مجھے تمْ اچھّے  لگتے ہو

گزشتہ سال فیصل آباد میں ممتاز شاعرہ اور ادبی دانشور ڈاکٹر عائشہ ظفر عاشی کی شاعری کی کتاب ‘‘ بھیگتی آنکھ کا دْکھ’’ کی تقریبِ رْونمائی میں بحیثیّت صدرِ تقریب ممتاز ادبی شخصیّات ڈاکٹر شیر علی اور وحید احمد کے ساتھ اسلام آباد سے شرکت کی تو وہاں ڈاکٹر شاہد ندیم کی کتاب کے بارے میں علمی اور ادبی تقریر نے بہت متاثر کیا۔ آپ نے اپنا شعری مجموعہ ‘‘ صرف تْم ‘‘ بھی مرحمت فرمایا جس پر میں نے ایک کالم  میں اظہارِ خیال کیا تھا۔ میں آپ کی شاعری اور شخصیّت کے علاوہ آپ کی ادبی اور علمی استعداد کا معترف ہو گیا۔ آپ ایک سائینس دان ہوتے ہو? بھی عمدہ شاعر ہیں جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ شاعر پیدائشی شاعر ہوتا ہے یہ کسی مکتب یا مدرسہ کی پیداوار نہیں ہوتا۔ بقولِ مرزاغالب
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں 
غالب صریرِ خامہ نوا? سروش ہے 
۵۱ فروری ۴۲۰۲ کو ڈاکٹر شاہد  ندیم اور محترمہ ڈاکٹر  عائشہ ظفر عاشی فیصل آباد سے اسلام آباد میری رہائش گاہ پرتشریف لا?۔ شاعری کے جدید اور عالمی تقاضوں پر تبادل? خیال رہا۔ ڈاکٹر شاہد ندیم نے اپنے تازہ کلام کا مسودہ بعنوان ‘‘ مجھے تم اچھّے لگتے ہو’’ دیا اور اس کا دیباچہ لکھنے کی فرمائش کی۔ میں نے اس مسودے کا عمیق نظر اور نہایت دلچسپی سے مطالعہ کیا۔ یہ کتاب اْن کی غزلیات اور منظومات پر مشتمل ہے۔ کلاسیکی رنگ اور جدید آہنگ کا حسین امتزاج ہے۔ کتاب میں عرضِ مْصنف کے باب میں وہ خود اپنی شاعری کا جواز اور پیغام بعنوان ‘‘ میری تحریک ہی میری زبان ہے’’ میں رقم طراز ہیں۔’’ معاشرہ بنیادی طور پر دو ہی جذبوں سے تحریک پاتا ہے۔ محبّت اور نفرت۔ یہ ہمارا انتخاب ہے کہ ہم کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کس کو اپناتے ہیں۔ مَیں نے زندگی کو جتنے قریب سے دیکھا مجھے وہ اْتنی ہی خوبصورت نظر آئی۔ مَیں اکثر سوچتا ہوں کہ زندگی تو محبّت کے لیے بھی بہت تھوڑی ہے، لوگ نفرتوں کے لیے وقت کہاں سے نکال لیتے ہیں’’۔ گویا ڈاکٹر شاہد ندیم ‘‘ شاعرِ محبّت’’ ہیں۔ میری رائے میں محبّت جتنی زیادہ ہو پھر بھی کم ہے اور نفرت جتنی کم ہو پھر بھی زیادہ ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی اور مذہبی شعبدہ بازوں نے نفرت پھیلائی اور اپنے ناپاک عزائم اور مقاصد کے لیے انسانوں کا قتلِ عام کیا جبکہ شاعروں نے محبّت اور انسانیّت کو عام کیا اور امن کا پیام دیا۔ جنگ و جدل اور خونریزی سے نفرت کی۔ بقولِ علامہ اقبال
ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہر یاری ہے 
قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے۔
ڈاکٹر شاہد ندیم نہ صرف محبّت کے بلکہ غیر مشروط محبّت کے قائل ہیں۔ ‘‘ غیر مشروط محبّت’’ کے عنوان سے ایک نظم میں ببانگِ دہل اعلان کرتے ہیں کہ مصلحت آمیز اور مشروط محبّت، محبّت نہیں ہوتی۔ شرائط پر شادیاں تو ہوتی ہیں مگر سچّی محبّت دل کا معاملہ ہوتا ہے اور دل کی دنیا میں ‘‘ سْود و زیاں’’ نہیں ہوتا۔ آپ کی ایک نظم جس کا عنوان’’ وجہ’’ ہے اور اسی نظم سے کتاب کا عنوان لیا گیا ہے۔اْس میں لکھتے ہیں:
‘‘تم سے محبّت کی وجہ بس ایک ہے
         جاناں 
مجھے تم اچھّے لگتے ہو’’
