وہ جو ہم میں نہیں رہا

جیسے جیسے انسان کی زندگی گزرتی جاتی ہے اسے بہت سے ایسے لوگ یاد آنے لگتے ہیں جو زندگی کی راہ گزر میں کہیں ان سے بچھڑ جاتے ہیں، ان کی بہت ساری یادیں ہوتی ہیں، ان کے ساتھ گزارے ہوئے وہ پل جس میں ہنستے ہنستے کبھی آنسو نکل پڑتے ہیں اور کبھی روتے روتے ہنسی پھوٹنے لگتی ہے،اسی طرح سے ایک ایسی ہستی جو آج ہم میں نہیں ہے وہ بیٹھے بٹھائے ایسے ہی یاد آ جاتی ہے، آج بھی آنے لگی، جب میں نے ان کے بیٹے کلیم کے لکھی ہوئی تحریر پڑھی جس میں وہ اپنے والد محترم کے لیے انتہائی جذبات کے ساتھ، لگاؤ کے ساتھ، احترام کے ساتھ ایسا تحریر کرتے ہیں کہ پڑھ کر دل کہتا ہے کہ اس بیٹے کو اپنے والد سے اتنی شدید محبت ہے اور کیا ان کے والد ڈاکٹر سلیم شہزاد واقعی اسی طرح کی شخصیت تھے جس طرح کہ ان کے بیٹے نے بیان کی اور پھر جب کبھی میں یہ سوچتی ہوں کہ ہاں میری جب بھی ان سے ملاقات ہوتی بوکن شریف میں تو وہاں پورا خاندان اکٹھا ہوتا اور بہت سارے لوگ وہاں پر آتے، اپنا دکھ بیان کرتے، دوائیاں لیتے، مرض بتاتے اور چلے جاتے۔ وہ انتہائی شفیق ڈاکٹر تھے۔ ڈاکٹر سلیم شہزاد اتنے قابل انسان تھے کہ کوئی ایسا مرض یا مریض جو ان کے پاس آتا وہ ان کے بزرگوں کی سرپرستی کی وجہ سے اور ان کی اپنی محنت اور لگن کی وجہ سے اپنی نیکی اور اپنی ایک اچھی فطرت کی وجہ سے اپنی راتوں کے اٹھ کے کرنے والی عبادت کی وجہ سے اپنے شعبے سے عقیدت اور محبت اور عشق کی وجہ سے ٹھیک ہو کر جاتا، بہت ہی شفیق ذہین اور محنتی ڈاکٹر سلیم شہزاد اپنے گھر میں ایک مثالی باپ، ایک مثالی شوہر،مثالی بیٹے اور سب سے بڑھ کر ایک مثالی بھائی تھے جو ہمارے محترم سید زاہد صاحب کے چھوٹے بھائی تھے۔ عقیدت اتنی رکھتے تھے کہ بھائی کے ساتھ بیٹھنے کی ہمت نہیں کرتے تھے۔ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر ملتے اور جو بھی زندگی میں بھائی نے کہا، جو حکم دیا،جس خواہش کا اظہار کیا اس پر انہوں نے ہمیشہ سر تسلیم خم کیا۔
یہ تھے ڈاکٹر سلیم شہزاد ان سے بچھڑے ہوئے کئی سال گزر گئے لیکن آج بھی ان کی یاد اسی طرح سے آتی ہے کہ جیسے شاید ابھی کہیں سے دستک ہوگی اور وہ داخل ہوں گے۔ وہ ایک عجیب سی کیفیت میں رہا کرتے تھے ان کو سمجھنے کے لیے بھی بہت وقت چاہیے تھا مجھے اتنا وقت تو نہیں ملا ان کے ساتھ لیکن ان کی فیملی کو دیکھتے ہوئے ان کو سمجھتے ہوئے بہت کچھ دیکھنے کے بعد یہ محسوس کرتی ہوں کہ بہت سے ایسے چھوٹے چھوٹے دکھ ہیں جو وہ اپنے ساتھ لے گئے اور بہت سی ایسی بڑی بڑی خوشیاں جو شاید ان کی اپنی نہیں تھیں ان لوگوں میں بانٹ گئے۔ جب شیشہ ٹوٹتا ہے تو کسی طریقے سے بھی اس کو جوڑا جائے اس کے اندر کہ دراڑیں ختم نہیں ہوتیں، لیکن زندگی میں جہاں کہیں انہیں یہ محسوس ہوا کہ شاید وہ تھک گئے ہیں وہ ہار گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو پھر بھی چکنا چور نہیں ہونے دیا ان لوگوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر ہر تکلیف میں کھڑے ہوتے اپنے خواب انکے کیا تھے؟ ان کی خواہشات کیا تھیں؟ وہ سب انہوں نے اپنے تئیں اپنے دل میں چھپا رکھیں.اور انہوں نے اپنی زندگی کو وقف کر دیا اپنے گھر بار کے لیے اپنے شعبے کے لیے اور بوکن شریف کے درس کے لیے وہ لالچ اور خود غرضی سے بڑے نالاں رہتے۔ ایسے لوگ جو ان کو لگتا کہ اپنے مطلب کے ساتھ لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کام کر رہے ہیں تو وہ ہمیشہ ان کا راستہ روک دیتے یا پھر اپنا راستہ بدل لیتے اور اسی لیے ڈاکٹر سلیم جو بہت ہی معتبر بہت مدبر اور ایک اعلی شخصیت تھے اج بھی لوگوں کو یاد ہیں ان کے جانے سے بہت سے لوگوں کو بہت تکلیف اٹھانی پڑی، دل رنجیدہ ہوئے، دل ٹوٹ گئے اور دل خون کے آنسو بہانے لگے۔ ان کے بچے جو انکے دوست تھے وہ آج تک نہیں سنبھل پائے انکے جانے کے بعد ان کے بچوں نے ان کی لگائی ہوئی کسی کلی کو کملانے نہیں دیا اور ہمیشہ سیراب کیے رکھا ان تمام باغوں کو جس میں ڈاکٹر سلیم شہزاد اپنے ہاتھوں سے محبت کا ملنساری کا قربانی کا اور اعلی ظرفی کا بیج بو گئے تھے۔
سیدکلیم اللہ لکھتے ہیں کہ وقت نے پھر کچھ یاد دلا دیا بات تھی، باسٹھ برس کا عہد رفاقت گزر گیا، دنیا رواں دواں ہے اگرچہ اسی طرح دل میں مفارقت کا وہ لمحہ ٹھہر گیا۔
آج دل تھرتھرا رہا ہے ذہن پریشانی میں مبتلا ہے آنکھیں پرنم ہیں دل ایک بار پھر بابا جانی کی جدائی میں بیحد رنجیدہ ہے اور مضمون تو کیا ایک لفظ بھی لکھنا مشکل لگ رہا ہے کیونکہ آپ سب کچھ لکھ سکتے ہیں مگر باپ کے متعلق لکھنا اور وہ بھی باپ کی جدائی،لیکن بابا جانی آپ کی محبت نے چند محبت بھرے کلمات لکھنے کا سہارا دے ہی دیا ہے۔
آج کا میرا مضمون جس کا عنوان ہے وقت نے پھر کچھ یاد دلا دیا پیارے بابا جانی میری مراد پیر زادہ ڈاکٹر سید سلیم شہزاد شاہ بخاری صاحب رحم? اللہ علیہ کے نام ہے۔والدین کو رب نے وہ مقام عطا فرمایا ہے کہ رب العالمین قرآن مجید میں متعدد جگہ ارشاد فرماتا ہے(وبالوالدین احساناً) اور فرمایا اف تک نہ کہو اور دیکھیے ذرا رب العالمین ارشاد فرماتا ہے (ان الشکر لی والوالدیک) اپنا شکر ادا کرنے کے ساتھ ہی ارشاد فرمایا اپنے والدین کا شکر ادا کرو۔اولاد جتنی بھی کوشش کرے وہ اپنے والدین کی محبتوں کا قرض کبھی ادا نہیں کرسکتی۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن