کراچی (اسٹاف رپورٹر)جامعہ کراچی کے شعبہ کمپیوٹر سائنس اور ڈی ایچ اے صفا یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے زیر اہتمام انفارمیشن سائنس اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی پر دو روزہ تیسری بین الاقوامی کانفرنس کی اختتامی تقریب بدھ کو پروفیسر سلیم الزمان صدیقی آڈیٹوریم انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسزجامعہ کراچی میںمنعقد ہوئی۔افتتاحی تقریب ڈی ایچ اے صفا یونیورسٹی میں منعقد ہوئی اور منگل اور بدھ کو دونوں یونیورسٹیوں میں متوازی سیشن منعقد ہوئے۔شعبہ کمپیوٹرسائنس جامعہ کراچی کے چیئر مین پروفیسرڈاکٹر صادق علی خان نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کانفرنس کے لئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر 90 ریسرچ پیپر موصول ہوئے اور جانچ پڑتال کے بعد 40 تحقیقی مقالوں کو کانفرنس میں پیش کرنے کے منتخب کیاگیا ہے۔کانفرنس میں 15 بین الاقوامی اسکالرز جن میں برطانیہ ،ملائشیاء،اومان،سائوتھ افریقہ ،فن لینڈ،آسٹریلیاء ودیگر ممالک شامل ہیں نے خیالات کا اظہار کیا اور تحقیقی مقالے پیش کئے۔جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان ہر سال 30,000 کے قریب آئی ٹی پروفیشنلز اور ماہرین پیدا کر رہا ہے لیکن پھر بھی پاکستان کے تناظر میں عالمی سطح پر آئی ٹی والوں کی کمی ہے۔ انہوںاس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنی معیشت کو فروغ دینے کے لیے مزید کمپیوٹر ہنر مند سائنسدان پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ سائنسدانوں کی دلچسپی ڈیٹا کے لحاظ سے، مختلف مظاہر کو سمجھنے کے معاملے میں ہے۔ ایک عام آدمی ہونے کے ناطے میںکسی قوم کی معاشی ترقی اوربالخصوص ترقی پذیر ممالک کی معاشی ترقی میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہوں۔ڈاکٹر خالد عراقی نے مزید کہا کہ ہمارے پاس ایک دنیا تھی جو نظریہ کی بنیاد پر تقسیم تھی، مشرق اور مغرب لیکن آج صرف ایک نظریہ ہے اور ہم اسے ڈالریا پیسہ اور معاشی خوشحالی کہتے ہیں۔ دنیا اب سرمایہ دار، کمیونسٹ، مشرق یا مغرب کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہوگی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ہم ملک کی معاشی ترقی میں کس طرح اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد عراقی نے کہا کہ مختلف عوامل ہیں جو کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 2023 میں، آئی ٹی اور متعلقہ کاروبار کی مارکیٹ ویلیو یا شراکت 3.5 ٹریلین امریکی ڈالر تھی اور 2025 تک یہ 5 ٹریلین امریکی ڈالر پہنچ سکتی ہے اورعالمی جی ڈی پی کے لحاظ سے اس کا مجموعی حصہ 5 فیصد ہے۔اس طرح کی کانفرنسز کا انعقاد ہماری نوجوان نسل کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہمارے نوجوان طلباء کے پاس مختلف نقطہ نظر ہو تاکہ وہ اس بارے میں سمجھ سکیں کہ لوگ یا سائنسدان ایک ہی وقت میں دنیا کے مختلف حصوں میں کیا کر رہے ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے صرف ڈگری کا حصول کافی نہیں بلکہ صلاحیتوں سے بھرپور،جدت طرازی اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل گریجویٹس پیداکرنے کی ضرورت ہے۔چیئرمین سندھ اریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی (سیڈا)قبول محمد کھٹیاں نے کہا کہ آئی ٹی کے میدان میں پاکستان اور بھارت میں بڑی خلاہے اور اس خلا کو ہمارے نوجوان ہی ختم کرسکتے ہیں۔انہوں کہا کہ پاکستان سالانہ تین سے ساڑے تین ارب ڈالرز کی آئی ٹی برآمد ات کرتاہے جبکہ بھارت سالانہ 350 ارب ڈالرز کی آئی ٹی اور اے آئی کی برآمد ات کرتاہے۔انہوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ گورنمنٹ آئی ٹی کے میدان میں آگے بڑھنے کے خواہشمند طلبہ کو لون دینے کی سہولت فراہم کررہاہے اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس سے کتنا استفادہ کرتے ہیں۔جنوبی افریکہ کے جیمزآرتھرسوارٹ نے نوجوان ریسرچرزاوراسکالرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ک آپ نے اپنی تحقیق کے ذریعے جو کچھ شیئر کیا ہے، اس سے ہم بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ آپ اپنی تحقیق جاری رکھیں، اپنی تحقیق کے فوائد حاصل کریں، نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے خاندان ، اپنی برادری اور اس خوبصورت ملک پاکستان کو فائدہ پہنچائیں۔ڈائریکٹر انٹرنیشنل سینٹر فارکیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر رضاشاہ نے کہا کہ مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹر سائنسز، یہ واقعی اس کرہ ارض کا منظرنامہ بدل رہا ہے اور یہی مستقبل ہے اور مجھے بے حد خوشی ہے کہ جامعہ کراچی اس کو اہمیت دے رہی ہے اور وہ مصنوعی ذہانت کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم یہاں اکٹھے بیٹھے ہیں اور صرف کمپیوٹر سائنسز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مختلف موضوعات پر گفتگو کر رہے ہیں۔ ڈی ایچ اے صوفہ یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے ڈین پروفیسرڈاکٹر سید ظفرناصر نے کہا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی)کو وسیع پیمانے پر اپنانا اس کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی عکاسی کرتا ہے، اس کے فوائد اور ممکنہ چیلنجوں کی متوازن تلاش کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔اے آئی بغیر کسی رکاوٹ کے ہماری روزمرہ کی زندگیوں میں ضم ہو گیا ہے۔ یہ ٹرانسفارمیشن ٹرانسلیشن ٹیکنالوجی، تجسس کو جنم دینے کے ساتھ ساتھ خدشات کو بھی جنم دیتی ہے۔ اس کا اثر ہمارے معاشرتی تناظر میں ایک اہم تبدیلی لاتے ہوئے زندگی کے تمام میدانوں میں واضح ہے۔چیئرمین تابانی گروپ حمزہ تابانی نے کہا کہ اس طرح کی کانفرنسوں کا سب سے اچھی بات یہ ہے کہ آپ کو بہت سارے بین الاقوامی ریسرچرواسکالرز سے ملنے کے مواقع میسرآتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تجربات شیئر کرنے کے مواقع میسرآتے ہیں اور آپ کو بہت کچھ سیکھتے ہیں۔