پاکستان چین دوستی  درپیش چیلنجوں سے عہدہ برا ہونے کی مضبوط بنیاد ہے

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ پاکستان سب کا سانجھا ہے‘ چاروں اکائیوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ملکی ترقی کیلئے چاروں صوبوں کی یکساں ترقی لازم و ملزوم ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں زرعی سکالر شپ پروگرام کے تحت تین سو طلبہ کو چین بھجوانے کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ چین نے ہر موقع پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے‘ چین نے آئی ایم ایف پروگرام کے حصول میں بھی ہماری مدد کی۔ پاکستانی طلبہ کو سکالر شپ فراہم کرنے پر ہم چینی حکومت کے مشکور ہیں۔ شہبازشریف کے بقول آج شعبہ زراعت کیلئے انتہائی اہم پیشرفت ہوئی ہے کہ پاکستان کے زرعی گریجویٹس اعلیٰ تعلیم کیلئے چین جا رہے ہیں۔ پاکستانی طلبہ بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان پل کا کردار ادا کرینگے۔ وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا تھا کہ چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کے بہترین دوست ہیں۔ 
پاکستان میں تعینات چینی سفیر جیانگ زائیڈونگ نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات تیزی سے درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں جس کا عملی مظاہرہ وزیراعظم شہبازشریف کے حالیہ کامیاب دورہ چین اور دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے زرعی تعاون سے نظر آرہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہبازشریف نے اپنا یہ منصب سنبھالنے کے چند ماہ بعد چین کا دورہ کیا جہاں انہوں نے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوئوں پر بات ہوئی اور مختلف امور پر اتفاق رائے پایا گیا۔ چینی سفیر کے بقول صدر شی جن پنگ ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں اور چین کی سفارتی پالیسی کا مقصد دوستانہ اور شراکت دارانہ تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ انہوں نے سی پیک کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) کا ایک ابتدائی اور اہم منصوبہ قرار دیا اور بتایا کہ اس منصوبہ کے تحت اب تک 25 عشاریہ چار ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کی جا چکی ہے جس سے پاکستان میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ہمارا مقصد خوشگوار‘ محفوظ و خوشحال ہمسائیگی‘ دوستی اور شمولیت کے اصولوں کو برقرار رکھنا ہے۔ چین خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ میں پاکستان کی بھرپور حمایت کریگا۔ 
اس وقت جبکہ امریکہ اور چین کے مابین معاشی جنگ انتہائی شدت اختیار کر چکی ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کیلئے ٹیرف مزید بڑھاتے ہوئے 245 فیصد کر دیا ہے اور ایک امریکی جریدے کے بقول امریکہ ٹیرف مذاکرات کو چین کو تنہاء کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان اور چین کے مابین دوطرفہ تعلقات کا فروغ پانا اس خطے کے موجودہ معروضی حالات کے تناظر میں پہلے سے بھی زیادہ اہمیت حاصل کر چکا ہے۔ صدر ٹرمپ تو ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کا نعرہ لگا کر اقوام عالم بالخصوص ہمارے خطہ کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی لپیٹ میں لینے کی پالیسی پر گامزن ہیں جنہوں نے اپنے پہلے دور اقتدار میں بھی امریکی مفادات کی خاطر پوری دنیا کو اتھل پتھل کئے رکھا جبکہ اب دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ دنیا میں امریکہ کی سپرپاور کی حیثیت تسلیم کرانے کی خاطر بالخصوص چین کی بڑی معیشت کو چیلنج کر رہے ہیں جس کے جواب میں چین بھی اقوام عالم میں اپنی برتر اقتصادی حیثیت کو تسلیم کرانے کی تگ و دو میں ہے۔ اس معاشی اور نفسیاتی جنگ میں پاکستان کی سٹریٹجیکل اہمیت اس لئے بڑھ گئی ہے کہ پاکستان اور چین کے گوادر میں قائم اقتصادی راہداری کے مشترکہ منصوبہ کے تحت علاقائی اور عالمی منڈیوں تک ہمارے خطہ کے علاوہ مغربی‘ یورپی ممالک کیلئے بھی راستے کھل رہے ہیں جس سے علاقائی اور عالمی تجارتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا تو سی پیک کے ساتھ جڑا ہوا ہر ملک اس سے فائدہ اٹھائے گا۔ 
