ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ کی اسلام اور پاکستان دوستی

ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ پیشے کے اعتبار سے ایک جراح ہیں۔ ممکن ہے لفظ جراح پڑھ کر آپ کا دھیان کسی گاؤں اور نیم شہری علاقے کے اس روایتی تربیت یافتہ یا غیر تربیت یافتہ معالج کی طرف گیا ہو جو لوگوں کی ہڈیاں جوڑنے اور پٹھے چڑھانے کا کام کرتا ہے۔ ڈاکٹر بھٹہ ویسے جراح ہرگز نہیں ہیں بلکہ وہ ایم بی بی ایس کی ڈگری کے حامل ہیں اور انھوں نے یونیورسٹی آف زیمبیا لوساکا سے جراحت میں ماسٹرز کی سند حاصل کرنے کے ساتھ برطانیہ کے رائل کالج آف سرجنز ایڈنبرا سے ایف آر سی ایس بھی کیا۔ علاوہ ازیں، انھوں نے آسٹریلیا کی مونیش یونیورسٹی میلبرن سے aviation medicine میں ڈپلوما بھی کیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کالم کے آغاز میں جراح کا لفظ برتنے کا ایک سبب اس لفظ سے جڑی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ہے۔ اس پیشے کے لیے انگریزی زبان میں surgery کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جبکہ اس سے وابستہ افراد کو surgeon کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں انگریزی اصطلاحات ہمارے ہاں بھی مستعمل ہیں لیکن ان کے اردو متبادلات کا استعمال تقریباً متروک ہوچکا ہے۔
خیر، بات ہو رہی تھی ڈاکٹر بھٹہ کی جن کا تعلق سرگودھا کے نواحی گاؤں سلانوالی ہے اور وہ گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے آسٹریلیا کے شہر برسبین میں مقیم ہیں۔ بچپن میں تو بھٹہ صاحب کی یہ خواہش تھی کہ وہ بڑے ہو کر پائلٹ بنیں اور اس کی ایک وجہ شاید یہ تھی کہ ان کے والد پاک فضائیہ میں تھے، لہٰذا انھوں نے ایک بچے اور لڑکے کے طور پر اپنے اردگرد جو کچھ دیکھا اس سے ان کے دل میں اس خواہش نے جنم لے لیا۔ اس خواہش کے برعکس ان کے والدین چاہتے تھے کہ بھٹہ صاحب طب کو بطور پیشہ اختیار کریں، اس لیے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد سعادت مند بیٹے نے ماں باپ کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد میں ایم بی بی ایس میں داخلہ لے لیا۔ اس مرحلے تک بھٹہ صاحب خود بھی اس بات سے واقف نہیں تھے کہ میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کا یہ فیصلہ ان کی زندگی کو کس طرح بدل کر رکھ دے گا اور آگے چل کر اس پیشے کی مدد سے وہ اپنی صرف ایک نہیں بلکہ کئی خواہشیں پوری کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
ایم بی بی ایس کی تکمیل کے بعد ڈاکٹر بھٹہ اپنے دوستوں کے ساتھ بیرونِ ملک چلے گئے اور پھر ایک ملک تک ہی محدود نہیں رہے، کئی ملکوں اور خطوں کی سیر و سیاحت کی۔ یہی سیرو سیاحت انھیں آسٹریلیا لے گئی جسے انھوں نے اپنا اختیاری وطن بنا لیا۔ اس وطن میں انھوں نے اپنی وہ خواہش بھی پوری کر لی جو نوجوانی میں والدین کی رضا پر قربان کر دی گئی تھی، یعنی ڈاکٹر بھٹہ نے آسٹریلیا میں ہوا بازی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور پھر پرائیویٹ پائلٹ کا لائسنس بھی لے لیا۔ آسٹریلیا میں طویل عرصے تک ڈاکٹر بھٹہ کان کنی کے پیشے سے وابستہ لوگوں کے علاج معالجے پر مامور رہے جس سے انھیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور یہیں سے انھوں نے جلد کے کینسر کے علاج میں مہارت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی مہارت کی بنیاد پر اب ڈاکٹر بھٹہ کی ایک پہچان ان کا جلد کے کینسر کا سرجن ہونا بھی ہے۔ 
اپنی تعلیم کے سلسلے کو ایک مختلف جہت دیتے ہوئے ڈاکٹر بھٹہ نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم اے اقبالیات کی ڈگری حاصل کی۔ اقبالیات میں سند کے حصول کی وجہ ان کی اردو، اقبال اور مسلم تاریخ سے وہ دلچسپی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی اور جس نے انھیں ایک طبیب اور جراح کی حیثیت سے الگ کر کے ایک مصنف اور مؤرخ بنا دیا۔ یہی دلچسپی انھیں ان مختلف ملکوں میں لے کر جاتی ہے جہاں مسلم تاریخ کے آثار بکھرے ہوئے ہیں اور ڈاکٹر بھٹہ ان آثار کو سمیٹ کر اپنی تحریر کے ذریعے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ ’زبانِ یارِ من ترکی‘ کے عنوان سے شائع ہونے والا ان کا ترکیہ کا سفرنامہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک سفرنامہ ہے لیکن اس میں ترکوں کے عروج و زوال کی داستان کو جس دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے اس نے اسے تاریخ کی ایسی کتاب بنا دیا ہے جسے انسان پڑھنا شروع کرے تو پھر پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
مذکورہ سفرنامے کی اشاعت اور پذیرائی کے بعد ڈاکٹر بھٹہ نے ’اہلِ وفا کی بستی‘ کے عنوان سے فلسطین کا سفرنامہ لکھنا شروع کیا جس کے جلد ہی منظرِ عام پر آنے کا امکان ہے۔ علاوہ ازیں، وہ دمشق اور ہسپانیہ کے سفرنامے لکھنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ ترکیہ،فلسطین، دمشق اور ہسپانیہ مسلم تاریخ کے چار اہم مراکز ہیں۔ ڈاکٹر بھٹہ ان علاقوں کے سفرناموں کے ذریعے تاریخ کے ان پہلوؤں پر بات کرنا چاہتے ہیں جن پر آج کے مسلمان توجہ نہیں دے رہے۔ طویل عرصے سے آسٹریلیا میں مقیم ہونے کی وجہ سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈاکٹر بھٹہ یہ سفرنامے انگریزی زبان میں لکھتے لیکن پاکستان اور اردو ان کی محبت نے انھیں مجبور کیا کہ وہ یہ تصانیف اردو میں تیار کریں تاکہ ان کے محبوب وطن کے رہنے والے نہ صرف مذکورہ چاروں علاقوں کے بارے میں جان سکیں بلکہ مسلم تاریخ کے ان گوشوں سے بھی واقف ہوسکیں جن سے دوری نے انھیں مسلسل زوال آمادہ کیا ہوا ہے۔ ڈاکٹر بھٹہ کی یہ کاوشیں ان کی خواہشات کی تکمیل کا باعث تو بن ہی رہی ہیں، ساتھ ہی ساتھ یہ ان کی اسلام اور پاکستان دوستی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہیں!

مشفق لولابی--- سماج دوست

ای پیپر دی نیشن