سفیر حق قومی سلامتی کیلئے قومی اتفاق رائے کی ضرورت

اشتیاق چوہدری
جعفر ایکسپریس پر  دہشت گردوں کے حملے کے بعد بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر سامنے آرہی ہے جو قومی سلامتی کے اداروں کیلئے ایک بڑا چیلنج بن رہی ہیجس سے نپٹنے کیلئے قومی اتفاق رائے کی شدید ضرورت آن پڑی ہے۔یہ بات طے شدہ ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ صرف اسی صورت جیتی جاسکتی ہے جب عوام کی غالب اکثریت مسلچ افواج،پولیس،فرنٹئیر کانسٹیبلری اور انٹیلی اجینسیوں کیساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہو۔ تاہم کرپشن ذدہ حکومت نے عوام کو پے درپہ مہنگائی کا تحفہ دیکر مایوسی میں مبتلا کر رکھا ہے جس سے عوام اور اداروں میں خلیج بڑھ رہی ہے۔معاشی پریشانیوں کے بوجھ تلے دبے عوام اس حقیقت سے بیخبر ہیں کہ پاکستان بیرونی ملکوں کے دباو اور خطرات کا شکار ہے .جنوبی ایشیا میں چین کے ایک بڑے حلیف اور ایٹمی ہتھیار سے مسلح ایک بڑی فوج رکھنے کی وجہ سے پاکستان کا گھیراؤ  امریکہ اور بھارت کی متفقہ کوششوں کیساتھ شروع ہوا جسکا مقصد پاکستان کو چین کے اتحاد سے ممکنہ حد تک دور ہٹانا اور بھارت کیساتھ دوستی کے بیانیہ میں بھارت کی بالا دستی کو بلا چون و چراں تسلیم کرانا ہے۔امریکہ اوربھارت کی طرف سے پاکستان پر بڑھتے ہوئے دباؤ میں بھارت کی طرف سے مشرقی پاکستان کی طرح بلوچستان میں صوبائی خودمختاری اور قومی حقوق کی لڑائی کو استعمال کرنے کیلئے ہر ممکن منصوبہ بندی اورعملی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ بلوچستان میں ہونیوالے ہر چھوٹے بڑھے واقعہ کو بلوچستان کیساتھ ہونیوالی زیادتیوں اور ناانصافیوں کو افسانوی اور جذباتی رنگ دے کر تسلسل کیساتھ تنقیدی مضامین،کالمز،یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا پر اچھالا جارہا ہے تاہم دوسری جانب یہ ہمارا بھی قومی فرض ہے کہ بلوچستان میں افلاس اور پسماندگی کے جن مسائل اور شکایات کی وجہ سے لوگوں کے جذبات کو ہوا دینے کا موقع ملتا ہے۔ہم ان جائز مسائل اور شکایات کا پائیدار اور منصفانہ حل تلاش کریں تاکہ دشمن اوراسکی جاسوس ایجنسیاں ہماری اندرونی صورتحال اور داخلی کمزوری کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا پائیں۔
گزشتہ روز قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی سے خطاب میں آرمی چیف سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ "پائیدار استحکام کیلئے قومی طاقت کے تمام عناصر کو ہم آہنگی کیساتھ کام کرنا ہوگا۔"انھوں نے مذید کہا کہ "بہتر گورنس کیلئے مملکت پاکستان کو" ہارڈ سٹیسٹ" بنانے کی ضرورت ہے۔ہم کب تک ایک "سافٹ سٹیٹ" کی طرز پر بے پناہ جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے" آرمی چیف کے بیان کو سامنے رکھتے ہوئے قیام پاکستان سے لیکر آج تک گزشتہ 78 برس کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ ہم "ہارڈ سٹیٹ" یا "سوفٹ سٹیٹ" کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں جبکہ ہماری منزل ویلفیئر سٹیٹ ہونی چاہئے تھی۔اصل کام اس نوذائیدہ ریاست کو ویلفیر سٹیٹ بنانا تھا تاکہ عوام کو سکھ اور چین کا سانس نصیب ہوتا. ریاست کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی ضرورت تھی۔کیونکہ ایک مضبوط ریاست ہی قومی سلامتی کی ضامن ہوسکتی ہے تاہم پہ در پہ انے والی حکومتوں کا مطمع نظر فقط لوٹ مار اور عیاشی ٹھرا جسکے نتیجے میں حکمران طاقتور ہوتے گئے جبکہ ریاست اندر سے کمزور ہوتی گئے۔کمزور ہونے کے باعث ہم عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کے رہ گئے اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہم ترقی کی منزل سے کوسوں دور کھڑے ہیں۔
طب کی سائینس کا اصول ہے کہ مدافعتی نظام اگر مضبوط ہو توباہرکا وائرس کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔باہر کا وائرس صرف اسی صورت حملہ آور ہوتا ہے جب اندرونی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہ اندرونی خلفشار کا شکار ہے جسکے باعث بیرونی طاقتوں کو موقع میسر آتا ہے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد کیلئے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے سکیں۔گویا بیماری فرسودہ ترین سسٹم کے اندر موجود ہے جسکی وجہ سے ریاست کی رٹ کمزور  ہو رہی ہے۔ریاستی رٹ کی کمزوری کی دوسری اہم وجہ سیاسی جماعتوں کے درمیان قومی ایشوز پر یکجہتی کا فقدان ہے۔مثال کے طور پر مرکزی حکومت کہہ رہی ہے کہ افغان مہاجرین کو واپس بھجا جائے جبکہ KP کی صوبائی حکومت ان مہاجرین کو نیشنیلٹی دینے کی باتیں کر رہی ہے جسکے باعث عوام کنفیوثزن اور عدم اعتماد کا شکار ہیں۔۔سیاسی عدم موافقت غیر یقینی صورتحال کو جنم دے رہی ہے جسکے باعث معاشی صورتحال ابتر ہو رہی ہے.ہماری صنعتیں،کارخانے اور فیکٹریاں دوبئی اور دوسرے ملکوں میں شفٹ ہو رہے ہیں۔ٹیکسٹائیل انڈسٹری تقریبا ختم ہوچکی ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ممالک سے چینی آرہی ہے جو سرے سے چینی پیدا ہی نہیں کرتے۔کیا کوئی تصور کر سکتا تھا کہ ہم دوبئی سے چینی خریدیں گے؟.نااہل قیادتوں نے پاکستان کا یہ حال کر دیا ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان دالیں، چنا، گندم اور دوسری اجناس امپورٹ کرتا ہے
   قومی سلامتی ہمیشہ قومی معشیت کیساتھ جڑی ہوتی ہے جبکہ معیشت کی بہتری قومی اتفاق رائے کیساتھ منسلک ہوتی ہے .قومی اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث کالا باغ ڈیم نہ بن سکا اور نہ ہی اس اہم قومی ایشو کو سنجیدگی سے ایڈریس کرنے کا کوئی طریقہ سامنے آسکا۔
قومی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے ضروری تھا کہ ہم معشیت میں بہتری لانے کی جستجو کرتے۔صنعت و حرفت اور زرعی معیشت میں خود کفیل ہوتے۔تاہم یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہم نہ تو صنعتی ترقی کی طرف توجہ دے سکے اور نہ ہی  زرعی پیداوار میں اضافہ کر سکے گرین پاکستان کا پروگرام جسکے تحت ہمارے جولستان کے صحراوں نے سرسبز وادیوں میں تبدیل ہونا تھا قیادت کی نااہلی کے باعث کھٹائی میں  
پڑھ چکا ہے..وطن عزیز میں عام آدمی حقیقی معاشی مساوات اور سماجی انصاف سے محروم ہے جبکہ حکمران آج بھی ملک کی دولت لوٹ کر بیرون ملک بھیج رہے ہیں.قومی سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھتے  ہوئے یہ صورتحال یقینی طور پر تبدیل ہونی چاہئے .
 ہمارے آباو اجداد نے پاکستان اس لئے نہیں بنایا تھا  کہ ہماری قومی سلامتی اور قومی خود مختاری کوخطرات لاحق ہوں۔اور اقوام عالم میں ہمیں پسماندگی کا سامنا کرنا پڑھے۔قومی سلامتی اور خود مختاری کا حصول کوئی ایسا خواب بھی نہیں کہ جسکی تعبیر ممکن نہ ہو شرط صرف یہ ہے کہ یہ تبدیلی محض نعروں اور تقریروں سے نہیں بلکہ عملی جدوجہد کی متقاضی ہے!!

اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ… سفیر حق

ای پیپر دی نیشن