونے والی گزشتہ دنوں بڑی افطاریوں میں کاروباری اور سماجی شخصیات ممتاز احمد کاہلوں، عقیل ا?رائیں ، اور علی خورشید ملک کی جانب سے تھیں علی خورشید ملک جدہ میں ایک معروف ریسٹورانٹ کے روح ورواں ہیں ، انکی افطاری میں بہت سے انجینئرز انکے بزنس کے حوالے سے موجود تھے ، کمیونٹی کا شائد ہی کوئی شعبہ ہو جسے علی خورشید نے دعوت نہ دی ہے، انکی ریسٹورانٹ کا پورا ہال مہمانوں سے بھرا تھا ، جس میں قونصلیٹ سے کمرشیل قونصل سعدیہ خان ، نئی ویلفیئر قونصل اذکاء￿  ظفر ، سبکدوش ہونے والے قونصل ویلفئیر عبدالروف مائو،نیز امریکن قونصلیٹ سے افسر بھی شامل تھے یہ ایک نہایت پر رونق اور بامقصد افطار تھا اس موقع پر قونصل کمرشیل سعدیہ خان نے مختصر خطاب کیا انہوں نے وہاں موجود کاروباری شخصیات ، اور دیگر افراد کو کہا کہ وہ پاکستان زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ بھیجیں، نیز پاکستانی اشیاء￿  کو فروغ دینے کیلئے پاکستانی اشیاء￿  کو یہاں متعارف کرائیں انہوں نے کہا کہ اپریل میں ہونے والی لاہور میں  نمائش میں سعودی عرب سے سعودی کاروباری دوستوں کو لے کر جائیں تاکہ وہ پاکستانی مصنوعات کے خریدار بن سکیں، سبکدوش ہونے والے نوجوان اور خوبصورت( ماشااللہ ) ( میں نے انہیں ہمیشہ خوش باش اور زندگی سے بھر پور شخصیت پایا ) نے اپنے الوادعی خطاب میں پاکستان کمیونٹی اور انکے مسائل سے جڑے تین سالوں کو مختصر بیان کیا اور اس سلسلے میں انہوں نے بتایا کہ مسائل بہت ہیں جسکی وجہ ہمارے ہم وطنوں کو قانون اور زبان سے ناواقفیت ہے ، انہوں نے نئے ا?نے والے افسران سے امید باندھی کہ وہ کمیونٹی کے مسائل پر بھر پور توجہ دینگے۔ عبدالرئوف نے یہ نہیں بتایا کہ وسائل کی کمی کی بناء￿  پر کمیونٹی اور ویلفئیر کا شعبہ کن مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ ہماری وزارت سمندر پار پاکستانی وزارت بھی نرالی ہے کہ بیرون ملک سب سے بڑی پاکستانی کمیونٹی
 رکھنے والے ملک میں ایک مرد اور دو خواتین کو بھیج دیا ہے ، امید ہے کہ سلیکشن حقیقی بنیادوں پر ہوا ہوگا۔ 
سعودی عرب میں عید کی تیاریاں پرانے طرز پر۔۔ کیسے ؟؟
ریاض ریجن کے شمال مغربی علاقے الدوادمی کمشنری میں سعودی شہری نے عہدِ رفتہ کی عید تیاریوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے پرانے طرز کا میوزیم تشکیل دیا ہے۔ قدیم روایات کو زندہ کرنے کے لیے ماضی میں عید کی تیاریوں کے حوالے سے میوزیم بنایا ہے جس میں اسی انداز کی بیٹھک بنائی ہے
سعودی عرب میں افطار سجا کر پڑوسیوں میں تقسیم کرنے کی روایت
ْپاکستانی بھی جہاں کہیں ہوں وہ دوران رمضان افطار تقسیم کرتے ہیں اور جس دن افطار تقسیم کرنا ہو اس روز انواع اقسام کے پکوان بنائے جاتے ہیں اسی طرح سعودی عرب میں بھی ان اسلامی روایات کے مطابق افطار کی تقسیم کی جاتی ہے ، پڑوسیوں کے علاوہ مخیر حضرات افطار سے چند منٹ قبل شارع پر ا?نے جانے والوں کو افطار تقسیم کرتے ہیں کہ مسافرت کی وجہ سے ان کے روزہ کھلنے میں تاخیر نہ ہو، نیزسربراہ خانہ جہاں اپنے بچوں کیلیے عید کے ملبوسات کی خریداری کرتے تھے تو وہ پڑوسیوں کو بھی یاد رکھا کرتے تھے۔رمضان میں بیٹھک کا بھی اہتمام ہوتا ہے جس سے بھائی چارے کو فروغ حاصل ہوتا ہے تاکہ لوگ اپنے ماضی کو فراموش نہ کریں جب ہر کوئی ایک دوسرے کا خیال رکھتا تھا۔سعودی عرب میں ماہ صیام میں پڑوسیوں اور عزیزوں کو افطاری تقسیم کرنے کی روایت پر ا?ج بھی عمل کیا جاتا ہے بلکہ اس میں ہر گزرتے برس جدت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔افطار کے وقت سے تھوڑی دیر قبل محلوں میں روایتی پکوانوں کے تبادلے کا مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔پڑوسیوں میں افطاری بھیجنے کے لیے خواتین خاص اہتمام کرتی ہیں اور ٹرے میں پکوانوں کے ساتھ سجاوٹ کی اشیا بھی رکھی جاتی ہے تاکہ افطار ٹرے خوبصورت دکھائی دے۔ رمضان المبارک کی ا?مد سے قبل ہی افطاری بھیجنے کے لیے برتنوں کی خریداری کرلی جاتی ہے جن میں برتنوں کے علاوہ سجاوٹ کی اشیا شامل ہوتی ہیں۔رمضان افطاری میں خواتین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ روایتی پکوان تیار کریں جو علاقے کی شناخت مانے جاتے ہیں۔ہر علاقے کی روایت کے مطابق وہاں کے پکوان ماہ رمضان میں افطار دسترخوان کی زینت ہوتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن