استحصال کا خاتمہ

سول یا ملٹری دورِ چاہے ماضی کی ہو یا لمحہ موجود( ابھی بھی بدلا کچھ نہیں) بالا دست طبقات جن کی حکمرانی میں موروثیت، بڑے زمیندار اور سرمایہ دار کا غلبہ موجود ہے۔انہی طبقات سے نکلی سول افسر شاہی جو ہمیشہ حکمران اشرافیہ کے مفادات کو تحفظ دیتی رہی ہے، آج بھی تبدیلی کا نعرہ لے کر آئی حکومت کیلئے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔کوئی بھی ادارہ چاہے وزارت ہو یا سفارت، وکیل، ڈاکٹر، استاد، تاجر، صنعتکار، صحت تعلیم،تجارت، صنعت و حرفت، سرکاری زمین ہو یا پرائیویٹ زمین، پولیس ہو یا پٹوار کا نظام، سرمایہ کاری اور بزنس کے نام پر بنائے کارٹیلز،لوٹ کھسوٹ کا نظام جاری ہے۔واپڈا ہو یا پی آئی اے، محکمہ گیس کوئی بھی اس سے مبّرا نہیں۔سب سے بڑھ کر لینڈ مافیا سرکاری سطح ہو یا نجی کرپشن، رشوت کا بازار گرم ہے، مافیاز کاقبضہ ہے۔عام آدمی پر بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔کوئی بڑا ٹیکس دینے کو تیار نہیں کیونکہ سسٹم ٹھیک نہیں۔مثال کے طور پر طبی شعبہ کو ہی لیں،ریاست کی صرف ناکامی کا آئینہ دار ہی نہیںبلکہ کسی بھی شعبے کا نظرغائر جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی ناکامی کی داستان سننے کو ملتی ہے۔ کہاں عوام کے لئے صحت کے لئے انشورنس کارڈ کا اجراء اتنے سرکاری ہسپتال ہی کہاں ہیں جہاں علاج ہو سکے گا،مخدوش صورتحال ہے۔ کسی بھی سرکاری محکمے میںچلے جائیں، شکایتوں کے انبار ہیں اور عام شہری پریشان حال ہے۔جائز کام کیلئے رشوت نہ دی جائے تو کام التوا کا شکار ہے۔تبدیلی کے منتظر عوام کے لئے معاملات پہلے جیسے ہی ہیں۔ بگڑے معاشرے کے لئے کاری ضرب کی ضرورت ہے۔حکومتِ وقت کو وقت ضرور دینا چاہیے۔ ظاہر ہے چند ماہ یا دن کسی بھی حکومت کی کارکردگی کے لئے کافی نہیںہوتے۔ دیکھا جائے تو کرپشن کی چال چلن وہی ہے۔ کوئی درست سمت بنتی نظر نہیں آ رہی۔ کسی بھی سرکاری محکمے میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔پی ٹی آئی کا حکومت میں آنے سے پہلے کوئی اصلاحاتی فریم ورک اور ہوم ورک نظر نہیں آیا۔بے یقینی کی صورتحال ہے۔مہنگائی بڑھنے کے ساتھ تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ بے روزگاری کی نظر ہے۔ ابھی تک کسی ٹھوس معاشی پالیسی کی سمت بھی نظر نہیںآئی۔چھوٹا سرمایہ کار اور چھوٹا مڈل کلاس تاجر پریشان حال ہے۔ بڑا صنعتکار ہر ماہ میں تین تین بار قیمتوں میںاضافہ کر رہا ہے۔سارا کام کارٹیلز پر مبنی ہے۔کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان مدتوں سے خاموش بیٹھا ہے۔قیمتوں پر کوئی کنٹرول یا چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔اسی بنیاد پر سرمایہ دار اور بڑا صنعتکار آئے روز قیمتیں بڑھاتا چلا جا رہا ہے جو ملکی خام مال بھی استعمال کرتا ہے، امپورٹ پر لگی ہوئی ڈیوٹی کا فائدہ بھی یہی لوکل سرمایہ دار اُٹھا رہاہے۔ اس کی مثال سیمنٹ ہو یا بلڈنگ گلاس انڈسٹری،ایسے سارے ہی منافع خوری کر رہے ہیں۔بوجھ عوام اور مڈل کلاس تاجر پر پڑرہا ہے۔ہر آنے والی حکمران اشرافیہ وسائل کی کمی کا رونا روتی رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے یا اور ذرائع سے قرضے لے کر ملکی ترقی میں حصہ نہیں ڈالتی رہی بلکہ منی لانڈرنگ کرکے اپنی جیبیں بھرتی رہی ہے اور دیارِ غیر اپنی دولت منتقل کرتی رہی ہے۔فری اکانومی کے تحت کاروباری لین دین اور ڈالر کی ٹرانسفر پچھلے دور میںسسٹم کا حصہ رہا ہے۔ ویسے احتساب کا شور، چور مچائے شور، جس بڑے پر ہاتھ پڑتا ہے، چیخنا شروع کر دیتا ہے، سخت اور کڑے احتساب کی سزا فوری ہونی چاہیے۔افسر شاہی ہو یا پولیس، ہرادارے کا احتساب ضروری ہے اور پھر ان پر لگام، جزا و سزا کا عمل ہوتا ہوا اور اداروں کی کارکردگی بھی جلد از جلد نظر آنی چاہیے۔ اگر احتساب کا عمل رُک گیا تو پہلے سے بھی برا ہوگا، نکیل پڑنی چاہیے۔فوج، عدلیہ اور حکومت اور تفتیشی ادارے اگر ایک پیج پر ہیں تو پھر کیامضائقہ، حکمران اشرافیہ چاہے حکومت میںہو یا اپوزیشن میں،نیت اگر صاف ہو تو ہماری اسٹبلشمنٹ کو ملکی مفاد کے لئے ہنگامی بنیادوںپر ساتھ دینا چاہیے۔ اسمبلی میں قوانین کی منظوری اور ان پر عمل داری کا پہیہ چلتا نظر آنا چاہیے۔حکومت توانائی بحران پر بھی فی الحال کوئی ہنگامی اور مختصر المدت منصوبہ نہیں لا سکی۔ملکی معیشت پر مہیب سائے نظر آتے ہیں۔ ڈالر کی قیمت بڑھنا اور روپے کی قدر میں کمی، سب کیا ہے، نتیجہ مہنگائی کے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔معاشی توازن کا برقرار رہنا کیسے ممکن ہے، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر، عملاً پیش رفت دور دکھائی دیتی ہے۔ انجینئر اور پڑھا لکھا طبقہ بے کار بیٹھا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا، بگڑے نظام کی دین ہے۔ معاملات کی درستگی کے لئے رکاوٹیں اور پھر ردِ عمل سمجھ میں آتا ہے۔ اچھی تجربہ کار،صالح، پڑھی لکھی ٹیم کی عمران خان کو ضرورت ہے۔ناجائز تجاوزات کے خلاف ایکشن صائب ہے۔ ملکی سکیورٹی صورتحال اور جرائم کی جانب اضافہ، کنٹرول کی ضرورت ہے۔حکومت کو چھوٹے کاشتکاروںپر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ فوائد صرف امیروں تک محدود نہیں رہنے چاہئییں۔ بڑے زمیندار کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے۔خسارے میں چلنے والے اداروں کی واضح پالیسی آنی چاہیے۔ موجودہ حکومت نے روپے کی قدر میں کمی کا اقدام کرکے ایسے اور کئی اقدام کرکے آئی ایم ایف سے قرضے کی راہ ہموار کر لی ہے۔ اب قرض لے ہی لینا چاہیے۔ آئی ایم ایف مانیٹرنگ ہی تو کرتا ہے،کیا قباحت ہے۔کونسے نظام میں تبدیلی آ گئی ہے، ایسے ہی چلے گا جیسے پہلے چلتا آیا ہے۔ پھر بھی ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ ہونا چاہیے جس میں عام آدمی کو ریلیف ملنا چاہیے۔ شراکتی فلاحی ریاست جیسے چین اور ترکی میں ہے،پر ہی عمل کر لینا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن