پر امن دنیا کی تلاش

21ویں صدی کو اگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کمالات سے منسوب کیا جائے تو آپ اس عہد کو شعوری ترقی کا انقلابی دور کہہ سکتے ہیں جس میں دنیا سوشل میڈیا کے ذریعے گلوبل ولیج میں تبدیل ہوئی۔ توقع تھی کہ گلوبل ولیج میں رہتے ہوئے اقوام عالم شعوری طور پر مثبت طرز فکر اختیار کرتے ہوئے انسانیت کی فلاح وبہبود کے پیش نظر امن و سلامتی پر مبنی ایک نئے ورلڈ آرڈر کی جستجو کریں گی جس میں جنگوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی باتیں سننے کو ملیں گی تاہم 2001ء سے 2025ء تک گزرے ہوئے پچیس برسوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ بڑی طاقتوں کی جانب سے کمزور ملکوں کے اوپر پہ در پہ مسلط کردہ جنگوں نے گلوبل ولیج کو آتش جہنم سے بدل دیا ہے۔
2001ء سے افغانستان میں لڑی جانیوالی افغان جنگ امریکا کی کسی بھی ملک کیخلاف طویل ترین جنگ ہے جس میں امریکی فوج کے 2400 سپاہی جان سے گئے جبکہ 20700 کے قریب زخمی ہوئے۔ 92 ہزار کے قریب افغان مجاہدین اور شہری اس جنگ کی نظر ہوئے۔ افغان جنگ کے دوران ہی 2003ء میں امریک نے عراق پر جنگ مسلط کر دی جس کا اختتام 2011 میں ہوا۔ اس جنگ میں 3 لاکھ سے زائد شہری مارے گئے جبکہ مجموعی طور پر 10 لاکھ سے زائد عراقی شہری متاثر ہوئے۔ 2011ء کے بعد تیونس، مصر، الجیریا، شام، یمن، صومالیہ، فلپائن، لیبیا ‘وار زون’ میں تبدیل ہوگئے جہاں لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں ہزار ہا معصوم شہری خانہ جنگی اور جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023ء کے مشرق وسطیٰ جنگ کی لپیٹ میں ہے۔ غزہ میں 45 ہزار سے زائد فلسطینی شہری اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ فلسطینیوں کی نسل کشی اب بھی جاری ہے اگرچہ حماس اور اسرائیل کے مابین قطر میں 15 جنوری کو امن معاہدہ طے پاگیا ہے جس کے تحت 19 جنوری بروز اتوار سے جنگ بند ہوجائیگی۔ فریقین کے مابین یہ امن معاہدہ خوش آئند ہے تاہم اسرائیل امن معاہدہ کی کس حد تک پاسداری کرتا ہے اس بات کا فیصلہ آنے والا وقت کریگا۔ لبنان ،شام اور یمن ابھی تک حالت جنگ سے باہر نہیں آئے۔ دوسری طرف یوکرائن جنگ میں اب تک 43 ہزار افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ اس جنگ میں یوکرائن کے 80 لاکھ شہری بے گھر ہوئے اور 82 لاکھ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
کیا جنگوں کا خاتمہ ممکن نہیں؟ کیا کرہ ارض غیرمحفوظ ہوتی جا رہی ہے؟ کیا نسل انسانی امن و سلامتی سے محروم رہے گی؟ موجودہ عالمی تناظربہت سارے شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ دنیا کسی حد تک غیر محفوظ دکھائی دے رہی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ اپنا مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ دوسری جنگ عظیم کی ہولناک تباہی کے نتیجے میں تقریبا پانچ کروڑ انسانوں کے لقمہ اجل بن جانے کے بعد دنیا کو امن فراہم کرنے کے لیے وجود میں آنے والا ادارہ اقوام متحدہ جنگوں کو روکنے میں مکمل ناکام ہے۔ فلسطین، کشمیر، کمبوڈیا، جنوبی افریقا، لاؤس کسی ایک مسئلہ کا بھی یہ ادارہ پر امن طور پر تصفیہ کروانے میں کامیاب نہ ہوا ہے۔ عالمی طاقتیں بھی جنگیں رکوانے کے لیے معقولیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنجیدہ نظر نہیں آتیں۔ امریکا سمیت وہ تمام ممالک جنکی معشیت اسلحہ کی صنعت کے ساتھ وابستہ ہے ان کی دولت اور منافع کمانے کی ہوس جنگوں کا باعث بن رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے اندر بڑی طاقتوں کو حاصل ویٹو پاور کسی ملک کے خلاف جنگ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ حالیہ غزہ میں جاری جنگ روکنے کے لیے اقوام متحدہ میں 52 قراردادیں سامنے آئیں جن کو امریکا نے ویٹو کیا ہے۔ ویٹو پاور سے تمام قراردادیں بے اثر ہو کر رہ جاتی ہیں۔ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ویٹو پاور کے اصول پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ پانچ ممالک کی اجارہ داری نے یہی ثابت کیا ہے کہ جنگیں بڑی طاقتوں کی اجارہ داری کی وجہ سے کمزور ملکوں پر مسلط کی جاتی ہیں۔ اگر ویٹو پاور کا دائرہ کار بڑھا کر ‘روٹیٹ’ کا اصول اپنایا جائے تو کمزور ممالک کے خلاف جنگوں میں واضح طور پر کمی آ سکتی ہے۔ انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں بھی بڑی طاقتوں کے ہاتھوں سامنے آئی ہیں۔ جہاں بڑی طاقتوں کا مفاد ہوتا ہے وہ انسانی حقوق کے لبادہ میں کمزور ملکوں پر چڑھائی کر دیتی ہیں بڑی طاقتوں کی ہم خیال حکومتیں اپنے ملکوں میں خانہ جنگی کروانے پر بھی آمادہ ہو جاتی ہیں، مصر کے جنرل سیسی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 
اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کے دوہرے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے کمزور ملکوں کو سوچ بچار کرنی چاہیے۔ کمزور ممالک تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور جنگوں سے بھی سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کمزور ممالک جنگوں کے خاتمہ کے لیے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہو کر اپنی آواز کو مؤثر بنائیں۔ تمام چھوٹے ممالک کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نقطہ جنگوں کی روک تھام اور امن کا حصول ہونا چاہیے۔ جنگ کو پروموٹ کرنے والے ملکوں کا معاشی بائیکاٹ کیا جانا چاہیے تاکہ امن و سلامتی کا بیانیہ دنیا کی احتجاجی آواز میں ڈھل سکے۔ بڑی طاقتوں کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ وہ جنگوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی کے بعد کس پر حکومت کریں گی؟ چنگیز خان اور ہلاکو خان جو تاریخ میں انسانوں کے سب سے بڑے قاتل سمجھے جاتے ہیں ان سے ہی سبق سیکھ لیں۔ جن کے بارے یہ مشہور ہے کہ وہ ملک فتح کرتے ہی وہاں کے باسیوں کو مار دیتے تھے جس کا احساس عرصہ دراز گزرنے کے بعد ان کے جانشینوں کو ہوا کہ اگر یہی روش برقرار رہی تو لوگ ہی باقی نہیں بچیں گے جن پر وہ اپنی حکومت قائم کر سکیں گے۔ کیا بڑی طاقتیں قبرستانوں پر راج کرنا چاہتی ہیں؟
 انسانی حقوق کی تنظیموں،اداروں، اور وہاں کام کرنے والے افراد پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جنگوں کے خاتمے کے لیے اپنا رول ادا کریں۔ جنگیں مسلسل غربت اور افلاس میں اضافے کا باعٹ بن رہی ہیں۔ جنگوں کے خلاف امن کے مبلغ‘پرچارک اور ایجنٹ بن کر قومی و عالمی ضمیر کو جنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔ جنگوں کے خاتمہ کے لیے دنیا کے باشعور شہریوں کو امن کی شمع تھام کر آگے بڑھنا ہوگا۔ کسی طاقتور ملک کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کمزور ملکوں کے معصوم شہریوں کی زندگیاں چھین لے۔جنگیں مسلط کرنیوالے ملکوں کے خلاف وہاں کے شہریوں کی جانب سے بھی پر امن تحریکوں کی شدید ضرورت ہے تاکہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکے۔

اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ… سفیر حق

ای پیپر دی نیشن