بُہتان طرازی…  سنگین معا شرتی بُرائی

اخلاقی رذائل میں بُہتان طرازی یا تُہمت وہ بدترین گُناہ ہے کہ جس کے متعلق قرآن و حدیث میں متعد بار سر زنش کی گئی ہے اور اس سے بچنے اور اس کے وبال کا ذکر کیا گیا ہے۔یہاں تک کہ قرآن میں اس جرم کی سنگینی کے پیشِ نظر اس کی سزا  ’حدِقذف‘ تک مقرر کر دی گئی ہے۔ شرعی اصطلاح میں وہ بُرائی جو کسی شخص میں سرے سے موجود ہی نہ ہواور اُس سے منسوب کر دی جائے یا اُس بے گناہ  کے سر اِس لیئے تھوپ دی جائے کہ اُس کی تذلیل و بدنامی مقصود ہو اِسے تُہمت یا اِتّہام کہتے ہیں۔جیسا کہ سورۂ الاحزاب،آیت 58 میں الّٰلہ تعالیٰ فرماتے ہیں،  ’اور جو لوگ مومن مرد اور عورتوں کو ایسے کام سے جو اُنہوں نے نہ کیا ہوایذا دیں تو اُنہوں نے بہُتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سرپر رکھا‘۔یہاں پر ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تُہمت کے دائرہ کار میں بہت سی بُرائیوں کے ذریعے سے بہُتان طرازی شامل ہے مثال کے طور پر چوری، غلط بیانی، خیانت اور کسی کی اولاد کو دوسرے مرد کی طرف منسوب کر دیناوغیرہ۔ یہاں تک کہ اِس بُرائی کی انتہائی صورت کو قُرآنِ کریم نے  ’اِفک‘ کے نام سے موسوم کیا ہے اور شرعی اصطلاح میں اِفک اُس جھوٹ کے پُلندے کو کہتے ہیں جس میں کسی پاک دامن مردوعورت پر زنا یا اِس سے متعلق تعلقات کا جھوٹا الزام لگایا جائے۔ جب ابوالمُنافقین عبدالّٰلہ بن اُبٔی نے حضرت عائشہ ؓ پر مکروہ سازش کے تحت تہمت لگائی تو الّٰلہ عزّو جل نے سورۂ  نور کی دس آیات نازل فرما کر حضرتِ عائشہؓ کی برأت کا اعلان کیااور قیامت تک یہ آیات تلاوت کی جاتی رہیں گی اور حضرتِ عائشہؓ کی فضیلت بیان کرتی رہیں گی۔  لہذٰاسورۂ نور آیت 4 اور 5 میں الّٰلہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا  ’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ نہ لے کر  آئیں، اُن کو  اسّی کوڑے مارو اور اُن کی شہادت کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود ہی فاسق ہیں‘۔ اسی طرح آیت نمبر ۱ ۱ میں فرمایا گیا کہ  ’جو لوگ یہ بُہتان گھڑلائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں۔ اس واقعے کو اپنے حق میںشر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمھارے لیئے خیر ہی ہے۔ جس نے اس میں جتنا حصّہ لیااُس نے اُتنا ہی گناہ سمیٹا اور جس شخص نے اِس کی ذمّہ داری کا بڑا حصّہ اپنے سر لیا اُس کے لیئے تو عذابِ عظیم ہے۔ جس وقت تم لوگوں نے اِسے سُنا تھا اُسی وقت کیوں نہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اورکیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بُہتان ہے۔اور وہ لوگ چار گواہ کیوں نہ لائے‘۔ مندرجہ بالا آیات میں نہ صرف حضرتِ عائشہؓ کی برأت ہوئی بلکہ ایسی جھوٹی اور فحاشی کی خبریں پھیلانے والوں کے لیئے اسّی کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی اور ان کی گواہی کسی مسلمان کے حق میں قبول نہ کرنے کی تاکید کی گئی اور اُنہیں فاسق قرار دیا گیا۔اس قسم کے واقعات میں یہ بھی تاکید کر دی گئی کہ جو کوئی ایسی خبریں پھیلانے یا جرح کرنے میں جتنا شامل ہو گاوہ اُتنا ہی گناہ گار ہو گایہاں تک کہ اِن آیات میں مسلمانوں کے لیئے ایک قائدہ کلیہ بھی مقرر کر دیا گیا کہ اسلامی معاشرے میں فواحش کو رواج دینے کے بجائے حسُنِ ظن کو فروغ دیا جائے یعنی معاشرے میں اجتماعی تعلقات کی بنیاد باہمی حُسنِ ظن پر ہو نی چاہیئے۔ مگربدقسمتی سے دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس قسم کے واقعات میں لوگ مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے کسی بھی عورت یا مرد کی کردار کشی میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ طلاق و خُلع کے مقدمات میںمرد و عورت کا اپنے دفاع میں ایک دوسرے پر بدکردار ہونے کی تہمت لگانا معمول بن گیا ہے۔ صد افسوس کہ ہمارے وکلا حضرات ان مقدمات میںفریقین کو اپنے دفاع یا غلطیوں کو چھپانے کے لیئے جھوٹ اور بہتان طرازی جیسے بُرے عمل کو مزید تقویت دے کر سنگین گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جبکہ الّٰلہ تبارک و تعالیٰ سورۂ ھمزہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ  ’ تباہی و بربادی ہے ایسے تمام لوگوں کے لیئے جو انسانوں کو طعنے دیتے رہتے ہیں اور ان کے عیبوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں‘۔ الّٰلہ تعالیٰ ستّارُالعیوب  یعنی عیبوں پر پردہ ڈالنے والاہے اور اُس کا یہ صفاتی نام ہم سے اسی بات کا متقاضی ہے کہ ہم بھی دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالیں نہ کہ اُن کی تشہیر میں جھوٹ کی انتہا یعنی تہمت طرازی پر اُتر آئیں۔ یہ ہمارے اخلاق کے انتہائی پستہ ہونے کی دلیل ہے۔ہمارے معاشرے میںہم خواتین کو دوسروں کے بارے میں ہمیشہ حسنِ ظن رکھنا چاہیئے کسی کی بہن بیٹی یا کسی مرد پر ظاہری بنیاد پر قیاس کر کے کوئی الزام یا ایسی بات نہیں کرنی چاہیئے جس سے اُس کی کردار کُشی ہوتی ہو۔ کیونکہ الّٰلہ تعالیٰ نے سورۃ الممتحنہ میں رسولِ کریمؐ  کو عورتوں سے قبولیت ِ اسلام کے لیئے جن باتوں پر بیعت لینے کا حکم دیااُن میں سے ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ وہ کسی پر بُہتان نہیں باندھیں گی۔اس عہد کے پیشِ نظر ہمیں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور بلاتحقیق و بلاجواز لوگوں کے کردار پر قیاس آرائیاں صریح گُناہ کا مرتکب کر سکتی ہیں۔ اِسی طرح ہمارے سیاستدان بھی میڈیا پر بیٹھ کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیئے انتہائی بیباکی سے ایک دوسرے پر بہتان طرازی کرتے ہوئے اور حق بات کو جانتے ہوئے بھی بڑی ڈھٹائی سے مجرموں کی حمایت کرتے ہیں اور یہی ساری چیزیں ہماری نسلیں اپنی قیادت سے حاصل کر رہی ہیںغرض یہ کہ ہمارے معاشرے میں تُہمت جیسا صریح گناہ اب گناہ نہیں بلکہ معمول کی حیشیت اختیار کرچکا ہے جبکہ الّٰلہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم  کی سورۂ النساء میں واضح طور پر بیان کر دیا ہے کہ  ’بددیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو اور جو خائن لوگ ہیں اُن کی حمایت نہ کرو۔ الّٰلہ کو ایسا شخص پسند نہیں جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو‘۔یہاں خائن سے مراد جھوٹ کی حمایت اور الزام تراشی کے ذریعے معاشرتی بدنظمی پیدا کرنا ہے جو کہ قرآنی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ اس ضمن میںرسولِ پاکؐ نے فرمایا کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اُسے بلا تحقیق آگے بیان کر دے۔یہ بات ہمارے لیئے دعوتِ فکر ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو اِن باتوں کی تشہیر سے کیا سبق دے رہے ہیں؟ ۔ ضروری ہے کہ ہماری ریاست تہُمت جیسے جرم کی سنگینی کو  سنجیدگی سے سمجھے کہ یہ اُن بڑے گناہوں میں سے ایک ہے جن پر الّٰلہ تعالیٰ نے حدیں جاری کی ہیں اور معاشرے پر اِس کے کیا مُضر اثرات مُرتب ہوتے ہیں۔ لہذا  اس سنگینی کے پیشِ نظر ریاست کو حدِ قذف کے نفاذ کو یقینی بنانا چاہیئے ۔علاوہ ازیں بچوں کے تعلیمی نصاب میں بھی اس بُرائی کے متعلق آگاہی فراہم کی جانی چاہیئے اور اسی طرح مساجد میںبھی خطبات اور درس و وعظ کے ذریعے اِس بُرائی سے بچنے کی ترغیب دی جانی چاہیئے تاکہ یہ گناہ جو ہمارے معاشرتی معمول میں وبا کی طرح سرائیت کر چکا ہے اُس کا تدارک ہو سکے۔

ای پیپر دی نیشن