امریکہ چونکہ پہلے ہی بھارت کی سرپرستی کرکے اپنے مفادات کے حصول و تحفظ کیلئے اسکی تھانیداری قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے جس کا مقصد بنیادی طور پر چین کے اثر و رسوخ اور اسکی معاشی ترقی کے آگے بند باندھنا ہے چنانچہ اس صورتحال میں ہماری آزمائش زیادہ ہے کیونکہ پاکستان امریکی بے وفائیوں کے باوجود اس وقت بھی اس خطے میں امریکی مفادات کا نگہبان سمجھا جاتا ہے اور اب دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی جاری جنگ میں امریکی تعاون کے ازسرنو عہدوپیمان ہوئے ہیں جس کی اس وقت پاکستان کی ضرورت بھی ہے کیونکہ اسے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی کے بہت سے چیلنجز درپیش ہیں جن سے امریکی تعاون کے ساتھ ہی عہدہ برا ہوا جا سکتا ہے۔ 
دوسری طرف چین کے ساتھ ہماری دوستی ضرب المثل بن چکی ہے جس کی مثال شہد سے میٹھی‘ سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند دوستی کی دی جاتی ہے جو محض رسمی نہیں بلکہ چین اور پاکستان گزشتہ سات دہائیوں سے دوستی کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں جسے اب چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو منصوبے سے منسلک سی پیک نے مزید مضبوط بنا دیا ہے۔ امریکہ اور بھارت نے اسی تناظر میں گوادر کی اقتصادی راہداری کو مسئلہ کشمیر کے تناظر میں متنازعہ بنانے کی کوشش کی تھی اور اس بنیاد پر بھارت نے چین اور پاکستان کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بھی سازش کی جسے دونوں ممالک کی قیادتوں نے فہم و بصیرت کے ساتھ ناکام بنایا۔ بھارت چونکہ پاکستان کے علاوہ چین کیخلاف بھی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے مہم جوئی میں مصروف رہتا ہے اور اسے اروناچل پردیش کی سرحد پر چینی فوج کے ہاتھوں ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی ہے جبکہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی جارحانہ عزائم و اقدامات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اس لئے چین اور پاکستان فطری طور پر ایک دوسرے کیلئے دفاعی حصار کا درجہ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ 
آج جبکہ برصغیر‘ جنوبی‘ وسطی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور بھارت کے بالخصوص کشمیر‘ فلسطین اور یوکرائن کے پیدا کردہ تنازعات تیسری عالمی جنگ کا نقارہ بجاتے نظر آرہے ہیں جس میں علاقائی اور عالمی امن ہی غارت نہیں ہوگا‘ دنیا میں انسانی اور جنگلی حیات کا وجود ہی سرے سے ختم ہو سکتا ہے‘ عالمی نمائندگی کیلئے اقوام متحدہ کو نئے پیرامیٹرز کے ساتھ فعال کرنے کی ضرورت ہے چنانچہ امریکہ اور چین کے مابین انتہاء درجے کو پہنچی معاشی جنگ یا تو اقوام عالم کو مستقل امن و آشتی کی راہ پر لے آئیگی یا تیسری عالمی جنگ کی صورت میں عالمی تباہی پر منتج ہوگی۔ 
بے شک پاکستان کو اس وقت اپنی معیشت کے استحکام کے چیلنجز درپیش ہیں جسے آئی ایم ایف نے اپنی شرائط کے ساتھ باندھ رکھا ہے اور ان چیلنجز سے عہدہ برا ہونے کیلئے چین کے علاوہ پاکستان کو برادر سعودی عرب‘ یو اے ای، قطر اور برادر ترکیہ کا بے لوث تعاون بھی حاصل ہے‘ جس کے نتیجہ میں آج ہماری اتحادی حکومت بالخصوص وزیراعظم شہبازشریف کو ملکی معیشت کے استحکام کی قوم کو نوید سنانے کی سہولت حاصل ہو رہی ہے تاہم امریکہ اور چین کے مابین جاری معاشی اور نفسیاتی جنگ میں ہمیں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ آج ہمیں اصل ضرورت اپنی قومی خارجہ پالیسی کو ملکی اور قومی مفادات کے قالب میں ڈھالنے کی ہے۔ اگر ٹرمپ ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کا نعرہ لگا کر دوسری مملکتوں کو ڈکٹیٹ کر سکتے ہیں تو ہمارا مطمح نظر بھی ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ ہونا چاہیے۔ اس میں چین کے ساتھ اقتصادی‘ دفاعی تعاون مستحکم بنانا ہماری ضرورت ہے تو یہی ہماری قومی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہونی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن