احساس پروگرام کی اہمیت

جس طرح معاشرہ ترقی کر رہا ہے اور جیسے جیسے زندگی کی رفتار بڑھ رہی ہے ہمارے اردگرد بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ یہ تبدیلیاں نہ صرف ہمارے اردگرد کے ماحول پر بلکہ ہمارے رویوں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔ وقت کی تیزی نے انسان کو کمپیوٹر بنا کر اس سے وہ تمام احساسات اور جذبات چھین لئے جو معاشرے کی اخلاقی ضرورت ہوتے ہیں، جن کے بغیر زندگی میں خوشی مفقود ہو جاتی ہے۔
احساس وہ سچا جذبہ ہے جو ہمیں اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں کے بارے میں سوچنے اور اپنی تکلیف بھول کر دوسروں کی خوشی کے بارے میں سوچنے پر فوقیت دیتا ہے۔ اگر ہم اپنے اِردگرد نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عجیب نفسا نفسی کا دور ہے۔ ہر کوئی اپنی میں اور انا کی تسکین حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہر کوئی دوسرے سے آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے اردگرد بہت سے لوگ نظرانداز ہوتے ہیں اور ان سے وہ تمام چیزیں چھن جاتی ہیں جو ان کا بنیادی حق ہوتی ہیں۔ بچے اپنے مستقبل کے لئے ماں باپ کو بے یارومددگار چھوڑ کر انہیں دَر دَر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اقلیتوں کو ان کے حقوق نہیں دیتے جاتے اور بیوائوں اور یتیموں کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان لوگوں کے اندر حسد، کینہ، انتقام جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ یا تو یہ لوگ یتیم خانوں کی طرف رُخ کر لیتے ہیں یا پھر معاشرے کی نظراندازی انہیں چوری ڈاکہ جیسی غلط وارداتوں میں ملوث ہونے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یا پھر یہ لوگ دہشت گرد تنظیموں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور بعض اوقات خود کشی کر کے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ روز بروز ایسے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں یوں تو بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں جو ایسے بے یار و مددگار انسانوں کی خدمت کر رہے ہیں لیکن لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے اداروں کے لئے ناممکن ہے کہ وہ آنے والے ہر شخص کو سہارا دیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار کی کارکردگی کا چارٹ بنائیں تو اس میں آپ کو ایسے خوبصورت اقدامات نظر آئیں گے جو شاید دیکھنے میں تو بڑے منصوبے نہ ہوں لیکن معاشرتی ضرورت اور انسانی توقیر کے حوالے سے بے مثال ہیں۔ جب ان اقدامات پر غور کیا جاتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ آج تک یہ شروعات کیوں نہ کی گئی؟ اس سے پہلے ان بے حد حساس موضوعات کو کسی نے کیوں اہمیت کے قابل نہ سمجھا؟ کسی صاحبِ اقتدار کی نظر ان لوگوں کی طرف کیوں نہ گئی جو خدا کے بعد ان کے رحم و کرم پر تھے اور جن پر فرض تھا کہ وہ اپنی ریاست، اپنے صوبے میں بے یار و مددگار لوگوں کے لئے لگی بندھی باتیں کرنے کی بجائے جامع پروگرام بناتے اور انہیں حقیقی معنوں میں عزت دیتے۔ جناب عثمان بزدار کی خاصیت یہ ہے کہ وہ صرف افتتاح نہیں کرتے بلکہ اس پروگرام کو منطقی انجام تک پہنچا کر لوگوں کے سامنے مثال قائم کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے بے یار و مددگار لوگوں کی مدد کے لئے کئی نہایت اہم اقدامات کئے ہیں جن کے بارے میں ہر طرف سے تعریف سننے کو مل رہی ہے۔
ظاہر ہے یہ پروگرام کسی سیاسی جماعت کے کارکنوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ معاشرتی فلاح کے لئے ہیں۔ احساس پروگرام اپنے نام کی طرح ایک بہت خوبصورت اور دل کو چھو لینے والا فلاحی منصوبہ ہے۔ حکومت نے اس پروگرام کے تحت بزرگ پنشنرز کے لئے 3 ارب مختص کئے ہیں وہیں خواجہ سرائوں اور غریبوں کے لئے کمیونٹی ویلفیئر کا قیام، بیوائوں اور یتیموں کی مالی امداد اور پنجاب بھر میں شیلٹر ہومز اور پناہ گاہوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ جہاں پنجاب حکومت نے خود ایک بہت عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے وہیں اس نے اس بے حد حساس معاملے پر لوگوں کی توجہ مبذول کروانے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے۔ جن لوگوں کا احساس حکومت کر رہی ہے ان کے حوالے سے ہم سب کا بھی کوئی فرض بنتا ہے۔ وہ سب لوگ جنہیں خدا نے نوازا ہے، جو مخیر خواتین و حضرات کہلاتے ہیں ان کو بھی ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اپنی شاندار زندگی سے کچھ پل اور کچھ سکے ان لوگوں کے لئے وقف کر دیں جو ان کے اردگرد بستے ہیں اور ان کی توجہ کے مستحق ہیں۔ میرے لئے خوشی کا مقام یہ ہے کہ پنجاب حکومت درد مندوں کے درد کو سمجھنے اور اس کا مداوا کرنے کے رستے پر چل پڑی ہے۔ کسی کا احساس کرنا سب سے بڑی نیکی ہے۔ وقت ثابت کرے گا کہ عثمان بزدار صاحب کتنے اچھے حکمران ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ بھی کہ وہ کتنے اچھے، کھرے اور خدا ترس انسان ہیں۔ ان کی نظر ان مسائل کو دیکھتی ہے جو پسے ہوئے طبقے کے مسائل ہیں۔ جب بھی ان کی طرف سے کسی ایسے قدم کی اطلاع ملتی ہے تو وزیراعظم کی اس سوچ کی توثیق ہوتی ہے جو انہوں نے عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب متعین کرتے ہوئے ذہن میں رکھی ہو گی۔ آئیے ہم بھی رفاہِ عامہ کے اس راستے پر چلتے ہوئے اپنے اپنے حصے کا فرض ادا کریں۔

ای پیپر دی نیشن

History

Close |

Clear History