حضرت نظام الدین اولیاء محبوبِ الہیٰؒ

سیّد محمد بن سیّد احمد بن دانیال کے آبائو اجداد چنگیزی فتنہ کے دوران حجاز سے ہجرت کر کے پہلے لاہور پہنچے اور پھر بدایوں جا کر مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔سیّد محمد کی پیدائش 1238ء کو بدایوں میں ہوئی۔ ابھی پانچ برس ہی کے تھے کہ والد محترم کا انتقال ہو گیا۔ والد کے سایہ سے محروم ہونے کے بعد بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ماں نے سنبھال لی۔والدہ محترمہ کا نام سیّدہ بی بی زلیخا تھا جو پاکدامنہ، عابدہ اور دیندار خاتون تھیں۔سُوت کات کر جو کچھ ملتا اسی پر گذر اوقات تھا۔ بعض اوقات کئی کئی دن فاقے سے گذر جاتے۔ مگر کم سِنی کے باوجود بچے کی زبان پر کبھی حرفِ شکائیت نہ آتا تھا۔ آپؒ کا اصل نام تو سیّد محمد تھا مگر آپؒ عبادت، ریاضت، علم و فضل، تقویٰ اور پرہیز گاری کے باعث سلطان المشائخ، سلطان الاولیائ، شیخ المشائخ، نظام الدین اولیاء اور محبوبِ الہیٰ کے القاب سے مشہور ہوئے۔غربت اور افلاس کے باوجود ماں کی شبانہ روز محنت سے محبوبِ الہیٰ بچپن ہی میں علومِ دین میں کامل ہو گئے۔ اور تفسیر، حدیث اور فقہ پر عبور حاصل کرلیا۔ اُن دنوں دہلی علم و فن کا گہوارہ تھا اس زمانے کے مشہور عالمِ دین مولانا شمس الدین خوارزمی کا اُن دنوں دہلی میں بہت چرچا تھا۔ والدہ نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کے لئے اُن کی شاگردی میں دے دیا۔ بابا فرید گنج شکرؒ سے حضرت محبوبِ الہیٰ کو بے حد عقیدت تھی۔ چنانچہ دہلی سے فراغت پا کر 1257ء میں پاکپتن جا کر اُن کے ہاتھ پر بیعت کی۔ تقریباً ایک سال تک بابا فریدؒ سے تعلیم و تربیت حاصل کی جنہوں نے آپؒ کو خرقہ خلافت عنائیت کرتے ہوئے فرمایا "تم ایسے درخت ہو جس کے سایہ تلے مخلوق آرام پائے گی"۔ مزید نصیحت کرتے ہوئے فرمایا "اگر قرض لو تو جلدی واپس کرنے کی کوشش کرنا۔ اپنے دشمنوں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کرنا۔ کلامِ مجید حفظ کرنا اور برابر مجاہدہ کرتے رہنا۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ کی والدہ محترمہ کی توجہ کے فیضان سے آپؒ نے نوعمری میں ہی تمام علومِ دین ، تفسیر، حدیث اور فقہ پر دسترس حاصل کر لی تھی۔آپؒ کی والدہ ماجدہ سوت کات کر گزر اوقات کرتی تھیں۔ چنانچہ جب اُن کے فرزند نے اپنی دینی تعلیم مکمل کر لی تو اُنہوں نے اپنے ہاتھ سے کاتے ہوئے سوت سے پگڑی تیار کی اور اُس وقت کے جید علمائے کرام سے آپؒ کو بندھوائی۔ جب دینی اور دنیوی تعلیم مکمل کر چکے تو آپؒ نے باطنی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اُس وقت کے مشہور عالمِ دین مولانا شمس الدین خوارزمی کی شاگردی اختیار کی۔ اُس وقت کے سلطان غیاث الدین مولانا کا بے حد احترام کیا کرتے تھے اور ہر قسم کے دینی مشورے اُن سے ہی لیا کرتے تھے۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ کو بابا فرید گنج شکرؒ سے بے حد عقیدت تھی اور اُن کی بیعت حاصل کرنے کے لئے اکثر بے تابی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ آخر کار شیخ نجیب الدین متوکل نے آپؒ کو بابا فریدؒ سے ملوایا اور 705 ہجری میں اُن کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا۔ بابا فریدؒ نے حضرت محبوب الہیٰؒ کو بیعت کے بعد دِلی واپس جانے کی تلقین فرمائی۔ آپؒ کے دل میں تو پہلے ہی عشقِ الہیٰ موجزن تھا۔ بابا جی سے ملاقات کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آپؒ خالقِ کائنات کی محبت میں اس قدر مستغرق ہو گئے کہ دنیا کی آسائشیں اور راحتیں آپؒ کو ایک نظر نہ بھاتی تھیں اور تکلیفیں اورمصیبتیں اُن کو روحانی سکون پہنچاتی تھیں۔آپؒ فرمایا کرتے تھے "جو دوست کی طرف سے تکلیف پہنچے وہ ایک نعمت ہوتی ہے"۔آپؒ بچپن ہی سے بھوکا رہنے کے عادی تھے۔ کئی کئی دنوں کے فاقے برداشت کر لیتے تھے مگر کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا تھا۔ دونوں ماں بیٹے کا گزر اوقات سوت کات کر مزدوری حاصل کرنے پر تھا۔ بچپن سے تربیت ہی ایسے ماحول میں پائی تھی کہ بڑے سے بڑے بادشاہ کے دربار میں جانے کے لئے رضا مند نہ ہوتے تھے۔ ایک دفعہ قطب الدین بادشاہ نے آپؒ کو اپنے دربار میں طلب کیا تو آپؒ نے یہ کہہ کر جانے سے انکار کر دیا کہ فقیر بادشاہوں کے ہاں نہیں جایا کرتے کیونکہ فقیروں کا بادشاہوں کے ہاں کوئی کام نہیں ہوتا۔ آپؒ کا انکار سن کر وہ غصہ میں آ گیا اور زبردستی دربار میں حاضر ہونے کے احکامات جاری کئے لیکن پھر بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس واقعہ کے چند دن بعد ہی بادشاہ اپنے غلام کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ مغلیہ بادشاہوں نے بھی آپؒ کو مال و دولت ، جائیداد اور قیمتی سے قیمتی تحائف اور نذرانے بھیجے مگر آپؒ نے ان کو ٹھکرا دیا۔ آپؒ سادہ زندگی بسر کرنا پسند فرماتے تھے ۔ جو کی روٹی اور اُبلی ہوئی ترکاری اُن کی مرغوب خوراک تھی۔ آپؒ نے کبھی مرغن غذا یا پرتکلف کھانا نہیں کھایا۔ سادہ خوراک کھاتے وقت بھی اکثر اوقات رو پڑتے تھے اور فرمایا کرتے تھے نہ جانے کتنے لوگ بھوکے سو گئے ہوں گے۔ سردیوں میں اُن غریبوں کو یاد کر کے اُداس ہو جایا کرتے تھے جن کے پاس سردیوں سے بچنے کے لئے گرم کپڑے نہیں تھے۔  آپؒ اخلاق حمیدہ اور عالیٰ ظرفی میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ ایک دفعہ سلطان علائو الدین خلجی نے 500 اشرفیوں کا نذرانہ آپؒ کی خدمت میں پیش کیا ۔ اس میں سے ایک فقیر نے آدھی اشرفیاں مانگیں آپؒ نے پوری تھیلی اُس کے حوالے کر دی اور فرمایا لے لو یہ سب تمہاری ہیں۔آپؒ کے اقوال زریں آج بھی مشعلِ راہ اور منارہ نور ہیں۔ آپؒ نے فرمایا "پہلے اللہ کو پہچانو ، جب پہچان لو گے تو تمہیں سوچنا چاہئیے کہ تم کون ہو، کہاں سے آئے ہو اور کہاں جانا ہے۔اس دنیا میں کس لئے آئے ہو اور اللہ نے تمہیں کس لئے پیدا کیا ہے"۔ آپؒ نے فرمایا " مکروفریب ، دھوکہ دہی، فتنہ پردازی یہ سب شیطانی صِفات ہیں ، ان کو اپنانے والا کبھی بھی معرفت الہیٰ نہیں پا سکتا"۔ انہوں نے فرمایا" معرفت الہیٰ سے قلب روشن ہو جاتا ہے اور اعلیٰ انسانی صفات اُجاگر ہوتی ہیں"۔ انہوں نے فرمایاکہ" اصل ریاضت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق خود کو ڈھال لیا جائے "۔ فرمایا " اللہ کے راستوں پر چلنے کے لئے آرام و سکون کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ اپنے دل پر ہمیشہ قابو رکھنا چاہئیے۔جو شخص ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائے وہ سیدھی راہ سے کبھی بھٹک نہیں سکتا"۔ آپؒ عشقِ الہیٰ میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ کسی تکلیف یا مصیبت کی قطعاً پرواہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ فرمایا کرتے تھے " ہر سچے عاشقِ الہیٰ کا امتحان تکلیفوں اور مصیبتوں میں ہوا کرتا ہے"۔ ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اپنا مشن مکمل کرنے کے بعدآپؒ اصلی منزل کی طرف ربیع الثانی725 ہجری(1325؁ئ) کو اس دارِ فانی سے رحلت فرما گئے۔ آپؒ کی نمازِ جنازہ حضرت رکن الدین ملتانی نے پڑھائی ۔ آپؒ غیاث پور شاہ جہاں آباد میںابدی نیند سو رہے ہیں۔ آپؒ کا مزار ہر خاص و عام کی زیارت گاہ ہے۔ وصال سے پہلے آپؒ نے نمازِ عصر ادا فرمائی اور جو کچھ گھر میں موجود تھا وہ سب غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کرنے کا حکم فرمایا۔ آپؒ کی عملی زندگی آج ہمارے لئے زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ ہے اور آپؒ کے ارشاداتِ عالیہ ہمارے لئے منارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔    

ای پیپر دی نیشن