بے نقاب اورنگ زیب اعوان
laghari768@gmail.com
سیاست مسائل کو افہام تفہیم سے حل کرنے کا نام ہے. مگر ہمارے ہاں اس کے معانی کچھ اور ہیں. ہم لوگ دوسروں کو دھوکہ، فریب، نقصان پہنچانے کو سیاست کہتے ہیں. ہمیں سیاست نے دیا کچھ نہیں. سوائے سیاستدان بنانے کے. بدقسمتی سے پاکستان کا ہر شہری خود کو سیاستدان سمجھتا ہے. وہ سیاستدان جو اپنے حق کے لیے ہمہ وقت لڑتا ہے. مگر فرائض کو ادا کرنے سے بھاگتا ہے. گلی کوچے، گاؤں، بازار ہر جگہ ہر کوئی سیاست پر بات کرتا نطر آتا ہے. یہ سوچے سمجھے بنا کہ اس نے سیاست سے کیا لینا دینا ہے. اسے سب سے پہلے معاشرہ کا ایک مفید شہری بننا چاہیے. جو اپنے فرائض منصبی پوری دلجمعی سے ادا کرتا ہے . کام کے اوقات میں فارغ نہیں بیٹھتا. اپنا رزق حلال کما کر کھاتا ہے. رشوت لیکر اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پالتا. پھر اس کا حق ہے. سیاست پر بات کرے. ورنہ خاموش رہ کر زندگی بسر کرے. ہم لوگ اپنی خامیوں پر نظر نہیں ڈالتے اور دوسروں کے عیبوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں. ہماری فراغت پسندی کی عادت نے ہمیں سوائے تنقید کے کچھ نہیں سکھایا. سیاست کو ایک مخصوص وقت پر کرنا ہی اچھا لگتا ہے. بے وقت کی سیاست معاشرے کے لیے زہرہ قاتل ہے. جن لوگوں نے سیاست سے مالی فوائد حاصل کرنے ہوتے ہیں. وہ عوام کی ووٹوں سے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر عیاشی کرتے ہیں. اور عوام سڑکوں پر ذلیل و خوار ہوتی پھرتی ہے. صوبہ بلوچستان کے جو حالات ہیں. یہ ہمارے سیاستدانوں ہی کی مرہون منت ہیں. 77 سالوں سے ملک تو آزاد ہو چکا ہے. مگر بلوچ عوام آج بھی قبائلی سرداروں کی غلامی میں محکومی کی زندگی گزار رہی ہے. یہ سردار ہر دور حکومت میں رکن قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہوکر حکومتی ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں. اور اپنے علاقہ کی عوام کے لیے کچھ نہیں کرتے. عوام کی احساس محرومی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ شرپسند عناصر انہیں ملک کے خلاف اکساتے ہیں. یہ سادہ لوح لوگ ان کی باتوں میں آکر اپنے ہی ملک و قوم کے خلاف ہتھیار اٹھا لیتے ہیں. جس کے نتیجہ میں خون کی ہولی اپنے ہی ملک میں کھیلی جاتی ہے. گزشتہ چند دنوں سے بلوچستان کے حالات انتہائی ابتر ہو چکے ہیں. سیکورٹی فورسز اور عام عوام پر بی ایل اے کے شرپسند عناصر حملے کر رہے ہیں. یہ بلوچستان کی آزادی کے خود ساختہ رہنما بنے ہوئے ہیں. ان سے سوال ہے. کہ بلوچ عوام کے حقوق پر وہاں کے قبائلی سردار قابض ہیں. ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بجائے معصوم شہریوں کا قتل عام کیوں کیا جا رہا ہے. اس سے ثابت ہوتا ہے. کہ بی ایل اے کا مقصد قبائلی سرداروں سے آزادی حاصل کرنا نہیں. بلکہ ملک میں افراتفری پیدا کرنا ہے. حکومت وقت اور افواج پاکستان کو اس دہشت گرد تنظیم کو بھرپور جواب دینا چاہیے. اس کے رہنما دنیا کے جس کونے میں بھی چھپے بیٹھے ہیں. انہیں وہاں سے لاکر نشان عبرت بنانا چاہیے. ان کے لیے کوئی رعایت یا معافی نہیں ہونی چاہیے. عوام سے بھی سوال بنتا ہے. جو اپنی اپنی سیاسی قیادت کو فرشتہ ثابت کرنے پر لگی رہتی ہے. کہ کس سیاسی جماعت نے عام بلوچی کو اپنا پارٹی تکٹ دیا. سب سیاسی جماعتوں کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے. زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنا. وہ سرداروں کو اپنا ٹکٹ دے کر عوام پر کنڑول رکھنا چاہتیں ہیں. پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف والے ایک دوسرے کی قیادت پر بہتان تراشی سے کام لیتے ہیں. تحریک انصاف پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت بن کر ابھری تھی. مگر سیاسی تربیت کی کمی کی وجہ سے موثر کردار ادا نہ کر سکی. چار سالہ دور حکومت میں اس نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے سوا کچھ نہیں کیا. ملک کے کسی کونے میں کوئی قابل ذکر ترقیاتی کام نہیں کروایا گیا. پنجاب سے تو بالخصوص دشمنی کی گئی. پنجاب کی ہر اہم شاہراہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی. اسی طرح سے کوئی ترقیاتی کام پنجاب میں نہیں ہوا. تحریک انصاف میں بھی اقرباء پروری عروج پر تھی. بشری بی بی نے اپنی سہیلیوں کو نوازنے کے لیے ایک کے خاوند کو وزیراعلیٰ پنجاب لگا دیا. دوسری کو صوبہ پنجاب کے سیاہ سفید کا مالک بنا دیا. عثمان بزدار تاریخ کا ناکام ترین وزیر اعلیٰ پنجاب تھا. فرح گوگی حقیقی وزیراعلیٰ تھی. اس نے ہر سرکاری عہدہ کی ریٹ لسٹ بنا رکھی تھی. کمشنر، ڈی سی، آر پی او، سی پی او کی تعنیاتی کے لیے کڑوروں روپیہ رشوت لی جاتی تھی. اسی طرح سے مرکز میں بھی عجوبے رکھے گئے تھے. جو امور ممکت سنبھالتے تھے. ذلفی بخاری، شہزاد اکبر، انیل مسرت جیسے لوگ ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے. تحریک انصاف کے عام کارکن کو کیا ملا. اس دور حکومت میں. آجکل ان کے درمیان پارٹی قیادت کی جنگ چل رہی ہے. بشری بی بی اور علیمہ خان دونوں ہی چئیرمین بننا چاہتی ہیں. پاکستان مسلم لیگ ن کو موروثی سیاست کا طعنہ دینے والے دیکھ لیں. کہ صوبہ پنجاب کی عوام ان کے دور حکومت سے مطمئن ہے. ظاہر ہے. تجربہ ہر شعبہ زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے. اپنے آباؤ اجداد کے تجربہ کو سامنے رکھتے ہوئے. اور ان کی رہنمائی میں عوام کی خدمت کے مشن کو لیکر وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف میدان سیاست میں کھڑی ہے. کسی پر تنقید اور کسی کی تعریف کرنا مقصد نہیں. عام پاکستانی کو باور کروانا ہے. کہ غلطی ہر حکومت کرتی ہے. عمران خان کی پہلی حکومت تھی. ان کے ارد گرد جمع نالائق لوگوں نے ان سے غلط فیصلہ جات کروائے. خدارا ملکی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرے. دہشت گرد ہم سب کے دشمن ہیں. وہ یہ نہیں دیکھتے . کہ آپ کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے. انہیں تو ہر حال میں خون کی ہولی کھیلنی ہے. سب کے سب سیاسی قائدین محب الوطن ہیں. آج ایک کی حکومت ہے. تو کل دوسرے کی ہوگی. جو اچھا کام کرے گا. عوام اس کو دوبارہ منتخب کرے گی. ایک دوسرے پر الزام تراشی اور دست و گریبان ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا. ہمیں ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے. اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا. جنگیں عوام کی مدد سے لڑی جاتیں ہیں. منفی سیاست نے ہمارے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے. ہر شہری کو اپنے اپنے فرائض احسن طریقہ سے ادا کرنا ہوگے. تبھی ملک خوشی اور استحکام کی طرف گامزن ہوگا. کوئی بھی سیاسی قیادت اکیلے کچھ نہیں کر سکتی. جب تک عوام خود کی اصلاح نہ کرے. ہم سب پاکستانی ہیں. بعد میں کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن. خدارا سیاست کو قومیت پر ترجیح نہ دیں. ملکی استحکام اور بقاء کے لیے یک جان ہوکر ملکی اداروں کے ہاتھ مضبوط کرے.اورملک دشمن عناصر کو نست و نابود کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرے. ملک ہے. تو سب کچھ ہے. اللہ تعالیٰ ملک پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین