فضل حسین اعوان
تلور کی کم یابی کو دور کر دیا گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے حکمران پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی تلور پائے جاتے ہیں وہاں باقاعدہ ابو ظہبی میں ان کی افزائش کے بعد لے جا کے ریلیز کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں تلور کی ریلیزنگ کے دو سنٹر ہیں۔ دونوں چولستان میں ہیں۔ ایک بہاولپور میں لال سہانڑا نیشل پارک سے متصل دوسرا رحیم یار خان میں۔ انہی دو سنٹروں میں چنکارا اور کالا ہرن رکھے گئے ہیں۔ وہیں پر نیل گائے کی افزائش بھی جاری ہے۔
انڈیا اور پاکستان کے خطے میں پائے جانے والے اس پرندے کوگریٹ انڈین بسٹرڈ کہتے ہیں۔ اسے گھاس اور سبزے والی زمین کا بادشاہ کہا جاتا ہے یہ پرندہ دنیا بھر میں نایاب ہے اور صرف پاکستان اوربھارت کے صحرائی علاقوں چولستان اور راجستھان میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان کی نسبت بھارت میں گریٹ انڈین بسٹرڈ کا علاقہ زیادہ ہے جن میں گجرات، مدھیا پردیش، مقبوضہ جموں و کشمیر، کرناٹکا، آندھرا پردیش اور مغربی راجستھان شامل ہیں. انڈین گریٹ بسٹرڈ تلور کی طرح زیادہ پھرتیلا نہیں ہوتا۔اس کی وجہ اس کے وزن کا چھ سات کلو گرام ہونا بھی ہے۔
2013 میں ہوبارہ فاوونڈیشن اورڈبلیوڈبلیوایف نے چولستان کے مختلف علاقوں بہاولپور اور بہاولنگر میں سروے کیا تھا۔ چولستان کے ریگستانی علاقے میں 7 روزہ سروے کے دوران ٹیموں نے 350 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور نواں کوٹ، بجنوٹ، گھورارا اور سرحدی علاقوں میں سروے کیا، اس دوران صرف 4 انڈین بسٹرڈ دیکھے گئے تھے جب کہ 6 کی موجودگی کے شواہد ملے تھے۔
انٹرنیشنل یونین فار دی کنزرویشن آف نیچر کی رپورٹ کے مطابق 2013 میں دنیا بھر میں انڈین بسٹرڈ پرندوں کی تعداد کا تخمینہ 200 سے زیادہ نہیں تھا جبکہ پاکستان میں ان کی تعداد 10 کے قریب تھی۔2012 کے سروے میں پورے ریگستان میں ایسا کوئی پرندہ نہیں دیکھا گیا تھا جبکہ 2011 میں گریٹ انڈین بسٹرڈ کی تعداد کا تخمینہ 200 سے 250 تک لگایا گیا تھا۔ چولستان میں 2009کے معمول کے سروے کے دوران 15 پرندے دیکھے گئے تھے۔ کم و بیش 15 سال قبل پاکستان میں زخمی انڈین ہوبارہ بسٹرڈ پایا گیا تھا۔ اس کا علاج کیا گیا اور بہترین صحت کی بحالی پر اسے دوبارہ ماحول میں چھوڑ دیا گیا تھا۔
ہوبارہ ریسرچ اور ری ہیبیلیٹیشن سینٹر 1995 میں قائم کیا گیا تھا، جو متحدہ عرب امارات کے سابق صدر عزت مآب شیخ زاید بن سلطان النہیان کی سرپرستی میں وجود میں آیا۔ اس مرکز کا بنیادی مقصد ہوبارہ بَسٹرڈز کا علاج اور واپس آزاد چھوڑنا ہے۔ یہ مرکز پاکستان کے چولستان صحرا میں، رحیم یار خان شہر سے 80 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔
یہ مرکز ہوبارہ فاونڈیشن انٹرنیشنل پاکستان کے زیر انتظام کام کرتا ہے، جو پاکستان میں ہوبارہ بَسٹرڈ اور دیگر جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اہم تنظیم ہے۔ یہاں سے دو ڈاکٹرز، ڈاکٹر ہارون اور ڈاکٹر ساجد، نے اپنی پی ایچ ڈی بھی مکمل کی ہے۔
حال ہی میں، وہاں رکھے گئے ہوبارہ بَسٹرڈز کے لیے لائیو فیڈ پروڈکشن یونٹ قائم کیا گیا ہے۔ اس سہولت میں ایک خاص میل ورم یونٹ شامل ہے، جہاں میل ورم کو سخت بائیو سیکیورٹی اور محتاط ماحولیاتی کنٹرول کے تحت نمو کیاجاتا ہے۔ اس یونٹ میں درجہ حرارت اور صفائی کے معیارات کو یقینی بنایا جاتا ہے تاکہ ہوبارہ بَسٹرڈ کے لیے معیاری اور متوازن خوراک فراہم کی جا سکے، جو پاکستان میں پہلی بار ممکن ہوا ہے۔
فی الحال اس سنٹر میں پرندوں کی بحالی کے لیے 160 پری ریلیز ٹنلز موجود ہیں، اور مزید29 سرنگوں کے اضافے کی گنجائش بڑھائی جارہی ہے۔ہوبارہ فاونڈیشن انٹرنیشنل کے ترجمان کا کہناہے کہ ہم بین الاقوامی ایجنسیوں جیسے کہ ایویئرنمنٹل ایجنسی ابوظہبی کے ساتھ بھی تعاون کرتے ہیں۔ ہر سال ہمیں متحدہ عرب امارات سے ہزاروں ہوبارہ بَسٹرڈز موصول ہوتے ہیں، جنہیں ہماری 160 پری ریلیز ٹنلز میں رکھا جاتا ہے۔ یہ پرندے ان میں میں ایک مخصوص وقت گزار کر صحرا میں چھوڑے جاتے ہیں تاکہ ان کی آبادی کو تقویت دی جا سکے۔ہماری حفاظتی کوششیں ان اہم شعبوں پر مرکوز ہیں:تمام چاروں صوبوں کے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ تعاون میں ضبط شدہ ہوبارہ بَسٹرڈز کی بازیابی۔پری ریلیز ہوبارہ بَسٹرڈز کی بحالی۔شکاریوں سے ضبط شدہ اور بیمار پرندوں کا علاج اور صحت یاب ہونے کے بعد فطرتی ماحول میں ریلز۔صحرائی علاقے میں ہوبارہ بَسٹرڈ کے طرز عمل کا مطالعہ اور چولستان صحرا میں ہوبارہ بَسٹرڈز کی جنگلی آبادی کو بحال کرنا ہے۔
وائلڈ لائف پروجیکٹس کی بات کی جائے تو ہرن بریڈنگ سینٹر (DBC) سر فہرست ہے۔فطرت اور اس کا تحفظ ہمیشہ مرحوم عزت مآب شیخ زاید بن سلطان النہیان کی فلسفیانہ سوچ کا اہم حصہ رہا۔ انہوں نے اپنی قوم کو نصیحت کی کہ زمین کو اس سے بہتر حالت میں چھوڑیں جیسا کہ ہم نے پایا۔ اسی فلسفے کے تحت، 1997 میں رحیم یار خان میں ابو ظہبی محل کے قریب 5500 ایکڑ پر محیط ہرن بریڈنگ سینٹر قائم کیا گیا، جو عزت مآب شیخ زاید وائلڈ لائف کنزرویشن پروگرام کے تحت بنایا گیا۔ اس سینٹر میں چنکارہ ہرن کی افزائش نسل کا آغاز کیا گیا تاکہ غیر قانونی شکار اور پوچنگ سے متاثرہ علاقوں میں ان کو دوبارہ آباد کیا جا سکے۔ یہ سینٹر ہرنوں کو ایک محفوظ ماحول فراہم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ان کی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا۔ 2004 میں 400 چنکارہ ہرنوں کی پہلی کھیپ چولستان کے صحرا میں چھوڑ دی گئی، اور اب تک 3407 ہرن مختلف علاقوں میں منتقل کیے جا چکے ہیں۔
ہوبارہ ریسرچ اینڈ ری ہیبلیٹیشن سینٹر:
ہوبارہ باز کے شکار کی روایت عرب ثقافت کا اہم حصہ ہے۔ پاکستان میں بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے کچھ حصے ہوبارہ کی آبائی رہائش گاہ ہیں۔ 1995 سے، ہوبارہ فاونڈیشن انٹرنیشنل پاکستان (HFIP) اس نایاب پرندے کے تحفظ کے لیے سرگرم ہے۔ عزت مآب شیخ زاید بن سلطان النہیان نے ہوبارہ اور دیگر وائلڈ لائف کے تحفظ میں خاص دلچسپی لی۔ 1997 میں رحیم یار خان کے چولستان صحرا اور بلوچستان کے کیرچی ناگ ویلی میں ہوبارہ ریسرچ اینڈ بریڈنگ سینٹر قائم کیے گئے۔ ان منصوبوں کے تحت اب تک پاکستان میں تقریباً 20,000 ہوبارہ پرندے چھوڑے جا چکے ہیں۔ صحرا میں نباتات کی کاشت اور پانی کے ذرائع کی فراہمی ہوبارہ کے تحفظ میں مددگار ہیں۔
کنزرویشن بریڈنگ سینٹر (CBC):
عزت مآب شیخ محمد بن زاید النہیان صدر متحدہ عرب امارات کی فطرت کے ساتھ وابستگی نے 2014 میں چولستان کے لال سہانرا میں کنزرویشن بریڈنگ سینٹر کی بنیاد رکھی۔ یہ 165 مربع کلومیٹر پر محیط محفوظ علاقہ ہے، جہاں چنکارہ، کالا ہرن، نیل گائے اور دیگر قدرتی حیات آزاد ماحول میں پنپ رہے ہیں۔ نباتات کی افزائش اور پانی کے ذرائع کی دیکھ بھال ان جانوروں کے لیے خوراک اور رہائش کی سہولت فراہم کرتی ہے۔
فالکن ریلیز پروگرام:
فالکن فاونڈیشن انٹرنیشنل پاکستان (FFIP) نے 1995 میں بازوں کے تحفظ کے لیے کام شروع کیا۔ شیخ زاید کی سرپرستی میں 1000 سے زائد شکاری باز قدرتی ماحول میں چھوڑے جا چکے ہیں۔ 2010 میں فالکنری کو یونیسکو کی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کروایا گیا، جو بین الاقوامی تعاون کی شاندار مثال ہے۔
عزت مآب شیخ محمد بن زاید کہتے ہیں کہ"ہمیں اپنی ذمہ داری کو توازن میں رکھنا ہوگا کہ توانائی کے ذرائع کو جدید بنائیں، ماحول کی حفاظت کریں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر ورثہ چھوڑیں۔"