ایک نظم میں وہ ‘‘ محبّت کرنا’’ اور ‘‘ محبّت ہونا’’ کے باریک فرق کو بڑی خْوبی سے بیان کرتے ہیں۔ گویا محبّت کی نہیں جاتی، محبّت ہو جاتی ہے۔ 
اس کتاب میں اکثر نظمیں رومانوی ہیں جن میں ‘‘ وہ شعلہ بداماں حسین چہرہ’’، ‘‘ وہ آنکھیں’’، ‘‘ مجھے محبّت سکھا گیا تھا’’، ‘‘ رازِ زندگی’’، ‘‘ محبّت ہار جاتی ہے’’، جو اک مْسکراہٹ ہے’’، ‘‘ کہیں نہ دیر ہو جا?’’ اور ‘‘ تری آنکھیں’’ رومانوی نظمیں ہیں۔ ‘‘ کبھی شاعر بنا تو’’ آپ کی نظموں میں ایک نمائندہ نظم ہے جو ایک طویل نظم ہے جس میں اپنی محبوبہ سے مخاطب ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر میں شاعر بنا تو وہ سب کچھ تجھ پر لکھوں گا جو ہر رنگِ جہاں کا مظہر ہو گا۔ یہ بہت رواں اور لاجواب نظم ہے اور تعریفِ حْسن و عشقِ محبوبہ میں اردو ادب کی شہکار نظموں میں اس کا شمار کیا جا سکتا ہے۔
ایک غزل میں کہتے ہیں 
کبھی حسرت سے جس کو ڈھونڈتا تھا خواب میں وہ 
محبّت اب تری آنکھوں میں اکثر دیکھتا ہوں 
آپ کی شاعری میں نظامِ زور و زر اور مملکتِ جبر و جور کے خلاف سخت احتجاج پایا جاتا ہے۔ ایک غزل میں کہتے ہیں۔
مگرمچھوں میں رہتا تھا، مجھے معلوم کیا ہوتا 
جو سنگِ راہ چْنتا ہو، وہی سنگسار ہوتا ہے 
مرتّب کر لیا قانون، بس اطلاق باقی
ہے
وہ جس کے ساتھ پْورا مْلک ہو غدّار ہوتا ہے 
ایک انقلابی نظم جس کا عنوان ‘‘ ترجماں دے دو’’ ہے اْس میں ایک شعر یوں ہے۔
اگر میں بھی رہا خاموش تو پھر کون بولے گا
اگر اب بھی کیا نہ ہوش تو پھر کون بولے گا 
ایک دوسری غزل کے دو انقلابی شعر سْنیے اور سر دْھنیے  ۔ کہتے ہیں۔
قفس کا قْفل ٹْوٹے یا نہ ٹْوٹے
مگر میں ہار جانے کا نہیں ہوں
سرِ مقتل میں چڑھ کے بولتا ہوں
پسِ دیوار جانے کا نہیں ہوں 
   ‘‘ تہیّہ کر لیا میں نے’’، ‘‘ بغاوت’’، ‘‘ خوف زدہ زندگی’’ اور ‘‘ حسبِ حال’’ ایسی نظمیں ہیں جو کسی آتش فشاں سے کم نہیں۔ 
حب الوطنی ہر محّبِ وطن کا ایمان ہوتا ہے۔ آپ کی شاعری میں حْبِ وطن شعلہ طْور کی طرح روشن ہے۔ کہتے ہیں۔
میں نے جہان بھر کے گْلستاں کی سیر کی 
میری زمیں کی اور ہے خوشبو ہواؤں میں 
مادرِ وطن کی محبّت کے ساتھ ساتھ اْنہیں اپنے گاؤں سے بھی والہانہ محبّت ہے۔ 
‘‘ مرے گاؤں کی مٹّی میں’’ طویل نظم ہے جو شاعر کی اپنے گاؤں سے دلبستگی اور وابستگی کی داستانِ محبّت و عقیدت ہے۔ اسی طرح ‘‘ سمندر ‘‘ جو ایک طویل نظم ہے۔ یہ زندگی کے رازہا سربستہ اور رموزِ حْسن و عشق کو عیاں کرتی ہے۔ 
آپ نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو دیکھا ہے۔ آپ گرم و سردِ جہاں چشیدہ ہیں۔ لیکن آپ اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔ کہتے ہیں۔
کون سمجھا ہے زندگی تجھ کو 
اک معمّہ بہت پرانا ہے 
فانی بدایونی نے زندگی کے بارے میں کہا تھا۔
اک مْعمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا زندگی کاہے کو ہے، خواب ہے دیوانے کا 
زندگی خواب بھی ہے اور مْعمہ بھی ہے لیکن زندگی ایک حقیقت بھی ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں? 
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر 
ترا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ 
ڈاکٹر  شاہد ندیم کی شاعری میں زندگی کے مْعمّے کا ٹھوس حل صرف اور صرف ایک پیغام میں مْضمر ہے اور وہ ہے’’ میرا پیغام محبّت ہے جہاں تک پہنچے’’۔ 
۷۱ فروری ۵۲۰۲

ای پیپر دی نیشن