گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک دفعہ پھر امریکہ کا صدر منتخب ہونے پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد دیتے ہیں اور یہ توقع کرتے ہیں کہ انہوں نے الیکشن سے پہلے یا منتخب ہونے سے پہلے جو عزم دہرایا تھا کہ دنیا کو جنگوں سے پاک کر دوں گااور ایک کارپوریٹ اور ایک کامرس ورلڈکی بنیاد رکھوں گا، اس میں کس حد تک اپنے وعدے سے انصاف کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ صدر ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب اسی کیپیٹل ہل میں ہوئی جس پر حملے کے الزام میں ان پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔وہ مقدمہ بوگس ثابت ہوا کوشش صرف اور صرف امریکی اسٹیبلشمنٹ کی یہ تھی کہ ٹرمپ کو ہمیشہ کے لیے اقتدار میں آنے سے روک دیا جائے مگر ٹرمپ وہاں کے عدالتی نظام اور عوامی حمایت سے ایک مرتبہ پھر امریکہ کے صدر بن گئے ہیں۔
صدر ٹرمپ پاکستان کے متعلق کیا رویہ اپناتے ہیں۔پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر یہ کھل کر بحث ہو رہی ہے کہ صدر ٹرمپ کی عمران خان کے ساتھ دوستی ہے۔وہ رجیم اور اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کریں گے کہ عمران خان کو ریلیف دیا جائے حتی کہ کچھ لوگ تو عمران خان کی رہائی کی توقع بھی کرتے ہیں کہ ٹرمپ اس میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ٹرمپ کی کسی بھی ملک کے سربراہ کے ساتھ دوستی ہو سکتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس ملک کے اندرونی معاملات کے اندر صدر ٹرمپ مداخلت کریں۔بڑے لوگوں کے شخصیات کے ساتھ معاملات نہیں ہوتے بلکہ ریاستوں کے ساتھ ان کے معاملات چلتے ہیں۔ٹرمپ کی بھی سرپھرے شخص کی شہرت ہے وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر دیں اور کہہ دیں اس کی توقع رکھنی چاہیے۔پاکستان کے حوالے سے ٹرمپ کی کیا پالیسی ہوگی اس حوالے سے حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔مگر ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے ہی دنیا تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ٹرمپ کا صدر بننے سے پہلے ہی بہت بڑا ایکشن یہ نظر آیا کہ ان کے مشرق وسطی کے لیے نامزد کردہ نمائندہ خصوصی سٹیفن وکٹوف نے اسرائیل اور حماس کو ایک ٹیبل پر بٹھا کر جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کرا دیا جس پر 19 جنوری سے عمل درآمد جاری ہے۔
یوں تو پوری دنیا میں اس وقت صدر ٹرمپ کے بارے میں چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ ابھی ان کے حلف اٹھانے سے چند گھنٹے پہلے جب میں یہ کالم لکھ رہا رہوں تو اس وقت حالات یہ ہیں کہ یوکرین اور روس کی جنگ اپنی تیز تر نقطہ انجام تک بڑھ چکی ہے۔ نیٹو کی مدد سے یوکرین نے بھی بھرپور جوابی حملے کیے ہیں، جن میں سے چھ ان میزائلوں کے ساتھ حملے شامل ہیں جو یو کے نے انہیں فراہم کیے ہیں۔ ان سب چیزوں کے درمیان اگر دیکھا جائے تو نیٹو یہ نہیں چاہتا کہ صدر ٹرمپ اور ان کی پالیسی جو ہے وہ نیٹو کو اس جنگ میں اکیلا چھوڑے۔ بلکہ وہ اسے کسی طریقے سے بھی گھسیٹ کر اس جنگ کو رشیا کے منطقی انجام تک جاری رکھنا چاہتے ہیں۔جب کہ یہ اب نہ تو ٹرمپ کے بس کی بات ہے اورنہ یورپ کے بس کی بات ہے۔کیونکہ یورپ معاشی طور پر بھی اس وقت مردِبیمار کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ بڑی بڑی یورپین ریاستیں معاشی طور پر جو مضبوط سمجھی جاتی ہیں جیسے جرمن، فرانس ، سکینڈے نیویا ، اٹلی یہ اب ایک مردبیمار کی طرح لڑکھڑا رہی ہیں۔ یہ کاریں اور ٹیکنالوجی کا بہت استعمال کرتے تھے اور دنیا کو ایک وقت میں انہوں نے لیڈ بھی کیا تھا۔ مگر اب یہ گاڑیاں اور الیکٹرانک مصنوعات بنانا تو چھوٹے چھوٹے ملک بھی شروع کر چکے ہیں۔ اب وہ کیا ایسی چیز ہیں جس کے بل بوتے پر مغرب یا یورپین طاقتیں دنیا پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرے گی؟؟ جبکہ دوسری طرف ٹرمپ کے پاس اس وقت ایلن مسک اور دوسرے بہترین دماغوں والے لوگ موجود ہیں۔ وہ اب امریکہ کے گھوڑے میں ایک دفعہ پھر جان ڈالنا چاہتے ہیں اور امریکہ کو جنگوں سے پاک کرکے دنیا کا معاشی کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا پھریہ استدلال ہے کہ ٹرمپ صاحب پاکستان کے لیے اپنے رویے اور خاص طور پر انڈیا کے ساتھ کشمیر کے مسئلے پر افغانستان کے مسئلے پر پاکستان کی پالیسیوں سے ہم آہنگ نہیں تو کم از کم غیر جانبدار رہنے کا مظاہرہ کریں گے۔
صدر ٹرمپ اور ان کی کیبنٹ نے انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں نہ بلوا کر اس کو ایک صاف میسج یہ دیا کہ دو گھروں کا مہمان ہمیشہ بھوکا رہتا ہے۔کیونکہ بھارت رشیا سے بھی تیل خریدتا ہے اور چائنا کے ساتھ بھی اس نے چھ سو بلین ڈالر کی ٹریڈ شروع کر دی ہے اور دوسری طرف امریکہ سے بھی کہتا ہے کہ ہم آپ کے نیچرل الائی ہیں۔ نریندر مودی گجرات کے کھتری قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ اب ان کی مرضیاں اور ان کا ذہن امریکنوں کے مقابلے میں بھی چلے۔
صدر ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں متعدد بیورکریٹس اور سیاستدان تیسری درجے کی کیٹگری میں بیٹھ کر اور اپنی تصویر کھنچوا کر واپس آئیں گے اورایک ملین ڈالر سے دو ملین ڈالر (یعنی پاکستانی ساٹھ کروڑ )کی ٹکٹ خرید کر شامل ہوں گے۔بلاول بھٹو زرداری بھی ٹرمپ کی حلف برداری میں شرکت کے لیے گئے تھے۔پاکستان میں یہ تاثر دینے کی پیپلز پارٹی کی طرف سے کوشش کی گئی کہ بلاول بھٹو زرداری کو ٹرمپ ذاتی حیثیت میں دعوت دی ہے۔یہ سارا کچھ عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش تھی عوام سمجھدار ہیں ان کو بے وقوف بنانے والے یقیناً خود ہی بے وقوف ہیں۔ذاتی حیثیت میں بلاول بھٹو زرداری کو بلایا گیا ہوتا۔تو وہ ٹرمپ کے ساتھ سٹیج شیئر نہ بھی کرتے تو سامنے والی قطار میں ضرور بیٹھے ہوتے۔جن لوگوں کو وائٹ ہاو¿س کی طرف سے خصوصی طور پہ ٹرمپ کی طرف سے ذاتی حیثیت میں بلایا گیا ہے وہ ان کا پروٹوکول ہی قابل دید ہوتا ہے ان کی سٹیٹ گیسٹ کی حیثیت ہوتی ہے۔پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی لوگوں کو وہاں کے کانگرس مین کی طرف سے مدعو کیا گیا تھا۔وائٹ ہاو¿س نے بھی ہو سکتا ہے کہ کئی پاکستانیوں کو دعوت دی ہو۔ٹرمپ نے صرف پوری دنیا سے تین چار لوگوں ہی کو ذاتی حیثیت میں بلایا ان میں ایک چین کے صدر تھے۔صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے کوئی بھی شخص جس کی امریکہ میں آنے کی کلیرنس ہو گئی ہو وہ ون ملین ڈالر ادا کر کے پاس حاصل کر سکتا ہے۔
ٹرمپ کے آنے سے یقینا دنیا میں تبدیلی آئے گی۔صدر ٹرمپ کے پہلے دور اقتدار میں امریکہ نے کوئی نئی جنگ شروع نہیں کی بلکہ یہ ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے افغانستان سے انقلاب کی بات کی کوشش کی اور ان کی صدارت کی مدت مکمل ہونے کے بعد جو بائیڈن ان کے کیے گئے معاہدوں پر عمل کرنے کے پابند تھے۔ٹرمپ نے کئی مرتبہ خود بھی کہا ہے کہ میں اگر پچھلے دور میں جو بائیڈن کی جگہ صدر ہوتا تو یوکرین کی روس کے ساتھ اور اسرائیل کی فلسطین کے ساتھ کسی صورت جنگ نہ ہوتی۔باقی ٹرمپ نے کئی اور ایشوز بھی چھیڑ رکھے ہیں جس کا ہم اپنے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا۔کینیڈا میکسیکو پانامہ ڈنمارک سب کو ٹرمپ کی طرف سے خبردار کیا گیا ہے۔
کینیڈا کو تو ٹرمپ نے اپنی 51 میں ریاست بنانے کی بھی پیشکش کر دی تھی۔ٹرمپ غیر سنجیدگی کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔اب جن ممالک کو ان کی طرف سے دھمکیاں دی گئی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ ان میں کوئی سنجیدگی بھی ہے یا یہ سارا کچھ انہوں نے غیر سنجیدگی میں ہے اور اپنے لا ابالی پن میں کہہ دیا ہے۔
پاکستان کے ساتھ ٹرمپ کے اچھے تعلقات ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ایک موقع پر ٹرمپ نے اپنی صدارت کے دوران کہا تھا کہ پاکستان امریکہ کو دھوکہ دے رہا ہے ہم نے اسے 33 ارب ڈالر جنگ لڑنے کے لیے دیے ہیں یہ فریق مخالف یعنی افغانیوں کے ساتھ مل گیا ہے۔اس بار پاکستان کی طرف سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے جواب دیا گیاکہ پاکستان نے امریکہ کی جنگ لڑتے اپنے 80 ہزار لوگ مروا لیے، آٹھ ہزار پاک فوج کے سپوت شہید ہوئے، انفراسٹرکچر کی مد میں پاکستان کو ایک 120 بلین ڈالر کا نقصان ہو گیا۔آپ اسی پاکستان پر طعنہ زنی کر رہے ہیں۔ٹرمپ کی طرف سے اس پر منفی رد عمل نہیں آیا تھا بلکہ پاکستان کے اس موقف کے بعد انہوں نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔امید یہ ہے کہ جہاں پہ معاملات وہ پاکستان کے ساتھ دوستی کے حوالے سے چھوڑ کر گئے تھے وہیں سے پھر شروع کریں گے۔