رانا زاہد اقبال فیصل آباد ranazahd@gmail.com
ترقی یافتہ ممالک نے اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے ساتھ سماجی شعبوں بالخصوص تعلیم، صحت، غربت کے خاتمے اور شہریوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے پر بہت توجہ دی۔ ایک ناخواندہ اور بیمار معاشرہ کبھی ترقی کی منزلیں طے نہیں کر سکتا۔دیگر پسماندہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سماجی شعبوں کی حالت نہایت دگرگوں ہے اور ان شعبوں میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ ابتداء ہی سے ہماری حکومتوں نے سماجی ترقی کے لئے کوئی ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ بڑھتی ہوئی سماجی تفریق اور غربت انسانی معاشرے کے لئے ناسور بن چکی ہے ۔ ماہرین کی نظر میں غربت و افلاس اقتصادی اور سماجی مسئلہ ہے۔سماج کا ایک طبقہ اگر زندگی کی بنیادی اوراہم ضروریات جیسے غذا، کپڑا، مکان، صاف ستھری ہوا، پانی علاج معالجہ سے بڑی حد تک محروم رہتا ہے ۔ غربت کسی بھی معاشرے میں اس سماجی تقسیم کا نام ہے جس میں چند افراد معاشرے کے وسائل پر قابض ہو جائیں جبکہ دوسری طرف معاشرے کا بڑا گروہ اس کے برعکس اپنی بنیادی ضروریات کے حصول سے بھی محروم ہو جائے۔ زندگی کو خوشحال و مطمئن بنانے والے وسائل پر قدرت رکھنے کا اہم ذریعہ آمدنی ہے جو روزگار، تجارت، کاروبار اور خدمات سے حاصل ہوتی ہے جبکہ یہ آمدنی اقتصادی و مادی وسائل پر جن کے ذریعے زندگی کو آسودہ و خوشحال بنایا جا سکتا ہے خرچ کر دی جاتی ہے، اس لئے آمدنی اور اخراجات مساوی ہوتے ہیں۔ جدید دنیا میں بڑھتی ہوئی بھوک اور افلاس کا مسئلہ ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔ حقیقت ہے کہ دنیا میں ہر سال ہزاروں افراد قحط کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ لاکھوں افراد خوراک کی کمی کے باعث جسمانی طور پر مفلوج ہو جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان میں شرح غربت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق 80فیصد بچے اور نوجوان غربت کا شکار ہیں۔اس اعتبار سے چائلڈ لیبر بڑھ رہی ہے۔ چائلڈ لیبر سے مراد یہ بھی ہے کہ بچے کو اس کے حقِ تعلیم و تفریح سے دور کر کے چھوٹی عمر میں کام پر لگا دیا جائے۔غربت چائلڈ لیبر کا بہت بڑا سبب ہے عام طور پر ایسے والدین جو بچوں کی تعلیم کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے یا کسی وجہ سے خود کمانے کے قابل نہیں رہتے یا ان کی کمائی کم ہوتی ہے مگر زیادہ افراد کی کفالت ذمہ ہوتی ہے تو ایسے والدین اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں کام پر لگا دیتے ہیں۔جب چھوٹی عمر میں کھلونوں کے بجائے پھول جیسے ہاتھوں میں اوزار اورگندے برتن صاف کرنے لے لئے تھما دئے جاتے ہیں تو چائلڈ لیبر جنم لیتی ہے۔ یہ صورتحال اس وقت زیادہ گھمبیر ہو جاتی ہے جب معصوم بچوں سے صرف زبردستی مشقت ہی نہیں لی جاتی بلکہ ان کا دیگر کئی طریقوں سے بری طرح استحصال کیا جاتا ہے۔ بچوں کو ملازمت کے دوران چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بعض اوقات تو بلا جواز سخت جسمانی سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔
بچوں سے کھلے عام جبری مشقت لی جاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ظالم جاگیر دار، بدکردار وڈیرے، لٹیرے، بعض سرمایہ دار اور سود خور افراد ان بچوں کو زبردستی پر تشدد مشقت پر لگائے ہوئے ہیں۔ یہ افراد اسکول نہیں کھولنے دیتے اس لئے کہ اگر غریب طبقے کے بچے پڑھ لکھ گئے تو ان کی نوکری کون کرے گا۔ اس سے تو ان کا ٹھاٹھ باٹھ چل رہا ہے۔ اس لئے کوئی سکول کسی بھی جاگیردار کی ریاست کے قریب نہ بن سکا۔ ملک کی 50فیصد سے زائد آبادی حالات کے رحم و کرم پر ہے اوران کی بہتری کے لئے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ روزانہ ہر ساتواں بچہ جنسی تشدد کا شکار ہو رہا ہے ہر چوتھے گھر میں ایک بچہ نوکری کر رہا ہے۔ یہ جسمانی تشدد ہی ہے چاہے وہ سکولوں میں ہو یا گھروں میں بچے باغی ہو کر گھروں سے نکل پڑتے ہیں اور پھر سڑکوں اسٹیشنوں، لاری اڈوں اور سینماؤں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ در اصل حقوقِ اطفال نام کی کوئی چیز ہماری سیاسی جماعتوں کے منشور میں نہیں ہے
14-15 سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد آبادی کا چوتھا حصہ ہے۔ چائلڈ لیبر سے معاشرے پر انتہائی اثرات مرتب ہو رہے ہیں مثلاً ناخواندگی میں اضافہ ہو رہا ہے، بچے جس وقت سارا دن کام کرتے رہیں گے تو انہیں پڑھنے کا ٹائم نہیں مل سکتا۔ جس کی وجہ سے دن بدن ناخواندگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح معاشی معاشرتی استحصال بھی ہوتا ہے بچوں سے ایک طرف تو زبردستی کام لیا جاتا ہے اوردوسری طرف آدھی تنخواہ دی جاتی ہے اور اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ان سے کام بھی کروا لیا جاتا ہے اور کچھ دیئے بغیر واپس بھیج دیا جاتاہے اور پھر معاشرہ انہیں عجیب و غریب نظروں سے بھی دیکھتا ہے۔ یوں بیمار معاشرے کی تخلیق ہوتی ، اگر آپ ایک نئے پودے پرپتھر ماریں تو وہ ٹوٹ جائے گا جب کہ درخت کبھی ایک پتھر سے نہیں ٹوٹا کرتے۔ اسی طرح بچوں پر بھی وقت سے پہلے بوجھ ڈال دیا جائے تو وہ مرجھا جائیں گے۔ چائلڈ لیبر کے دوران گالیوں اور مار کے سوا کچھ نہیں ملتا، تھپڑ مارے جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں چائلڈ لیبر کے محاذ پرکام کرنے والے افتخار مبارک، راشدہ قریشی اور طاہر اقبال سے ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کیا ملوں فیکٹریوں میں کم عمر بچے کام کرتے ریاست کو نظر نہیں آتے؟ کیا وہ بچے وہاں اڑ کر جاتے ہیں؟ یا زیرِ زمین راستوں کے ذریعے ملوں، فیکٹریوں میں داخل ہو تے ہیں؟ یہ سب کچھ ریاست کے سامنے ہو رہا ہے لیکن اربابِ اختیار نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ اسی لئے چائلڈ لیبر کی بیماری عروج پر ہے اور لاعلاج مرض کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ چائلڈ لیبر کے لئے بنائے گئے قوانین کا یہ عالم ہے کہ آج تک کسی کو سزا نہیں ملی نہ مالکان کو اور نہ ہی ایسے والدین کو جو بچوں سے جبری مشقت کروانے کے لئے ان کی زندگی کی ڈور دوسروں کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں۔ ان کا مزیدکہنا تھا کہ حکومت انٹرنیشنل لیبر کنونشنز پر سائن تو کر دیتی ہے لیکن اس کی ہدایات کو نظر انداز کئے رکھتی ہے۔ جس سے ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں جن سے بیرونی دنیا میں ملک کا منفی تاثر ابھرتا ہے۔