کیپٹو پلانٹس ، معیشت پر آئی ایم ایف کا ڈرون حملہ

 قیام پاکستان کے بعد ہی پاکستان معاشی ابتری کا شکار رہا ہے ، جس کیلئے روز اول سے ہی ملک کا انحصار عالمی مالیاتی اداروں سے قرض پر ہی ہے ، حکومت کو عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لیتے وقت اپنی معاشی پالیسیوں میں شفافیت اور ذمہ داری کو یقینی بنانا چاہئے ، قرض کی شرائط کو مکمل طور پر سمجھنا اور ان کی پائیداری کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہوتا ہے ، اسکے ساتھ ساتھ قرض کی واپسی کی صلاحیت اور ممکنہ اثرات بھی زیر غور لانا چاہئے تاکہ ملک کا معاشی استحکام برقرار رہے ، اور اگر مالیاتی ادارے خاص کر آئی ایم ایف سخت شرائط رکھیں تو حکومت وقت کو ان شرائط کا تفصیلی جائزہ لینا چاہئے ، لہذا اس بات کو مدِ نظر رکھنا انتہائی اہم ہے کہ شرائط ملکی مفاد کے مطابق ہوں اور ان سے طویل مدتی معاشی استحکام متاثر نہ ہو ، کڑی شرائط پر مشتمل مذاکرات میں محتاط رہ کر بہتر شرائط حاصل کرنے کی کوشش اہم عنصر ہو تا ہے تاکہ قرض کا بوجھ ملکی معیشت پر کم سے کم پڑے ۔   حکومت پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ( آئی ایم ایف ) سے ستمبر 2024 ء میں سات ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت کیلئے دستخط کئے تھے جس کے تحت پاکستان کو جنوری 2025 ء کے آخر تک کیپٹو پاور پلانٹس( سی پی پیز)کو گیس منقطع کرنے کا پابند کیا گیا تھا ، نیز وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب اور گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کی جانب سے گزشتہ سال ستمبر میں آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے میں تسلیم کیا تھا کہ ہم جنوری 2025 ء کے آخر تک کیپٹو پاور پلانٹس کی بجلی کا ستعمال ختم کر دینگے ، دوسری جانب صنعتی یونٹس گیس اور ایل این جی کی ترسیل منقطع کرنے کی صورت میں برآمدات عالمی سطح پر شدید نقصان سے دوچار ہوں گی، اگر کیپٹو پاورپلانٹس بند کر دینے سے ملک کئی معاشی اثرات کی لپیٹ میں چلا جائیگا ، اور لاکھوں مزدور بے روز گار ہوجائیں گے ، گیس کی بندش کا فیصلہ معیشت پر گہرے اثرات مرتب کر دیگا ، آئی ایم ایف کے مطالبے کے پیش نظر کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی ترسیل بند کرنا ملکی معیشت پر ڈرون حملہ کرنے کے مترادف ہے مجوزہ مطالبہ معیشت کو دیوالیہ کر دیگا اور قرض بھی ادا نہ ہو پائے گا ۔ ہم خون کی قسطیں تو کئی دے چکے لیکن  اے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا  گیس کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف کا مطالبہ صنعتی سی پی پیز کو گیس کی فراہمی منقطع کرنا در اصل با ضابطہ ڈیفالٹ کی ترکیب دینے کے مترادف ہے ، کیونکہ کہ گیس کمپنیوں کا مجموعی نقصان 400 ارب روپے سالانہ سے تجاوز کر جائیگا، وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے صنعتی سی پی پیز کو گیس کی فراہمی ختم کرنے کیلئے خود مختار معاہدوں میں ہاتھ باندھنے کا ذمہ دار نگران حکومت کو قرار دیا ،جو کہ قومی مفادات ، معاشی قابلیت اور یہاں تک کہ اکائونٹنگ کے مفادات کے خلاف ہے ، کیپٹو پاور پلانٹس بنیادی طور پرگیس یا تیل سے بجلی پیدا کرتے ہیں ، جو کہ بجلی کے بحران کے حل کے طور پر قائم کئے جاتے ہیں ، ایسے پلانٹس عمومی طور پر انڈسٹریز میں استعمال ہوتے ہیں ، جہاں یہ اپنی بجلی خود انحصاری کے غرض سے پیدا کرتے ہیں تاکہ قومی گرڈ پر انحصار کم کیا جائے ، تاکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے اپنی پیداواری صلاحیت کو بچایا جا سکے ،اپنی مسلسل بجلی کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے سیمنٹ ، ٹیکسٹائل اور دیگر بڑے صنعتی اداروں میں یہ پلانٹس استعمال کئے جاتے ہیں ، کیپٹو پاور پلانٹس بجلی کے بحران کے دوران ایک متبادل ذریعہ ہیں ، جو کہ انڈسٹریز کو خود کفیل بنانے میں انتہائی مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔  سر دست حکومت آئی ایم ایف کا مطالبہ من و عن معاہدے کی صورت میں تسلیم کر چکی ہے اس کے باوجود وفاقی وزیر پٹرولیم معاہدے کے تناظر میں سی پی پیز کو گیس منقطع کرنے کامطالبہ ترک کرنے پر آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی کوشش میں ہیں ، بصورت دیگر ملک کے طول وعرض میں انڈسٹریز گیس کی ترسیل بند ہونے سے بند ہو جائیں گی، صنعتی پیداوار تعطل کا شکار ہوگی اور بیروز گاری میں اضافہ ہوگا ، کیپٹو پاور پلانٹس گیس کا زیادہ حجم کا خریدار ہے ، ان پلانٹس کو گیس کی سپلائی روک دینے کی صورت میں گیس کے صارفین کے لئے 100 ارب روپے کی سبسڈی کو جاری رکھنا نا ممکن ہوگا ،آئی ایم ایف کے مطالبے کو اگر حکومت طے شدہ معاہدے کے مطابق پلانٹس کو گیس کی سپلائی منقطع کرتی ہے ، تو یہ پلانٹس سسٹم سے باہر چلے جائیں گے ، اور 420 ارب روپے کے نقصان کے علاوہ حکام کو گیس کے نئے صارفین تلاش کرنے پڑیں گے جو کہ 300 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کے استعمال کے خواہاں ہوں ، کیپٹو پاور پلانٹس سے حکومت سالانہ 420 ارب روپے کا ریونیو حاصل کرتی ہے اور انڈسٹری موجودہ حالات میں 100 ارب روپے کی کراس سبسڈی دے رہی ہے ۔ پاکستان آئی ایم ایف پر انحصار کم کرنے کیلئے اپنی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے ، اس کے لئے مالی نظم و ضبط ، ٹیکس وصولی میں اضافہ اور تونائی کے شعبے میں اصلاحات انتہائی ضروری ہیں ، مزید برآں صنعتی اور زرعی شعبوں کی ترقی سے بر آمدات بڑھا کر غیر ملکی آمدنی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔  جو ادارے اور اثاثے حکومت نے بیرونی ذریعے (آئوٹ سورس ) کے حوالے کئے ہیں ، ان اثاثوں کی بحالی ( ریکوری) کیلئے ان کی مینجمنٹ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے ، اس کیلئے شفافیت یقینی بناتے ہوئے معاہدوں پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے ، جبکہ پیشہ ورانہ مہارت اور تجربے کے حامل افراد کی تقرری سے اثاثوں کی کار گردگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے ، قانونی چارہ جوئی اور مذاکرات کے ذریعے بھی اثاثوں کی واپسی ممکن بنائی جا سکتی ہے ۔

ای پیپر دی نیشن