حکومتی دعوے ٹھس‘ تباہی کے ذمہ دار حکمران

گلزار ملک

 کیسا وقت آگیا ہے آج ہر لحاظ سے ہر انسان کا جینا مشکل ہو گیا ہے اس وقت ہر شخص بڑھتی ہوئی مہنگائی ملکی افرا تفری کی وجہ سے اپنی زندگی کے دن نہ جانے کیسے گزر رہا ہے اس کا اندازہ شاید موجودہ حکومت کو نہیں ہو رہا اگر ہو رہا ہے تو پھر میں تو یہاں پر یہی کہوں گا کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر غریبوں کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے۔آخر کب تک آپ ذرا غور کریں کہ اس وقت جس شخص کی ماہانہ تنخواہ 25 ہزار روپے ہے۔ وہ اس ظالم مہنگائی کے دور میں اپنا گزارا کس طرح کرتا ہوگا یہ میں بتاتا ہوں اس کے دس ہزار روپے بجلی، گیس اور پانی کے بلوں میں چلا جاتا ہے اور بقیہ رقم سے مکان کا کرایہ ، گھر کا راشن، بچوں کے سکول کی فیس، ماں باپ کی دوائی اور خوشی غمی کے معاملات چلانے ہوتے ہیں، جو کہ تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ اور مقامی دکاندار کے چھ ماہ کا راشن کا بل واجب الادا ہے۔ محلے داروں، دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی ادھار لے رکھا ہے۔ کبھی بچوں کے دودھ کے پیسے نہیں ہوتے اور کبھی ایک وقت کا فاقہ کرنا مجبوری بن جاتا ہے۔
 چھ سال پہلے 25 ہزار روپے تنخواہ تھی اور 20 ہزار میں بہترین گزارا ہو جاتا تھا۔ پانچ ہزار روپے بچ جاتے تھے۔ ادھار لیے بغیر گھر کا نظام خوش اسلوبی سے چل رہا تھا۔ تاہم اب حالات قابو میں نہیں رہے۔ بیچارے غریب ایسے حالات میں سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر ان حالات کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ وزیر، مشیر، مافیاز یا پھر وزیراعظم۔ اگر بغور دیکھا جائے کہ ہمارے ملک کو چلانے والی تمام ٹیمیں بہترین، ذہین ترین، پڑھے لکھے اور جہاندیدہ افراد پر مشتمل ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم دنیا کے ساتھ قدم بڑھا کر آگے چلنے کی بجائے ترقی معکوس کررہے ہیں اور ہر آنے والا دن ہمیں آگے کی بجائے پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ہم نے کہاں پہنچنا تھا اور کہاں پہنچ گئے ہیں۔ غربت، مہنگائی، لاقانونیت، افلاس اور ٹیکسوں میں بے تحاشا اضافے نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور ہر طبقہ بے چینییوں اور محرومیوں میں گھر چکا ہے۔ عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارے ملک کو چلانے والے تمام ادارے بہترین اور اعلٰی پیشہ ورانہ قابلیت کے حامل افراد پر مشتمل ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ملک نہایت تیزی سے تنزلی کی راہوں پر گامزن ہے اور نت نئے بحرانوں کی دلدل میں پھنستا جارہا ہے۔ کیا اس ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی سسٹم موجود ہے۔ اس کا جواب ہے کہ بالکل نہیں۔ اس تباہی کا کون ذمہ دار ہے۔ اس کا جواب سیدھا سادہ ہے کہ وہ افراد جن کے ہاتھ میں اس کی باگ ڈور ہے۔ جو دہائیوں سے اس کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ جو اختیار و اقتدار کے ساتھ ساتھ شاہانہ پروٹو کول بھی انجوائے کرتے ہیں۔
 ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے کچھ فقرات مسلسل سماعتوں سے ٹکراتے رہے کہ پاکستان اس وقت شدید ترین اندرونی و بیرونی خطرات اور بحرانوں کا شکار ہے. نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ معاشی چیلنجز درپیش ہیں۔ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ قوم قربانی دے۔ قوم نے حکمرانوں کی باتوں کو ہمیشہ سر آنکھوں پر رکھا اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر اور اپنے خون پسینے کی کمائی سے ہر جگہ پر بلواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکس دیا اور جان لیوا طلسماتی مہنگائی بھی برداشت کی اور اس کے بعد یہی سمجھا کہ ہم نے کٹھن وقت گزار لیا ہے اب بہتر وقت ہمارے بہت قریب ہے اب ہم ایسا دور دیکھیں گے جس میں ہمارا ملک اور عوام دونوں خوشحال ہوں گے۔ اس معصوم قوم نے معجزات کے انتظار میں قیام پاکستان سے لے کر اب تک کے قیمتی سال گنوا دیئے۔ اس قوم کو ہمیشہ اپنوں نے دھوکے دیئے لیکن یہ مایوس نہیں ہوئی اور ہر دور میں اپنا مسیحا اور نجات دہندہ تلاش کرتی رہی۔
 پہلے پہل تو اس کو حقائق کا کچھ زیادہ علم نہیں ہوتا تھا مگر اس سوشل میڈیائی دور میں اب کوئی چیز بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ اب کرتوتوں پر پردے نہیں ڈالے جا سکتے۔ ہر شخص کا کچا چٹھا سکرین پر موجود ہے۔ کون کیا تھا کون کیسا ہے اور کیا کیا کچھ کرتا رہا ہے ایک کلک کے فاصلے پر موجود ہے۔ اس بات اور حقیقت کے ثبوت بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔ حکومت تو دعوے کرتی تھی کہ مہنگائی کم کریں گے اور آمدن میں اضافہ کیا جائے گا لیکن یہاں سب کچھ الٹ دکھائی دے رہا ہے۔ مہنگائی بڑھ گئی ہے اور آمدن میں اضافہ نہیں ہوا۔ لہذا موجودہ مہنگائی کی ساری ذمہ داری براہ راست وزیراعظم پر عائد کی جانی چاہیے اور ان کے احتساب کے لیے آواز اٹھائی جانی چاہیے۔
 بہرحال اگر حکومت اور عوام دونوں اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح خلوص اور لگن سے انجام دینے کی کوشش کریں تو وہ دن دور نہیں جب ایک بار پھر ملک میں خوشحالی کا سورج چمکے گا۔

ای پیپر دی نیشن