گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
کینیڈا کی سیاست میں حالیہ دنوں میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو، جو 2015 سے ملک کی قیادت کر رہے تھے، نے جنوری 2025 میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کے استعفیٰ کی بنیادی وجوہات میں معاشی بحران، متنازع سماجی پالیسیاں، پارٹی کے اندر مخالفت، اور عوام میں بڑھتی ہوئی ناپسندیدگی شامل ہیں۔
ان کی جگہ لبرل پارٹی نے مارک کارنے کو نیا سربراہ اور وزیرِاعظم منتخب کر لیا ہے، جو ایک ماہرِ معیشت اور بینکر ہیں۔ اس تبدیلی نے آئندہ اکتوبر 2025 کے عام انتخابات کو اور زیادہ اہم بنا دیا ہے، جہاں قدامت پسند جماعت کے جیتنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
کینیڈا کی بڑی سیاسی جماعتیں اور پارلیمانی پوزیشن:کینیڈا میں پانچ بڑی سیاسی جماعتیں سرگرم ہیں، جن میں تین جماعتیں حکومت میں شامل ہوتی رہی ہیں:
1 لبرل پارٹی آف کینیڈا (153 نشستیں)،سابق وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو کی جماعت ترقی پسند اور سوشلسٹ نظریات کی حامل نیو ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) کے ساتھ انتخابی اتحاد،-2 رجعت پسند (Conservative) پارٹی (120 نشستیں)،دائیں بازو کی جماعت،قدامت پسند، کاروبار دوست اور امیگریشن پالیسیوں میں سختی کی حامی،اپوزیشن میں ہے، لیکن مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ -3بلوکیو کیوبکوا (Bloc Québécois) (33 نشستیں)،صرف کیوبک صوبے میں سرگرم جماعت،کیوبک کو کینیڈا سے الگ کر کے ایک آزاد ملک بنانے کی حامی،-4 نیو ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) (24 نشستیں)،بائیں بازو کی جماعت،انتخابی اتحاد لبرل پارٹی کے ساتھ،سربراہ جگ میت سنگھ، جو سکھ ہیں،-5 گرین پارٹی (برائے نام موجودگی)۔
جسٹن ٹروڈو کے استعفیٰ کی وجوہات:جسٹن ٹروڈو کے خلاف عوامی اور پارٹی کے اندر بغاوت کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:
-1 متنازع سماجی پالیسیاں،ٹروڈو حکومت نے سکولوں میں سیکس ایجوکیشن متعارف کرائی، جس پر قدامت پسند حلقوں نے شدید تنقید کی۔قدامت پسند عیسائی اور مسلم کمیونٹیز نے اس قانون کو روایتی خاندانی اقدار کے خلاف قرار دیا۔2 -بھارت سے بڑے پیمانے پر طلبہ کی امیگریشن،جسٹن ٹروڈو حکومت نے بھارت سے دس لاکھ طلبہ کو کینیڈا بلایا، جس سے ملک میں رہائش، روزگار، اور تعلیمی اداروں پر دباؤ بڑھ گیا۔مقامی کینیڈین شہریوں کا موقف تھا کہ یہ پالیسی امیگریشن کے غلط استعمال کا باعث بن رہی ہے۔-3 معاشی بحران اور بیروزگاری،کرونا وبا کے دوران حکومت نے دو سال تک ہر شہری کو ماہانہ 2,000 ڈالر دیے، جس سے لوگوں نے نوکریاں چھوڑنا شروع کر دیں۔جنگوں (خصوصاً یوکرین جنگ) کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا، جس سے معیشت پر مزید دباؤ بڑھا۔-4 پارٹی کے اندر مخالفت،153 میں سے 55 لبرل ارکان نے ٹروڈو کی پالیسیوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔کینیڈا میں پارٹی بدلنے کی روایت نہیں، لیکن پارٹی کے اندر مخالفت کرنا جمہوری روایات کا حصہ ہے۔کینیڈا کی موجودہ معاشی ،سماجی اور سیاسی ابتری کی بنیاد وجہ یہ بھی ہے کہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے عوام اور یورپین کمیونٹی میں ہردلعزیز بننے کی حتی الوسع کوشش کی اور اسی کوشش کے نتیجے میں شام، عراق اور یوکرین کے جنگی متاثرین کو ہزاروں کی تعداد میں کینیڈا شفٹ کیا اور جہاں انہیں رہائش ،گروسری ،صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کے علاوہ نقد معاشی مدد بھی جاری رکھی۔جب کہ پوری دنیا میں جنگی کرائسس کی وجہ سے ہنگامی صورتِ حال تھی لیکن کینیڈین عوام کی نظر میں ان غیر ضروری اخراجات سے کینیڈا کی معیشت کو ایک بڑا ڈینٹ پڑااور معیشت کو دھچکا لگاجس کے اثرات کینیڈا کے شہری ہی محسوس کر سکتے ہیں۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر جسٹن ٹروڈو نے جنوری 2025 میں استعفیٰ دینے کا اعلان کیا، تاہم وہ مارچ تک عبوری وزیرِاعظم رہے تاکہ پارٹی نیا لیڈر منتخب کر سکے۔
مارک کارنے – نیا وزیرِاعظم،جسٹن ٹروڈو کی جگہ مارک کارنے کو لبرل پارٹی کا سربراہ اور نیا وزیرِاعظم منتخب کر لیا گیا۔
مارک کارنے کا پس منظر،سیاستدان نہیں، بلکہ بینکر اور ماہرِ معیشت ہیں۔بینک آف امریکہ اور بینک آف کینیڈا کے سربراہ رہ چکے ہیں۔بینکنگ اور مالیاتی نظام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔پارٹی میں ہونے والے انتخابات میں 85% ووٹ حاصل کر کے جیتے۔جسٹن ٹروڈو کی پالیسیوں نے ان کی پارٹی کو سیاسی طور پر شدید جھٹکا دیا۔اس بار شدید عوامی اور پارٹی کا رد عمل سامنے آیا تو وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔کار نے کی اب بہت بڑی آزمائش ہے کہ وہ ٹروڈو کی پالیسیوں سے نالاں عوام کا اعتماد کیسے حاصل کرتے ہیں۔
قدامت پسند جماعت کے جیتنے کے امکانات،رجعت پسند (Conservative) پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے، اور آئندہ انتخابات میں ان کے جیتنے کے امکانات روشن ہیں۔
وجوہات:1 لبرل پارٹی کی کمزور معیشتی کارکردگی،2 امیگریشن پالیسی پر عوامی ردعمل،3 قدامت پسند جماعت کا انٹاریو میں جیت جانا مستقبل کے منظر نامے کو واضح کرتا ہے (انٹاریو کینیڈا کا سب سے بڑا صوبہ ہے، جہاں ملک کی 40% آبادی رہتی ہے)۔کینیڈا کے 11 صوبے ہیں۔یہ ضروری نہیں ہے کہ صوبوں کے الیکشن بھی مرکز کے ساتھ ہوں۔یہی وجہ ہے کہ وہاں پہ مرکزی الیکشن تو اکتوبر میں ہونے ہیں انٹاریو میں ابھی ہو گئے۔پاکستان کی طرح کینیڈا میں بھی سینٹ موجود ہے مگر کچھ پاکستانیوں کے لیے یہ امر باعث ہے حیرت ہوگا کہ کینیڈا میں منتخب ہونے والا سینٹر تا حیات ہوتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کینیڈا کی سینٹ میں ایک پاکستانی خاتون منتخب ہو کر فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ یہ خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والے معروف سیاستدان ظفر جھگڑا کی صاحبزادی ہیں۔کینیڈا کی پارلیمان کی بات کریں تو اس میں مسلمانوں کی تعداد 16 ہے ان میں آٹھ پاکستانی نژاد ہیں۔
ٹروڈو اور ٹرمپ کا تنازع،جسٹن ٹروڈو نے استعفیٰ دیتے ہوئے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی للکارا۔ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ وہ کینیڈا کو امریکہ کا 51 واں صوبہ بنانا چاہتے ہیں۔ٹروڈو نے اس بیان کو مسترد کیا اور کینیڈا کی خودمختاری کا دفاع کیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جسٹن ٹروڈو کے والد، پیئر ایلیٹ ٹروڈو، بھی تین بار وزیرِاعظم رہ چکے تھے اور ٹورنٹو ایئرپورٹ انہی کے نام پر ہے۔جسٹن ٹروڈو تین بار منتخب ہوئے مگر ان کی وزارتِ عظمیٰ کا دورانیہ نو سال پر محیط ہے۔اس کی وجہ ان کا قبل از وقت انتخابات کروانا رہا ہے۔ اب تو وہ اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی مستعفیٰ ہو گئے تھے۔
کینیڈا میں اس وقت سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران جاری ہے۔ قدامت پسند جماعت کے جیتنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں، جبکہ مارک کارنے کو ایک مشکل چیلنج کا سامنا ہے کہ وہ چھ ماہ میں لبرل پارٹی کی ساکھ بحال کریں۔اگر ایسا نہ ہوا تو اکتوبر 2025 کے انتخابات میں قدامت پسند جماعت کے اقتدار میں آنے کے قوی امکانات ہیں، جو امیگریشن پالیسیوں میں سختی، معیشت کی بحالی، اور سماجی قدروں کے تحفظ کا وعدہ کر رہے ہیں۔
قارئین! یہاں پر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ملک کی تیسری بڑی جماعت NDPکا سربراہ ایک پنجابی نژاد سکھ جگ میت سنگھ ہے۔ اور جگ میت سنگھ کے پاس یہ آپشن ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں اگر مکمل جیت نہ لے سکیں انہیں تیسری بڑی پارٹی کے ساتھ کوالیشن حکومت بناناپڑتی ہے جس میں NDPکو ہمیشہ کوئی نہ کوئی فیور مل جاتی ہے۔ جس سے کم نشستیں حاصل کرنے کے باوجود NDPکی پالیسیوں کو کوئی بڑا فرق نہیں پڑتا۔اور آئندہ الیکشن میں بھی NDPیہی توقعات لے کر الیکشن میں داخل ہوگی۔یہ تھے ملک کینیڈا کہ موجودہ سیاسی حالات جس کا میں ایک نے سیاسی طالب علم ہونے کے ناطے مکمل تجزیہ آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔الیکشن میں صرف چھ ماہ باقی ہیں اور وقت کم مقابلہ سخت ہے۔چلیئے آگے بڑھتے ہیں دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے؟