ڈاکٹر ناصر خان
زندگی ہمیشہ ایک پہیلی رہی ہے—کبھی خوشی، کبھی غم، کبھی سکون، کبھی بیچینی۔ ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی طور پر زندگی کے امتحانات سے گزرتا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ زندگی ایک امتحان ہے، ہر لمحہ ایک سوال، اور ہر فیصلہ ایک جواب۔
زندگی محض ایک سادہ سفر نہیں بلکہ ایک مسلسل امتحان ہے، جہاں ہر لمحہ ہمیں ایک نئے سوال کے ساتھ پرکھا جاتا ہے، اور ہمارے ہر فیصلے کا اثر نہ صرف ہمارے حال پر بلکہ مستقبل پر بھی پڑتا ہے۔ فلسفے کے تناظر میں دیکھا جائے تو زندگی کی یہ آزمائشیں ہمیں وجودی (existential) مسائل کی طرف دھکیلتی ہیں—ہم کون ہیں؟ ہم یہاں کیوں ہیں؟ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ سقراط کے مطابق، "حقیقی حکمت یہ ہے کہ ہم اپنے فیصلوں کی روشنی میں اپنی زندگی کی سچائی کو جاننے کی کوشش کریں، نہ کہ اندھی تقلید کریں۔" ہر لمحہ جو سوال زندگی ہم سے کرتی ہے، اس کا جواب ہمارے شعور، تجربے اور فکری بلوغت پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر انسان اپنے فیصلے بغیر غور و فکر کے کرے تو وہ نہ صرف اپنی ذات کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ معاشرے میں بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ لہٰذا، زندگی کے سوالوں کے جوابات شعوری اور فکری بنیادوں پر دینے کا ہنر سیکھنا ضروری ہے۔
انسان کا ہر فیصلہ اس کی شخصیت، جذباتی کیفیت اور سماجی اثرات کا عکاس ہوتا ہے ہر انتخاب درحقیقت ہماری اندرونی نفسیاتی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے، اور ہر فیصلہ ہماری لاشعوری (subconscious) ترجیحات کو آشکار کرتا ہے۔جب انسان کسی مشکل لمحے میں ہوتا ہے، تو اس کے سامنے کئی راستے کھلتے ہیں، مگر وہ جس راستے کا انتخاب کرتا ہے، وہ اس کی ذہنی کیفیت، خوف، امید اور ماضی کے تجربات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ہمارے فیصلے صرف ہمارے ذاتی معاملات پر اثر نہیں ڈالتے بلکہ ایک سماجی دائرے (social sphere) میں گونجتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ایک فرد ایمانداری کا راستہ چنتا ہے تو اس کے اردگرد کے لوگوں میں بھی دیانتداری کا رجحان پیدا ہوتا ہے، اور اگر وہ بیایمانی کو چنتا ہے تو سماج میں بگاڑ پیدا ہونے لگتا ہے۔ اس طرح، زندگی کے ہر لمحے میں کیے گئے فیصلے ایک اجتماعی اثر رکھتے ہیں جو پوری سوسائٹی کو متاثر کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ زندگی میں سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا ضروری ہے، کیونکہ ہر لمحہ جو سوال ہم سے پوچھا جاتا ہے، وہ ہماری اخلاقی، فکری اور عملی تربیت کا امتحان ہوتا ہے۔ ایک درست فیصلہ نہ صرف انسان کی زندگی میں استحکام پیدا کرتا ہے بلکہ اس کے لیے نئے مواقع پیدا کرتا ہے، جبکہ ایک غلط فیصلہ لمبی مدت تک منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔ البیر کامو کے مطابق، "زندگی ہمیں بار بار ایک نیا موقع دیتی ہے، مگر اس کا بہترین فائدہ وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو اپنے فیصلوں کی گہرائی کو سمجھتے ہیں۔" یہی وجہ ہے کہ ذمہ دارانہ اور باخبر فیصلے کرنا زندگی کے ہر امتحان کا بہترین جواب ہے۔
ہر شخص زندگی کے کسی نہ کسی امتحان سے گزر رہا ہوتا ہے، مگر اصل کامیاب وہی ہیں جو ان آزمائشوں میں ثابت قدم رہتے ہیں۔زندگی کو آسان بنانے کی خواہش فطری ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ مشکلات اور آزمائشیں اس کا لازمی حصہ ہیں۔ فریڈرک نطشے ( Nietzsche Friedrich) کا قول "وہ جو ہمیں مار نہیں سکتا، وہ ہمیں مزید مضبوط بناتا ہے" زندگی کی اس حقیقت کو بخوبی بیان کرتا ہے۔ مشکلات اور چیلنجز درحقیقت ہمیں نکھارتے ہیں، ہماری شخصیت کو جلا بخشتے ہیں، اور ہمیں مضبوطی عطا کرتے ہیں۔ اگر زندگی آسان ہوتی تو انسان کبھی ترقی نہ کرتا، نہ ہی کوئی سیکھنے کی خواہش رکھتا۔ یہی اصول کامیابی پر بھی لاگو ہوتا ہے، کیونکہ ہر کامیاب انسان کی زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس نے بے پناہ مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کیا۔ رومی فرماتے ہیں: "دھوپ سہو گے تو ہی روشنی نصیب ہوگی۔" یہی اصول ہر کامیابی کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے، کیونکہ عظمت اور ترقی ہمیشہ سخت محنت، قربانی اور صبر کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔
زندگی کا اصل حسن اس کی پیچیدگی اور مشکلات میں پوشیدہ ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: "مصیبت پر صبر کرنا سب سے بڑی بہادری ہے۔" دنیا کے بڑے مفکرین اور صوفیا نے ہمیشہ یہی درس دیا کہ اگر ہر چیز آسان ہوتی تو زندگی بے رنگ ہو جاتی، اور ہم سیکھنے، تجربہ کرنے اور خود کو بہتر بنانے کے مواقع کھو دیتے۔ البیر کامو (Albert Camus) کے مطابق: "زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے ہمیں اپنی مشکلات کو گلے لگانا ہوگا، نہ کہ ان سے فرار حاصل کرنا ہوگا۔" یہی حقیقت زندگی کی اصل آزمائش ہے۔ سقراط کے الفاظ "ایک غیر امتحان شدہ زندگی جینے کے قابل نہیں" ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ مشکلات سے فرار کی بجائے ان کا مقابلہ کرنا ہی دانشمندی ہے۔ زندگی آسان نہیں، مگر اسی میں اس کا حسن ہے، کیونکہ مشکل راستے ہی ہمیں بہترین منزلوں تک پہنچاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں زندگی کے حقیقی معانی کو سمجھنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ آج کا دور ایک عجیب طرح کی بے حسی اور جلد بازی کا زمانہ ہے، جہاں لوگ زندگی کے فلسفے اور اس کے مقاصد پر غور کرنے کی بجائے صرف مادی کامیابیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ جدید نسل میں تعلیم سے اکتاہٹ اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی خواہش نے کئی نئے مسائل کو جنم دیا ہے۔ پہلے علم کو ترقی اور شعور کی علامت سمجھا جاتا تھا، مگر اب اسے صرف ایک ذریعہ بنا لیا گیا ہے جس کے ذریعے اچھی نوکری حاصل کی جا سکے۔ نوجوانوں کے ذہن میں یہ خیال مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ زندگی کا مقصد صرف دولت اور شہرت کا حصول ہے، جبکہ زندگی کی اصل معنویت اور اس کے گہرے فلسفے پر غور کرنے کا وقت کسی کے پاس نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں لوگ زیادہ ذہنی دباؤ، بے چینی اور عدم اطمینان کا شکار ہو رہے ہیں۔ انسانیت، اخلاقیات اور باہمی تعلقات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور ہر شخص اپنی کامیابی کے سفر میں اتنا مصروف ہو چکا ہے کہ وہ زندگی کے حقیقی حسن کو محسوس ہی نہیں کر پاتا۔ جب زندگی کا مقصد صرف مادی کامیابیاں بن جائیں تو ذہنی سکون، خوشی اور اطمینان پیچھے رہ جاتے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ لوگوں کو صرف یہ سکھایا اور بتایا جائے کہ زندگی بہت مشکل ہوتی ہے، بلکہ یہ ضروری ہے کہ انہیں یہ سکھایا جائے کہ زندگی کو آسان کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ مشکلات اور آزمائشیں زندگی کا حصہ ضرور ہیں، مگر اس کا ہر پہلو کٹھن نہیں ہوتا۔ اگر ہم زندگی کی خوبصورتی کو سمجھنے اور اس کا مثبت استعمال کرنے پر توجہ دیں، تو ہم ایک بہتر، زیادہ متوازن اور خوشحال معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ زندگی کے مثبت پہلوؤں پر روشنی ڈالنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مشکلات کی حقیقت کو تسلیم کرنا۔ ہمیں اپنی نسلوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ کس طرح خوشی، صبر، محبت، ہمدردی، اور مثبت طرزِ فکر کے ذریعے زندگی کو بہتر اور بامقصد بنایا جا سکتا ہے۔
زندگی کو خوبصورت بنانے کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر مثبت رویے اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ ایک اعلیٰ معاشرہ کیسے بنایا جا سکتا ہے—ایسا معاشرہ جہاں لوگوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنے، مسائل کو مل کر حل کرنے، اور دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کی ترغیب دی جائے۔ اگر ہم صرف یہ کہتے رہیں کہ زندگی مشکل ہے، تو یہ سوچ لوگوں میں ناامیدی پیدا کر سکتی ہے، لیکن اگر ہم یہ سکھائیں کہ زندگی کو خوشحال اور آسان کیسے بنایا جا سکتا ہے، تو ہم ایک بہتر دنیا کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ناصر خان