آج کے دور میں صنف نازک کسی مرد مجاہد سے کم نہیں، جن معاشروں میں عورتیں مردوں کے ہم قدم ہوتی ہیں ، وہاں ترقی اور خوشحالی کی رفتار دوسروں سے بہتر ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں روایتی طور پر عورت کو چادر اور چار دیواری کا پابند کرتے ہوئے گھروں میں محدود کر دیا جاتا ہے۔ اگر پورے ملک کا جائزہ لیں تو نصف سے زیادہ آ بادی میں اس قسم کی پابندیاں جا بجا دکھائی دیں گی۔ لیکن بڑے شہروں کے روشن خیال خاندانوں نے عین اسلامی روح کے مطابق اپنی بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی مضبوط روایت ڈالی اور پھر،، لمحہ موجود،، میں زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں، جہاں یہ عورت مردانہ وار اپنی ذمہ داریاں نہ نبھا رہی ہو، وطن عزیز میں آبادی کی شرح بھی یہی بتاتی ہے کہ عورت 52 فیصد ہے۔ ایسے میں انہیں نظر انداز کرنا ظلم عظیم ہے کیونکہ کسی بھی بورڈ یا یونیورسٹی اور امتحان کے نتائج ملاحظہ کر لیں، لڑکوں کو لڑکیاں شکست دیتی ملیں گی۔ پھر بھی معاشرے میں پڑھے لکھے خاندان بھی بچیوں کو اعلی تعلیم، ڈاکٹر اور انجینئر بنا کر انہیں عملی دنیا میں نہیں آ نے دیتے بلکہ وہ اس تعلیم کے ناطے اعلی اور منفرد رشتوں کی تلاش کے سوا کچھ نہیں کرتے، حالانکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی عورت ہمیشہ سے کھیتوں اور کھلیانوں میں محنت اور جفا کشی میں مصروف ہے، وہ اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنے میں بھی کردار ادا کر رہی ہے۔ تاہم ماضی کے حوالے سے نہ صرف حال میں لوگوں کی سوچ بدلی ہے بلکہ عورت مستقبل کی فکر میں بھی جدوجہد کر رہی ہے، اس وقت پاکستان کے بڑے صوبے پنجاب میں پہلی بار خاتون وزیراعلی مریم نواز شریف کے انتخاب پر بھی مخالفین نے واویلا کیا، اسی طرح جب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیراعظم پاکستان بنی تھیں، ان حالات میں بھی شور وغوغا مچایا گیا تھا لیکن انہوں نے ایک نہیں دو بار وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا اور مخالفتوں کے باوجود نہ صرف جمہوری روایات مستحکم کیں بلکہ فلاحی منصوبے بھی بنائے۔ ملک دشمنوں اور انکے سہولت کاروں نے دہشت گردی کی واردات میں ان کی جان لے لی، موجودہ حالات کے تناظر میں مریم نواز ترقی و خوشحالی اور عوامی منصوبوں کے حوالے سے تینوں صوبوں بلکہ گلگت بلتستان اور آ زاد کشمیر سے بھی آگے نہیں، بہت آ گے دکھائی دے رہی ہیں۔ ان کی اس کامیابی کی بنیاد نواز شریف، شہباز شریف اور محسن نقوی کے ادوار ہیں جب انہوں نے بطور وزیراعلی حلف اٹھایا تھا۔ اس وقت بھی ان کا یہی عزم تھا کہ وہ چاچو اور محسن نقوی سپیڈ سے آگے نکلنے کی ہر ممکن کوشش اپنے قائد نواز شریف کی سیاسی بصیرت اور استاد محترم پرویز رشید کی رہنمائی میں نہ صرف کریں گی بلکہ انہوں نے مخالفین کے اندازے مٹی میں ملا دیں کہ مریم نواز اچھی ایڈمنسٹریٹر ثابت نہیں ہو سکتیں۔ اس کامیابی میں ان کا،، ٹیم ورک،، نمایاں ہے۔ دراصل یہ کامیابیاں تین عورتوں کی تین کہانیاں ہیں۔ اگر مثبت اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو مریم نواز ہی ،، آ ئرن لیڈی ،،ثابت ہوں گی جنہوں نے ہر قسم کی ٹرولنگ ،رکاوٹ اور مشکلات کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی بجائے ان کا بھرپور انداز میں مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور ہر موقع پر صوبے اور عوامی فلاح کے منصوبوں پر توجہ مرکوز رکھی، آ ج مخالفین بھی اسی لیے ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری خاتون مریم اورنگزیب سینیئر صوبائی وزیر ہیں جن کے پاس پارلیمانی تجربہ بھی ہے اور وہ وفاق میں بھی اہم خدمات انجام دے چکی ہیں۔ ان کی والدہ محترمہ بھی مسلم لیگ نون کی پارلیمانی روایات اور جمہوریت کے لیے کردار ادا کر چکی ہیں۔ ان کی مریم نواز شریف سے قربت اور کیمسٹری ملتی ہے اس لیے وہ اپنی ذمہ داریوں کے اعتبار سے منفرد ہیں۔ تیسری خاتون صوبائی وزیر اطلاعات عظمی بخاری ہیں جنہیں میدان سیاست میں بہت کچھ دیکھنے کو ملا۔ ایک سے زیادہ مرتبہ رکن اسمبلی بنیں لیکن ان کا جاہرانہ اور مضبوط سیاسی تربیت کا رنگ کبھی ماند نہیں پڑا کیونکہ ان کا انداز گفتگو اپنے سیاسی موقف کے حوالے سے اٹل رہا۔ انہیں بنیادی سیاسی تربیت پاکستان پیپلز پارٹی سے ملی اور وہاں سے جو کچھ سیکھا وہ آج مسلم لیگ نون کے کام آرہا ہے اسی لیے ان کا انداز خالصتا عوامی اور سیاسی ہے۔ وہ وزیر اطلات مریم نواز کی کابینہ میں ہیں لیکن پارلیمانی سیکرٹری اور میڈیا کوارڈینیٹر کے طور پر ان کے ذرائع ابلاغ اور میڈیا سے تعلقات ہمیشہ سے خوشگوار رہے ہیں اور اس کا بھرپور فائدہ وہ وزیر اطلاعات کی حیثیت سے اٹھا رہی ہیں۔ دلیری سے حکومتی موقف کی وکالت اور مخالفین کو ان کی حیثیت کے مطابق آڑے ہاتھوں لینے کا گر جانتی ہیں۔ تاہم مریم نواز کی کابینہ میں خواجہ سلمان، خواجہ عمران نذیر اور دیگر وزرا ایسے ہیں جو اپنی تمام تر صلاحیتوں سے پوری کمٹمنٹ کے ساتھ وزیراعلی کے مزاج کے مطابق کام کر کے اپنی تقرری درست ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ اس طرح مریم نواز ایسی خوش قسمت وزیراعلی ہیں جنہیں پہلے ہی اقتدار میں بہت کچھ کرنے کو ملا بلکہ ایک ٹیم بھی ایسی ملی جس میں کسی بھی لمحے سپرٹ کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔
وزیر اعلی پنجاب مریم نواز روز اول سے کبھی فارغ نہیں بیٹھیں کیونکہ جونہی ان کی نامزدگی کا فیصلہ ہوا وہ سرگرم ہو گئیں۔ تمام محکمہ جاتی بریفنگ لے کر ورکنگ شروع کی۔ اسی لیے زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں کہ جس کے متعلق انہیں آگاہی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نئی نسل کو قومی ترقی کا سرمایہ سمجھتے ہوئے طلباء اور طالبات کیلئے خصوصی منصوبہ بندی کی۔ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ شعبہ تعلیم اور صحت کی بے ضابطیاں ختم کر کے مثبت نتائج جلد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ وہ وفاق کے اس نعرے پر ایمان رکھتی ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم حق بھی اور فرض بھی ہے اس لیے تعلیمی اداروں کو اپ گریڈ کر کے بیٹیوں کو بہتر سے بہترین تعلیم دی جائے۔ انہیں اس بات کی بھی آگاہی ہے کہ ہمارے ہاں غربت اور مہنگی تعلیم کے باعث ہنر مند طلبہ اور طالبات مجبوراً اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتیں اس لیے انکی پذیرائی کیلئے ایک سے زیادہ منصوبے ایسے بنائے کہ اس شکایت کا ازالہ ہو سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں تمام بچوں اور بچیوں کو ایک ماں کی نگاہ سے دیکھتی ہوں اور ہر ماں میں یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ بچوں کیلئے ہر وقت اچھا سوچتی ہے تو میں کیسے بچوں کے کو نظر انداز کر سکتی ہوں۔ اسی طرح صحت اچھی اور خوشگوار زندگی کی بنیاد ہے لہذا انہوں نے انہوں نے ہیلتھ پالیسی میں ضروری اصلاحات سے ہسپتالوں میں پائی جانے والی سست روی کا خاتمہ کیا ہے اور کرپشن سے نجات کیلئے بھی ابتدائی اقدامات کے ساتھ صوبائی دارالحکومت لاہور کے علاوہ دہی علاقوں کے ہسپتالوں کیلئے بھی خصوصی انتظامات جدید الات اور ڈاکٹرز کی کمی پوری کی بلکہ وقت بے وقت غیر اعلانیہ چھاپے مار کر سوئے ہوئے لوگوں کو ذمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش بھی کی۔ دور دراز علاقوں کے مریضوں کیلئے پہلی مرتبہ ہیلی کاپٹر سروس شروع کر کے دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو توجہ دلاؤ نوٹس دے دیا۔ مریم نواز ایک ماں ایک بیٹی کی حیثیت سے خواتین کو اپنی ریڈ لائن قرار دیتی ہیں۔ وہ خواتین پر ناروا ظلم و تشدد کے خاتمے کیلئے بھی سرگرداں ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ با اختیار عورت ہی ریاست کی ترقی و خوشحالی کی علامت ہے۔ دنیا بدل چکی ہے ہمیں بھی بدلنا ہوگا۔عورتوں کو ہم قدم بنانے سے ترقی رفتار میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ بد اعتمادی کے خاتمے سے معاشرے کا ایک مثبت ستون بنے گی اور پھر لوگ انہیں بوجھ سمجھنا چھوڑ دیں گے۔ بات انتہائی اہم ہے ہماری لڑکیاں زندگی کے ہر میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں پھر انہیں گھر کی چار دیواری میں قید کر کے دقیانوسی سوچ کا مظاہرہ کیوں کیا جا رہا ہے ؟سوال تو جائز ہے لیکن حالات کار میں بہتری یقینا حکومتی ذمہ داری ہے مریم حکومت نے خواتین کے تحفظ اور حقوق کی پاسداری کیلئے پرعزم انداز میں اقدامات کیے۔ ان کا نعرہ ہے کہ ،،میرا مان، سب کو ملے مکان ،،لہذا اپنی چھت اپنا گھر منصوبے کے تحت اشتراک عمل سے جدید سہولیات کے ایسے گھر بنا دیے، جہاں واٹر فلٹرلیشن پلانٹ، سولر سسٹم، مسجد ،اسکول ،پلے گراؤنڈ اور ڈسپنسری کی سہولت بھی موجود ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر پنجاب ترقی کرے گا تو وفا ق کو بھی اسکے ثمرات ضرور ملیں گے۔ تازہ ترین کارنامہ یہ ہے کہ کاروباری اور معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے کیلئے 36۔ ارب روپے کی خطیر رقم سے آسان کاروبار فنانس اسکیم کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے 10۔لاکھ روپے سے تین کروڑ روپے تک قرضہ جات پانچ سال کی آ سان قسطوں پر دیے جائیں گے جبکہ چھوٹے کاروبار کیلئے 48۔ ارب سے آ سان کاروبار کارڈ کا اجرا بھی کیا جا رہا ہے اس منصوبے میں 10۔ لاکھ روپے بلا سود حاصل کیے جا سکیں گے اور اچھی بات یہ ہے کہ ان دونوں منصوبہ جات میں مرد و خواتین کے ساتھ خواجہ سرا اور خصوصی افراد کو بھی اہل قرار دیا گیا ہے ۔
مریم نواز شریف کے ترقیاتی اور خوشحالی کے منصوبوں کی رفتار ماضی کے حوالے سے خاصی تیز محسوس ہو رہی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اربوں کے ان منصوبوں میں مانیٹرنگ کا سسٹم مضبوط بنیادوں پر بنایا جائے تاکہ حقدار اور میرٹ پر پورا اترنے والے ہی ان سے فائدہ اٹھا سکیں،، دو نمبری،، کی گنجائش نہ ہو۔