حمید نظامی سے مجید نظامی  تک۔۔۔ عزم، اصول اور صحافت کا وقار: نوائے وقت کی85 ویں سالگرہ پر خراج تحسین 

شاہد نسیم چوہدری  ٹارگٹ
85 برس کسی ادارے کی زندگی میں محض ایک عدد نہیں ہوتا۔ یہ وہ درخت ہے جو وقت کی آندھیوں میں بھی اپنی جڑیں مضبوط رکھتا ہے، یہ وہ چراغ ہے جو ہر تاریکی میں روشنی کا استعارہ بنتا ہے، اور یہ وہ قلم ہے جس نے جھوٹ، فریب، آمریت اور منافقت کے سامنے ہمیشہ سچ کا علم بلند رکھا۔ آج ہم جس فخر اور اعتزاز کے ساتھ نوائے وقت کی 85 ویں سالگرہ منا رہے ہیں، اس میں ہزاروں قربانیوں، محنتوں، بے خوابیوں اور اصولی فیصلوں کی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔23 مارچ 1940 کو جب قراردادِ پاکستان منظور ہوئی، اسی دن نوائے وقت کا پہلا شمارہ لاہور سے شائع ہوا۔ یہ محض اتفاق نہیں، بلکہ اس کی پشت پر نظریہ پاکستان کی وہ قوت تھی جو اس اخبار کے بانی حمید نظامی مرحوم کے قلب و ذہن میں موجزن تھی۔ اْن کا یہ خواب تھا کہ ایک ایسا اخبار ہو جو صرف خبروں کا نہیں بلکہ نظریات کا علم بردار ہو، جو قلم سے نظریہ پاکستان کی آبیاری کرے، جو قوم کو صرف باخبر نہ رکھے بلکہ بیدار بھی کرے۔حمید نظامی سے مجید نظامی تک:نوائے وقت کی صحافت کا اصل سرمایہ اس کی قیادت رہی ہے۔ حمید نظامی مرحوم نے جس اصولی صحافت کی بنیاد رکھی، اْس کو اْن کے جانشین مجید نظامی نے امانت سمجھ کر آگے بڑھایا۔ مجید نظامی کا یہ جملہ ’’ہم بھارت سے کبھی دوستی نہیں کریں گے، ہم اس کے ساتھ صرف مذاکرات کریں گے‘‘ ایک تاریخی حوالہ ہے۔ اْنہوں نے کبھی اپنے قلم کو بیچا نہ اخبار کو مفادات کی منڈی میں لے کر گئے۔ نوائے وقت کو صرف اخبار نہیں، ایک نظریاتی مورچہ بنایا، جہاں ہر صفحہ، ہر سطر، ہر لفظ نظریہ پاکستان کا دفاع کرتا ہے۔
نوائے وقت کی ادارتی ٹیم ہو یا کالم نگار، رپورٹر ہو یا ڈیسک پر بیٹھا کوئی نوجوان، سبھی ایک نظریے کے ساتھ جْڑے ہوئے ہیں۔ یہ اخبار صحافیوں کا نہیں، نظریاتی کارکنوں کا ادارہ ہے۔ اس میں لکھنے والے صرف الفاظ کا ہنر نہیں رکھتے بلکہ دل میں ایمان کی حرارت رکھتے ہیں۔
ادارتی صفحے پر شائع ہونے والی تحریریں محض تجزیے نہیں ہوتیں، بلکہ قومی سمت کا تعین کرنے والے اعلامیے ہوتے ہیں۔ نوائے وقت کے ادارتی صفحات نے ہمیشہ قومی مفادات، ملکی سالمیت، نظریاتی تحفظ اور اسلامی اقدار کی وکالت کی ہے۔ چاہے وہ 1965 کی جنگ ہو، 1971 کی سانحہ مشرقی پاکستان، ایٹمی دھماکوں کا دور ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ—نوائے وقت ہمیشہ ریاست کے ساتھ کھڑا رہا۔ایڈیٹوریل پیج کی صورت میں کالم نگاروں کی صف کی امامت کے فرائض جناب سعید آسی صاحب بڑے عرصے سے بخوبی انجام دے رہے ہیں، 
نوائے وقت کا کالمی صفحہ ہمیشہ سے پاکستان کے ذہین ترین، بااصول اور جرات مند لکھاریوں کی آماجگاہ رہا ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی خود ایک کالم نگار تھے، جن کی تحریریں گواہی دیتی تھیں کہ ایک ایڈیٹر کا ضمیر کتنا بلند ہو سکتا ہے۔
عرش صدیقی، مجیب الرحمٰن شامی، عطا الحق قاسمی، حسن نثار، اور نذیر ناجی جیسے جید کالم نگاروں نے نوائے وقت کو صرف ایک اخبار نہیں، ایک علمی، فکری اور نظریاتی تحریک بنا دیا۔ ان کے قلم سے نکلنے والی سطر سطر عوام کے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہی، حکمرانوں کو آئینہ دکھاتی رہی اور نوجوان نسل کو شعور دیتی رہی۔
خالد بہزاد ہاشمی فیملی میگزین،سنڈے میگزین  اور خواتین ایڈیشن ،جبکہ بچوں کا رسالہ پھول شعیب مرزا دیکھ رہے ہیں جو  اپنی مثال آپ ہیں۔ جہاں ایک طرف ملکی و بین الاقوامی موضوعات پر گہرے تجزیے شامل ہوتے ہیں، وہیں خواتین کے مسائل، بچوں کی تربیت، ادب و ثقافت، صحت و تعلیم جیسے موضوعات کو بھی بھرپور انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس میگزین نے خواتین لکھاریوں کو ایک باعزت پلیٹ فارم دیا، جہاں اْن کی آواز نہ صرف سنی گئی بلکہ قومی مباحث کا حصہ بنی۔
اس اخبار نے ہمیشہ قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی۔ جب قوم ایوب خان کے مارشل لاء سے نبرد آزما تھی، نوائے وقت عوام کے ساتھ کھڑا تھا۔ جب بھٹو صاحب نے آمریت کی راہ چنی، نوائے وقت نے اختلاف کی جرات کی۔ جب ضیاء  الحق کے دور میں سنسرشپ کا طوفان آیا، نوائے وقت کا قلم پھر بھی رواں رہا۔ اور جب مشرف کے مارشل لا نے میڈیا کو زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی، نوائے وقت وہ پہلا ادارہ تھا جس نے کھل کر مخالفت کی۔وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے نوائے وقت نے اپنی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے جدید صحافت کو بھی اپنایا۔ اب قارئین دنیا بھر سے نوائے وقت کے صفحات تک رسائی رکھتے ہیں۔ لیکن جو چیز بدلی نہیں، وہ اس کی نظریاتی شناخت، اصولی موقف اور قومی وفاداری ہے۔ ڈیجیٹل دنیا میں بھی نوائے وقت سچائی، تحقیق اور اعتدال کا علَم تھامے کھڑا ہے۔آج کے صحافیوں، لکھاریوں اور طالبعلموں کے لیے نوائے وقت ایک درسگاہ ہے۔ یہ صرف ایک ادارہ نہیں، بلکہ ایک روایت، ایک نظریہ، ایک تحریک ہے۔ یہ اْن نوجوانوں کو راستہ دکھاتا ہے جو قلم کو صرف شہرت کا ذریعہ نہیں بلکہ خدمت کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔
نوائے وقت کی ٹیم کو سلام:85 سالہ اس سفر میں جتنے بھی کارکن، ایڈیٹر، رپورٹر، کاتب، ڈیزائنر، پروف ریڈر، فوٹوگرافر، ڈسپیچ عملہ، اور اشتہارات کی ٹیم شامل رہی—سب قابلِ تحسین ہیں۔ ہر ایک نے اس ادارے کو اپنا خونِ جگر دے کر سینچا ہے۔ ہر صفحے کے پیچھے ایک داستانِ محنت چھپی ہوتی ہے جس کا قاری کو شاید علم نہ ہو، مگر ادارے کی دیواریں ان کہانیوں کی گواہ ہوتی ہیں۔
نوائے وقت: مستقبل کی امید ہے،85 سال مکمل کرنا صرف ایک سنگ میل نہیں، بلکہ ایک نئے عہد کا آغاز ہے۔ جب پوری دنیا صحافت کے بحران سے گزر رہی ہے، جب فیک نیوز، میڈیا ٹرائلز اور مفاداتی صحافت نے صحافی کے وقار کو داغ دار کر دیا ہے، ایسے میں نوائے وقت روشنی کی وہ کرن ہے جس پر آج بھی بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔یہ ادارہ صرف ماضی کی یادگار نہیں، بلکہ مستقبل کی امید ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ نوائے وقت آنے والے برسوں میں بھی اسی طرح سچائی کا علم بلند رکھے گا، نظریہ پاکستان کا محافظ رہے گا، اور عوام کی آواز بن کر زندہ و تابندہ رہے گا۔
نوائے وقت کی 85 ویں سالگرہ اس بات کا اعلان ہے کہ اصولی صحافت آج بھی زندہ ہے۔ حمید نظامی سے مجید نظامی تک کا سفر با احسن طریقے سے انجام پایا ہے۔۔۔ نظریاتی وفاداری کوئی پرانا شعار نہیں بلکہ آج کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ایسے اداروں کی عزت کریں، ان کی تحریروں کو پڑھیں، ان سے سیکھیں، اور اپنے قلم کو اْن کے نقشِ قدم پر چلنے کی تربیت دیں۔85 سالہ اس خوبصورت، پرجوش اور نظریاتی سفر پر نوائے وقت کی پوری ٹیم کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ دعا ہے کہ یہ ادارہ صدیوں تک اسی شان و وقار کے ساتھ قائم و دائم رہے۔۔۔نوائے وقت ایک صدی کا قصہ ہے۔۔پل دو پل کی بات نہیں۔۔۔

ای پیپر دی نیشن