احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے سابق وزیراعظم اور بانی پاکستان تحریک انصاف‘ عمران خان اور انکی اہلیہ بشریٰ بیگم کیخلاف 190 ملین برطانوی پائونڈز کی خردبرد سے متعلق القادر ٹرسٹ کیس کا گزشتہ سال 18 دسمبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ جمعۃ المبارک کے روز صادر کر دیا۔ اس فیصلے کے تحت عمران خان کو 14 سال قید بامشقت اور دس لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ہے۔ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں عمران خان کو مزید چھ ماہ قید کی سزا بھگتنا ہوگی۔ اسی کیس میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بیگم کو سات سال قید بامشقت اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ہے۔ اڈیالہ جیل راولپنڈی میں احتساب عدالت نے عمران خان‘ بشریٰ بیگم اور انکے وکلاء کی موجودگی میں فیصلہ سنایا جس کے بعد پولیس نے کمرہ عدالت میں موجود بشریٰ بیگم کو حراست میں لے لیا۔ احتساب عدالت کی جانب سے اس ریفرنس کا فیصلہ سنانے کیلئے پہلے 23 دسمبر 2024ء کی تاریخ مقرر کی گئی تھی تاہم اس روز فیصلہ صادر نہ ہوسکا اور عدالت نے فیصلہ سنانے کیلئے 6 جنوری کی تاریخ مقرر کردی تاہم اس روز بھی فیصلہ موخر ہوگیا اور عدالت نے فیصلہ سنانے کیلئے 13 جنوری کی تاریخ مقرر کی مگر احتساب عدالت نے عمران خان‘ بشریٰ بیگم اور انکے وکلاء کے کمرہ عدالت میں موجود نہ ہونے کے باعث فیصلہ موخر کردیا اور فیصلہ سنانے کی نئی تاریخ 17 جنوری مقرر کی۔ اس طرح گزشتہ روز یہ فیصلہ تین بار موخر ہونے کے بعد صادر کیا گیا ہے۔ فیصلہ سننے کے بعد عمران خان نے اس پر اپنے فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کے فیصلے نے عدلیہ کی ساکھ خراب کر دی ہے۔ اس کیس میں نہ مجھے کچھ فائدہ ہوا اور نہ ہی حکومت کانقصان ہوا۔ مجھے کوئی ریلیف نہیں چاہیے‘ میں کسی قسم کی ڈیل نہیں کروں گا چاہے یہ مذاکرات کے حوالے سے ہو یا کسی اور معاملہ پر۔ میں تمام کیسز کا سامنا کروں گا۔ فیصلہ سننے کے بعد عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنچوتہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس فیصلے کو تاریخ کا سیاہ ترین فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ آج پھر آئین پر حملہ اور قانون پر شب خون مارا گیا ہے۔ اسی طرح عمران خان اور بشریٰ بیگم کے وکیل فیصل چودھری نے اپنے فوری ردعمل میں کہا کہ ہمیں یہی توقع تھی کہ ایک دفعہ پھر انصاف کا قتل کیا جائیگا۔ یہ انصاف کا نہیں‘ بغض اور عناد کا فیصلہ ہے۔ ہم اس فیصلہ کیخلاف ہائیکورٹ سے رجوع کر رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان اور انکی اہلیہ بشریٰ بیگم کیخلاف القادر ٹرسٹ کے ذریعے 190 ملین برطانوی پائونڈ غبن کرنے کا کیس اس 450 کنال اراضی سے متعلق ہے جو ایک نجی ہائوسنگ سوسائٹی بحریہ ٹائون کی جانب سے القادر یونیورسٹی کیلئے دی گئی تھی۔ عمران خان‘ انکی اہلیہ اور پانچ دیگر افراد یونیورسٹی کے ٹرسٹیز ہیں‘ دیگر ٹرسٹیوں میں شہزاد اکبر‘ زلفی بخاری‘ ملک ریاض‘ انکے بیٹے اور بشریٰ بیگم کی دوست فرح شہزادی شامل ہیں جو کیس کے اندراج کے بعد روپوش ہو گئے۔ عدالت نے ان کے دائمی وارنٹ جاری کر کے انہیں اشتہاری قرار دے رکھا ہے۔ احتساب عدالت نے القادر ٹرسٹ اور یونیورسٹی کو اسکی اراضی سمیت سرکاری تحویل میں لینے کا حکم بھی صادر کیا ہے۔
اگرچہ اس کیس کے فیصلہ کو تحریک انصاف کے قائدین اور عہدیداران کی جانب سے سیاسی فیصلے سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور اسے عمران خان کے نہ جھکنے کی سزا قرار دیا جا رہا ہے جس کا اظہار خود عمران خان اور انکے وکلاء نے بھی کیا ہے تاہم اس کیس کے میرٹ کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ قومی احتساب بیورو کے مطابق یہ کسی عطیے کا معاملہ ہرگز نہیں بلکہ نجی ہائوسنگ سوسائٹی کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے مابین طے پانے والے مبینہ طور پر ایک خفیہ معاہدہ کا ہے۔ احتساب بیورو کے قائم کئے گئے کیس کے مطابق 190 ملین پائونڈ کی جو رقم برطانیہ میں منجمد کی گئی اور قومی خزانے میں جمع کرنے کیلئے حکومتِ پاکستان کو بھجوائی گئی، وہ بحریہ ٹائون کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد متذکرہ ہائوسنگ سوسائٹی کے ذمہ واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں عمران خان کے دور حکومت کی کابینہ کے فیصلے کے تحت ایڈجسٹ کردی گئی جبکہ وفاقی کابینہ سے بند لفافے میں موجود معاہدے کی توثیق کرائی گئی۔ اس وقت کی وفاقی کابینہ کے رکن فیصل وائوڈا آج بھی یہی کہتے ہیں کہ جس وقت یہ معاہدہ بند لفافے میں کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا‘ انہوں نے اسی وقت عمران خان کو کہہ دیا تھا کہ یہ کیس انکے گلے پڑے گا اور انہیں سزا ہوگی۔ اس تناظر میں عمران خان اور انکی اہلیہ کیلئے یہ کیس ’’آبیل مجھے مار‘‘ کے مترادف ہے۔ احتساب بیورو نے بھی دستیاب دستاویزات اور ٹھوس شواہد کے ساتھ یہ کیس دائر کیا تھا اور مقدمہ کی سماعت کے دوران استغاثہ کی جانب سے جو گواہان پیش کئے گئے عمران خان اور انکی اہلیہ کی دفاعی ٹیم بھی ان گواہان کو جھٹلا نہیں سکی۔ چنانچہ احتساب عدالت نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ استغاثہ کا مقدمہ بنیادی طور پر دستاویزی شواہد کے گرد بنایا گیا تھا جسے ناقابل تردید شواہد کی مدد سے عمران خان اور بشریٰ بیگم کے خلاف ٹھوس اور جامع انداز میں ثابت کیا گیا اور وکلائے دفاع پراسیکیوشن کے اس کیس میں دراڑیں ڈالنے میں ناکام رہے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران استغاثہ کی جانب سے مجموعی طور پر 35 گواہان پیش کئے گئے جن میں عمران خان کی کابینہ میں شامل دو وزراء پرویز خٹک اور زبیدہ جلال بھی شامل تھیں۔ یہ وہی کیس ہے جس میں عمران خان کو 9 مئی 2023ء کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے ہمارا کوئی سیاست دان اقتدار میں آتا ہے تو وہ اپنے اور اپنے عزیز واقرباء کے ذاتی فائدے کیلئے اپنے اختیارات ناجائز طریقے سے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا تاہم اقتدار سے ہٹنے کے بعد جب وہ قانون کی گرفت میں آتا ہے تو اپنے خلاف میرٹ کی بنیاد پر قائم ہونے والے کیس پر بھی سیاسی انتقامی کارروائی کا پراپیگنڈا شروع کر دیتا ہے۔ سابق حکمران طبقات کی بالعموم یہی روش رہی ہے چنانچہ عمران خان اور انکی پارٹی کے دوسرے قائدین اور عہدیداران بھی اسی روش پر کاربند ہیں جنہوں نے عمران خان اور انکی اہلیہ کیخلاف میرٹ پر تیار کئے گئے توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کے مقدمات کو سیاسی انتقامی کارروائی کا رنگ دینے کی کوشش کی اور اب القادر ٹرسٹ کیس کے فیصلہ پر بھی سیاست کی جا رہی ہے۔ فیصلے کے بعد جس طرح خود عمران خان اور انکے وکلاء نے ردعمل کا اظہار کیا اور پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اڈیالہ جیل کے باہر اور انکے ارکان پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کے باہر احتجاجی مظاہرے کئے‘ وہ جائز قانونی مقدمات کو سیاسی مقدمات کے رنگ میں پیش کرنے کی ہی مثال ہیں۔
القادر ٹرسٹ کیس کے فیصلہ کیخلاف ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے آپشنز موجود ہیں جس کا عمران خان اور بشریٰ بیگم کے وکلاء نے عندیہ بھی دے دیا ہے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ احتساب عدالت نے میرٹ سے ہٹ کر کسی دبائو کے تحت انہیں سزائیں سنائی ہیں تو اپیلٹ کورٹ میں وہ سرخرو ہو سکتے ہیں اور اگر احتساب عدالت نے میرٹ پر فیصلہ صادر کیا ہے تو پھر قانون کی نگاہ میں ہر شخص کی مساوی حیثیت ہے۔ کسی کو سابق وزیراعظم اور کسی بڑی پارٹی کا قائد ہونے کے ناطے تو کسی قسم کی رعایت نہیں مل سکتی۔ پی ٹی آئی کو اس فیصلہ پر سیاست کرنے کے بجائے اپنے سیاسی معاملات بہتر بنانے کیلئے بہرصورت حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آپشن ہی بروئے کار لانا چاہیے جس کیلئے پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت کو تحریری طور پر مطالبات پیش بھی کر دیئے گئے ہیں اور حکومتی کمیٹی نے ان مطالبات کا 28 جنوری تک جواب دینے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ تاہم عمران خان کے اس اعلان کے بعد کہ وہ مذاکرات سمیت کسی معاملہ پر بھی کوئی ڈیل نہیں کرینگے‘ مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھنے کا اب کم ہی امکان نظر آتا ہے۔ اگر پی ٹی آئی مذاکرات کے بجائے پھر 9 مئی اور 26 نومبر جیسی افراتفری اور انتشار کی سیاست کا راستہ اختیار کرتی ہے تو پھر قانون بھی ضرور اپنا راستہ اختیار کریگا۔ آج ملکی حالات کے تناظر میں قومی ڈائیلاگ کی زیادہ ضرورت ہے جس کیلئے پی ٹی آئی اور حکومت سمیت کسی کو بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