عصانہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

صدائے علی…ذوالفقار علی
 zulfiqar686@yahoo.com  

بر صغیر پر انگریز ی تسلط کے بعد پہلے ہندئووں اور مسلمانوں نے ملکر آزادی کے لئے جہاں مذاکرات کا راستہ اختیار کیا،وہاں شدید مزاحمت جارحانہ جدوجہد اور عوامی ریاستی طاقت کا بھی استعمال کیا۔مہاتما گاندھی عظیم  رہنما تھے وہ کسی حد تک لسانی، قومی ،مذہبی تعصب سے بھی مبرا تھے۔گاندھی جی جہاں مذاکرات کے حامی تھے۔وہاں انہوں نے ہندئووں اور مسلمانوں دونوں کو انگریزی استعماریت کے خلاف جارحانہ طرزِ عمل اوربندوق کے استعمال پر اْبھارا مہاتما گاندھی نے کہا تھا۔ہم نے بر صغیر کی سیاسی آزادی اور اسے غلامی سے نکالنے کے لئے فرنگی استعماریت سے خاتمے کے لئے مذاکرات ،افہام وتفہیم اور ٹیبل ٹاک ،مصالحت کے تجربے کیے۔تا ہم جب برطانوی استعمار پر حقیقت بھانپ گئے۔کہ ہندوستانی قوم میں عملی جدوجہد ،یا بندوق چلانے کی ہمت اور صلاحیت نہیں ہے۔تو ہمیں اور دبایا۔استعماریوں نے ریاستی جبر کا بے تحاشہ سفا کانہ استعمال کیا۔تا ہم کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے اپنی ذات سے عوام تک کو بندوق،چھڑی اور مضبوط سخت ہتھیار استعمال کرنے پر اْبھارا،کانگریس اور مسلم لیگی قیادت نے شدید جسمانی،اور عملی،رد عمل کا اظہار کیا۔ہتھیار ،چھڑیاں اْٹھائیں۔اور اپنی طاقت دکھائی۔تا ہم جب برطانوی استعمار کو معلوم ہوا۔کہ مفتوحہ ،مقبوضہ ،سماج قوم  ملک ہونے کے باوجود بر صغیر کے ان مجاہد صفت، قوم ،خصوصًا مسلمانوں میں ریاستی جبر نے ظلم کا جسمانی ریاستی طاقت استعمال کرنے کی دم،خْم اب بھی موجود ہے تو فرنگی استعمار کے رویوں میں تھوڑا لچک پیدا ہوا۔اور فرنگی استعمار نے طاقت ،اختیار باگ ڈور کے باوصف ہندوستانی قوم بشمول ہندئووں اور مسلمانوں کی مزاحمتی طاقت کو تسلیم کیا۔گاندھی جی جیسے بالغ نظر ،دور اندیش ہندو بانی اور رہنما نے کہاکہ خطے ،ریاست ،اور سماج کا امن ،آزادی صرف مذاکرات افہام و تفہیم سے ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لئے طاقت اور مزاحمت اور ڈنڈے ،بندوق ،توپ،ہتھیار کا استعمال از حد ناگزیر اور لازم ہے۔ گاندھی جی کے اس نظریے ،قول اور کہاوت ہوں بھی  دیکھا جا سکتا ہے 
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد 
 رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
یعنی ظالموں اور جابروں کے سامنے منت آہ وزاری کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔جب تک بندوق ،چھڑی استعمال نہ کیا جائے۔گاندھی جی سے منسوب  کہاوت اور اقبال کا شعر آج کی ریاست ،سماج دشمن ظالم اور سفاک حارجیوں ،غیر خارجیوں اور دہشت گردوں پر 100% صادق آتا ہے۔دودھائی سے زائد قبل پاکستان ،بے امنی اور دہشت گردی کی لہر میں جہاں تھا، آج بھی وہاں کھڑا ہے۔آخر جانی  اور وسائل کی قربانیوں کے باوصف دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہوتی۔ملک میں جاری دھائیوں سے زائد دہشت گردی اور بے گناہ انسانی قتل عام کو روکنے کے لئے اگر چہ جہاں افواجِ پاکستان نے بے شمار قربانیاں دیں۔وہاں سماج اور ملک کے دیگر مخصوص سرکاری قوتوں نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔اب سوال یہ ہیکہ خارجی یا فتنہ الحوارج کن راستوں اور گزر گاہوں سے ہماری سرحدیں عبور کرکے لاشیں گراتے اور ہمارے شہریوں اور فوجی افسروں جوانوں ، پولیس فور س ،اور علماء کرام کا پاکیزہ لہو بہاتے ہیں۔ہمارے ھاں حکومت کے زیرِ انتظام درجنوں سینکڑوں ایجنسیاں ،قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہزاروں چاک و چوبند ،چوکس مستعد فورسز سرحدوں پر متعین اس دھرتی کے شہریوں کو سْکھ ، امن فراہم کرنے کے لئے شب و روز کوشاں فرائض انجام دے رہے ہیں۔جن پر ملک اور عوام کے اربوں روپے سالانہ مصرف آتے ہیں۔پاک فوج / سیکیورٹی فورسز ،پولیس کے باہمت ،نڈر ،بہادر ،سپوت واہلکار اور افسران ،ملک اور شہریوں کے جسمانی تحفظ اور امن کے دیرپا قیام کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ کر فرائض انجام دے رہے ہیں۔تاہم پھر بھی بے گناہ ،پالیزہ شہریوں ،علماء￿  کرام ،اور پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔یہ حملے کیوں ،کہاں سے کر رہے ہیں۔بلکہ یہ حملے کیسے ہو رہے ہیں۔کیا سیاسی قیادت ،پاک فوج قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام ہو چکے ہیں؟ اگر چہ پاک فوج ،ادارے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔تو پھر ان ظالم ،دہشت گردوں کے راستیں ،ذرائع ،وسائل ،سفاکانہ ہاتھ کیوں نہیں روکے جا سکے۔جعفر ایکسپریس حادثہ موجودہ حکومت کی ناکامی ہے۔پاکستان اپنی کمزور معیشت کے باوصف خارجی دنیا کے لئے جغرافیائی ،عسکری اور درجنوں خوابوں سے ازحد اہمیت کا حامل ہے۔ہماری مقتدرہ اور بااختیار سیاسی انتظامیہ دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈوں کو جب بھی پکڑیں۔اسے اپنے ملک کے اندر ماریں۔اسے قطعًا دوسرے ملک کے حوالے نہ کریں۔اس سے ہماری داخلی استحکام اور خود مختاری پر سوالات اْٹھتے ہیں۔بے حس اور احسان فراموش امریکی اعلیٰ سیاسی سیٹ اپ یا موجودہ ٹرمپ انتظامیہ نے ہماری عسکری برتری اور بالا دستی، لیاقت اور طاقت کو تسلیم کیا ہے۔لیکن ہم پھر بھی امتیازات کا شکار ہیں۔مولانا حامد الحق ،مفتی منیر ،شہید کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں بنے 14 نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر موجودہ عمل درآمد نہیں ہوا۔ہماری ناکام سیاسی انتظامیہ یہ اعادہ کرتے تھکتی نہیں ،کہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑے سے اْکھاڑا۔تاہم وقتًا فوقتًا یہ لہر دوبارہ سر اْٹھاتی ہے۔کیا فوجی آپریشن بھی ناکا م ہے۔وجہ کیا ہے؟ یہ عاجز نہیں سمجھتا۔کہ ہماری سخت سرحدی کنٹرول منیجمنٹ ،کڑی نگرانی ،چوکس عسکری جوانوں ،مضبوط انٹیلیجنس نظام، جدید ٹیکنالوجی نیٹ ورک امریکہ کے ساتھ مربوط اطلاعاتی انٹیلیجنس نظام ہونے کے باوصف دہشت گرد کے لئے ملک کے اندر رسائی حاصل کرتے ہیں۔اگر چہ پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ ایجنسیوں کا مربوط مستحکم نظام قائم دائم ہے۔پاک فوج ہماری خفیہ ایجنسیاں ،دانائی ،داخلی اور خارجی خطرات کو محسوس کرنے اور معلومات رکھنے ،اور کسی بھی امکانی خطرے کی علامت،اطلاعات تک رسائی میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔فوج،عوام اور ملک کے پولیس فورسز بارود کے ڈھیر پر بیٹھے اپنی ،خونی ،وحشی موت سے بے خبر خوف و ہراس کی فضائووں اور انتہائی غیر محفوظ ماحول میں سانسیں لے رہے ہیں۔بلوچستان کوئیٹہ میں جعفر ایکسپریس پر دہشت گردانہ حملہ ،ظالموں کی سراسمیگی ،شکست ،خوف بزدلی ،اعصابی ،تنائو کمزوری کی علامتیں ار ھاری سیکیورٹی فورسز کی بے مثال ،جرئات ،مہارت ،عزیمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔سیاسی پنڈت ،پارلیمان۔اورکوچہ سیاست کے بے حس امن لانے والے اور عوام کو معاشی تحفظ ،سکھ فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔دہشت گردی کے حالیہ پے درپے سانحات نے جہاں عوام ،خواص اور طاقتور ترین حلقے ،فورسز محفوظ نہیں ہیں۔تو عوام کیسے اور کیوں محفوظ ہوں گے۔ہمارے سماج میں دو عشروں سے زائد بد امنی ،خون آلودی لاشیں خوف ، دہشت اور ہولناکی کا نظارہ پیش کر رہا ہے۔سیاسی انتظامیہ تو ناکام ہے۔کیا مقتدرہ اور محافظ ادارہ بھی بے بس ہو چکا ہے۔حکومت ،اور مقتدرہ باہم ہم آہنگی سے ملکر دھرتی ماں کو سفاکیوں سے پاک کر دیں۔اور ملک کو محفوظ بنائیں۔داخلی ،خارجی ،امن ،استحکام معاشی سکھ ،سماج کا اولین استحقاق ہے۔عوام ، ذرائع ابلاغ ،سیاسی انتظامیہ ،پاک فوج پولیس فورسز جو اس بربریت ،سفاکیت سے نبرد آزما ہیں۔سیکیورٹی فورسز اور اداروں کے ہاتھ مضبوط کریں۔2012 ، 2013 ء￿  میں سیاسی انتظامیہ اور ملک کی حاکمیت کو چیلنج کرنے والوں دہشت گردوں کیساتھ مذاکرات کی کوششیں کی گئی۔اور افہام وتفہیم کا راگ الاپا گیا۔تاہم مٹھی بھر ،ظالموں اور دہشت گردوں نے اسے حکومت اور اداروں کی کمزوری سمجھا۔اس کے بعد مقتدرہ نے ایسی نرم پالیسی کو ترک کیا۔اور طاقت کے استعمال کو فوقیت دیا گیا۔جو ناگزیر اور جرئات مندانہ اقدام ہے۔حکومت ،طاقت اور حکمت عملی دونوں کو دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اْکھاڑنے کے لئے بروئے کار لائیں۔عصانہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیادرشی کے فاقوں سے نہ ٹوٹا برہمن کا طلسم کے مصداق ،بندوق ،اور حکمت کا ہتھیار دونوں کارگر ہو سکتے ہیںاور دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جائے یہی بقا کا راستہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن