پاکستان میں سیاست میں دلچسپی اس وقت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب بڑے کھلاڑی میدان میں خود اترتے ہیں۔پاکستان مسلم لیگ ن کی پہچان اگر کوئی ہے تو وہ نواز شریف خود ہیں جن کے نام سے مسلم لیگ ن پہچانی جاتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا،پارٹی میں کارکن،سپورٹر اور ووٹر ان کی وجہ سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں ۔ دوہزار چوبیس کے انتخابات کے بعد سے اب تک نواز شریف کسی نہ کسی طریقے سے متحرک نظر آتے رہے ہیں اور حکومت سمیت اتحادیوں کو وقتاً فوقتاً مشورہ بھی دیتے رہے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف جو خود منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور سیاست کی باریکیاں سمجھتے ہیں وہ خود بھی نواز شریف سے اچھے مشوروں اور رہنمائی سے مستفید ہوتے رہتے ہیں اسی طرح پنجاب کی وزیراعلی مریم نواز کے کاموں اور طریقہ سیاست کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے والد اور قائد نواز شریف سے فن سیاست کے رموز میں مناسب واقفیت حاصل کر لی ہے۔ سیاسی میدان میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے منصوبے شروع کرکے انہوں نے اس کو درست سمت دے دی ہے اور یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ ان کی سیاسی تربیت بالکل درست انداز میں ہوئی ہے۔
ویسے تو نواز شریف اپنی پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں مگر حالیہ دنوں میں ان کے مسلم لیگ ن کے پنجاب کے ڈویژن کے ارکان کے ساتھ ملاقاتیں تیزی سے ہورہی ہیں جس کو دیکھ کر ان کے سیاسی حریف پریشان ہیں اور یہ باتیں کررہے ہیں کہ ان کی سیاست میں دوبارہ دلچسپی بڑھ گئی ہے اور انہوں نے سیاسی میدان میں باقاعدہ دوبارہ اترنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ان کے سیاسی حریفوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ نواز شریف سیاست سے باہر گئے ہی کب تھے ، انہوں نے سیاست سے کبھی بیزاری کا اظہارنہ کیا۔وہ باہر رہ کر اپنی جماعت اور ملک کے لیے کام کررہے ہیں اور حکومت مختلف منصوبوں میں ان کے مشورے لیکر آگے بڑھتی ہے۔جس طرح ملک میں سیاسی جماعتوں کے اندر اتار چڑھاؤ آجا رہا ہے اور بعض سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے اندر ایک انتشار کی سوچ پائی جاتی ہے جس سے یقینا ملک کے ادارے اور خود ریاست اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ ایسے لوگوں کو ملک کی باگ ڈوردی جائے یا ان کے احتجاج کو سپورٹ کیا جائے۔ چنانچہ ایسے حالات میںریاستی اداروں کیلئے بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ ان جماعتوں کے ساتھ چلے اور ان کو سپورٹ کرے جو ملک کے مفاد کے لیے کھڑی ہوں اور عوام کو ملک کے ساتھ متحد رکھیں۔اسی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ ن ،پاکستان پیپلز پارٹی دو ایسی جماعتیں ہیں اور ان کے قائدین ذوالفقار علی بھٹو شہید،بے نظیر بھٹو شہید اور آصف علی زرداری ،بلاول بھٹو زرداری اور نواز شریف ،وزیراعظم شہباز شریف اور مریم نواز شریف ایسی قیادت ہے جن پر یہ الزام کبھی نہیں لگا کہ انہوں نے ملک کے خلاف کوئی انتہاپسند سوچ کے ساتھ خلاف معمول قدم بھی اٹھایا ہو۔پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور خود آصف علی زرداری اپنی جماعت اور پارٹی کے کارکنوں کی تربیت اس طرح کرتے ہیں کہ ان کی وفاداری ملک کے ساتھ قائم رہے۔جبکہ اس کے برعکس ایک خاص جماعت کی جانب سے ملک بند کرنے کی دھمکیوں اور احتجاج ،دھرنوں اور انتشار پر اکسانے کی بات کو اس قدر بڑھایا جاتاہے کہ ایک ہنگامہ اور افراتفری محسوس ہوتی ہے۔
ملک میں مستحکم پالیسیوں تسلسل وقت کا تقاضا ہے جس کیلئے ذاتیات کے ایجنڈے سے باہر نکلاجائے۔پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے خاص کر بانی پی ٹی آئی عمران خان کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ایسی صورتحال میں پارلمینٹ ہی وہ واحد پلیٹ فارم ہے جہاں سبھی سیاسی جماعتوں کو ایک جگہ مل بیٹھنا ہوگا۔جب بات ملک کی ترقی اور معاشی استحکام کی ہو تو اس کے لیے سبھی اختلافات کو حل کرنا چاہیے۔پی ٹی آئی میں ایسی قیادت موجود ہے جو ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور باقی جماعتوں میں یہ شخصیات قابل قبول بھی ہیں۔ شاہ محمود قریشی ایک سمجھدار سیاست دان ہیں چودھری پرویز الٰہی ایک زیرک سیاستدان ہیں ان کے ساتھ اسد قیصر ،بیرسٹر گوہر سمیت ایسی قیادت پی ٹی آئی کے پاس ہے جو مسائل کو ایک جگہ بیٹھ کر حل کرواسکتے ہیں اس لیے ان کے پاس ایک آپشن آتا ہے کہ وہ خود بانی پی ٹی آئی عمران خان کو قائل کریں کہ وہ اپنی پالیسیاں اس طرح سے ترتیب دیں جس میں ٹکرائو کو پہلو نہ نکلے۔جن نکات پر مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے اس پر گرینڈ ڈائیلاگ کیا جائے اس پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی ،جے یو آئی ف ،ایم کیو ایم ،بی این پی ،جماعت اسلامی ،اے این پی سمیت ملک کی دیگر جماعتوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس کے لیے پہل کرنے اور حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے اگر ایسا ہو جائے تو قومی سطح پر یہ ادارے اور اسٹیبلیشمنٹ بھی ان امور پر راضی ہوسکتی ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے پیدا ہونے سے ملکی امور میں کردار رکھنے والے سبھی فریق ایک پلیٹ فارم پر آمنے سامنے مل بیٹھیں گے۔