داد دینی پڑتی ہے بھارتی سفارتکاری کی۔یہ شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس نے موجودہ دور کی دونوں سپر پاورز کو قابو کر رکھا ہے۔ باقی دنیا کے تقریباً تمام ممالک کیساتھ بھی دوستی کی پینگیں بڑھا کر ہمدردیاں سمیٹ رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کو اقتدار میں آئے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی امریکہ یاترا پر پہنچ گئے اور نئے امریکی صدر کو اپنی محبت اور دوستی کے حصار میں لے لیا۔ ٹرمپ بھی نریندر مودی کی باہوں میں جاکر خوش ہو گیا۔ خوشی کے اس موقع پر ٹرمپ نے اپنی محبت اور فیاضی کے در کھول دئیے۔ ایک تو کچھ اہم وزارتیں اور اعلیٰ عہدے بھارتی امریکیوں کے حوالے کئے جو مسلسل بھارت کو فوائد پہنچائیں گے۔ دوسرے جدید امریکی ہتھیاروں کی بخشیش کر کے ثواب دارین حاصل کیا۔ بھارت اس وقت پاکستان اور چین کے علاوہ تمام اہم ممالک کا ڈارلنگ بنا ہوا ہے۔ بھارت کی یہ کامیاب ڈپلومیسی ہے کہ ٹرمپ جیسا روکھا شخص بھی نریندرمودی پر دوستی کے پھول نچھاور کر نے پر مجبور ہوا۔ اس یاترا میں بھارت نے کئی فوائد حاصل کئے ہیں۔سب سے پہلے تو فوجی امداد بشمول F-35 لڑاکا طیارے، جوہری توانائی، تیل اور گیس کے اربوں ڈالرز کے معاہدے کئے ہیں۔ساتھ ہی پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میںبھی کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑی۔ نریندر مودی کی سب سے بڑی کامیابی 2008ء میں ہونے والے بمبئی حملے کے نام پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا اور امریکی نفرت کو کامیابی سے بھڑکایا۔ اس سلسلے میں امریکہ نے بھارت پر مہربانی کرتے ہوئے اس حملے کا ایک اہم کردار تہور حسین رانا کو بھارت کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ بھارت امریکی ہتھیاروں سے زیادہ اب اس شخص کو پاکستان کے خلاف مرضی کے بیانات دلوا کر ساری دنیا میں پاکستان کو بدنام کرے گا۔
F-35طیاروں کے حصول سے بہت سے عام بھارتی تو خوش ہیں ۔ وہیں کچھ لوگ اس سے نا خوش بھی ہیں۔ ا ن کی نظر میں یہ بھارتی وزیر اعظم کی سخت غلطی ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ بھارتی اپوزیشن کے علاوہ بھارت کے اہم دفاعی تجزیہ نگاروں نے بھی اس سودے کے متعلق اپنے خدشات ظاہر کئے ہیں۔ آئیں ذرا بھارتی تجزیہ نگاروںکی رائے کا جائزہ لیں۔
بھارتی حزبِ اختلاف کے رہنما رندیپ سنگھ نے مودی حکومت سے F-35 کے متعلق بہت سے سوالات کئے ہیں۔ انہوں نے پوچھا ہے کہ کیا F-35 طیاروں کی خریداری کے لئے انڈین فضائیہ سے کوئی رائے لی گئی تھی یا نہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ کیا نریندر مودی کو یہ نہیں بتایا گیا کہ صدر ٹرمپ کے سنئیر وزیر ایلون مسک اس جنگی جہاز کو ’’کباڑ ‘‘قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم سے یہ بھی جاننا چاہا کہ کیا انہیں پتا ہے کہ F-35 دنیا کا سب سے مہنگا طیارہ ہے۔ بھارت کے نامور دفاعی تجزیہ نگار ریٹائرڈ برگیڈئیر پروین ساہنی نے F-35 کے متعلق تین اہم پہلو بیان کئے ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ F-35اچھا طیارہ ہے۔ یہ لینے ہیں یا نہیں لینے اس کا فیصلہ انڈین فضائیہ کو طے کرنا ہے نہ کہ نریندر مودی یااُن کے آفس نے ۔ یہ انڈین فضائیہ کو طے کرنا ہے کہ کسی جنگ کی صورت میں یہ فائیٹر طیارہ ان کے لئے ٹھیک ہے یا نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر انڈیا نے یہ جہاز خریدا تو اس کے لئے انڈیا کو ایک نئی پروڈکشن لائن کھولنی پڑے گی کیونکہ Maintenance اور Logisticsکے اخراجات فضائیہ کا بوجھ بہت بڑھا دیں گے۔ تیسری بات یہ ہے کہ امریکی جنگی طیاروں کے معاملہ میںامریکہ انڈیا کے روس اور فرانس جیسا پارٹنر تو نہیں ہو سکتا۔ مستقبل میں امریکہ جب چاہے گا وہ اس طیارے کے استعمال پر پابندی لگا دے گا اور اس حوالے سے انڈیا کچھ نہیں کر سکتا۔ انڈیا اگر امریکی جہاز کو کہیں ایسی جگہ استعما ل کرنا چاہے گا جہاں امریکہ نہیں چاہتا تو وہ انڈیا کو روک دے گا۔ سپئیر پارٹس کی سپلائی بھی روکی جا سکتی ہے۔ طیارے سے استعمال کے ساتھ بہت ساری شرائط منسلک ہو سکتی ہیں۔
ایک اور دفاعی تجزیہ نگار راہول بیدی کا کہنا ہے کہ F-35 اس وقت دنیا کا سب سے بہترین جنگی طیارہ تصور کیا جاتا ہے۔ مگر یہ انڈیا کے لئے کچھ زیادہ ہی جدید ہے۔ اس میں دو مسائل ہیں۔ ایک تو یہ بہت مہنگا ہے یعنی اسکی قیمت 80ملین ڈالر سے لے کر 110 ملین ڈالرتک۔ جوانڈین کرنسی میں ایک ہزار کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ دوسرا س کی ایک گھنٹے کی پرواز پر35ہزار ڈالریعنی 3080لاکھ روپے سے زیادہ کا خرچ آتا ہے۔ انڈین فضائیہ اس وقت 7قسم کے طیارے استعمال کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان مختلف ساکھ کے طیاروں کے لے 7مختلف قسم کی سروسنگ، سپئیر پارٹس، Maintenance اور اوور آل کا انتظام ہو نا چاہئے۔ 7مختلف پائلٹس کی ٹریننگ کا الگ الگ انتطام کرنا پڑے گا۔ اب F-35آٹھویں قسم کا طیارہ ہو گا جس کی وجہ سے فضائیہ پر بہت زیادہ دباؤ بڑھے گا۔ ان خوبیوں اور خرابیوں کے مدنظر بھارت اس پوزیشن میں نہیں کہ کسی آٹھویں قسم کے طیارے کو بھارتی فضائیہ میں شامل کر لے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے ساتھ ’’ہتھ‘‘ ہو گیا ہے۔ ٹرمپ نے یہ طیارے آفر کر کے بھارت کے لئے کئی مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ یہ یقینا بھارت کے لئے سفید ہاتھی ثابت ہو گا۔
بہت عرصہ پہلے سفید ہاتھی کی کہانی پڑھی تھی جو کچھ یوں ہے کہ کسی شہر میں ایک جاگیردار رہتا تھاجو اپنی دولت کے زعم میں بہت مغرور اور خود سر تھا۔کسی کو کچھ نہیں سمجھتا تھا ۔ اس کے علاقے کی عوام بھی اس سے بہت نالاں تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ بادشاہ سلامت کے مصاحبوں کو بھی نزدیک نہیں آنے دیتا تھا۔سب مصاحبوں نے اس کے روئیے سے تنگ آکر اور حسد کرتے ہوئے اس کی شکایت بادشاہ سلامت کولگائی۔ بادشاہ سلامت نے اسے بلوایا اور تھوڑی بات چیت کے بعد اسے ایک ہاتھی انعام میں دے دیا۔ کچھ عرصہ بعد بادشاہ نے اس کا حال پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ اس کی ساری اکڑ ختم ہو گئی ہے۔ بادشاہ سلامت کا انعام تھا نہ وہ اس ہاتھی کو بیچ سکتا تھا ، نہ اس کو مار سکتا تھا بلکہ سارا دن اس کی خدمت میں لگا رہتا۔ بادشاہ کے حکم پر اسے پھر بلوایا گیا۔ بادشاہ نے اس کی تعریف کی اور اس دفعہ اسے ایک سفید ہاتھی انعام میں دے دیا۔ وہ بیچارا ایک ہاتھی کی دیکھ بھال سے تنگ تھا ۔ اب اُسے دوسرا ہاتھی بھی پالنا پڑا۔ تو پتہ چلا کچھ عرصے بعد وہ خودکشی کر گیا۔میری نظر میں بھارت کے ساتھ بھی یہی گیم کھیلی گئی ہے۔ دیکھیں اب بھارت کیا رنگ دکھاتا ہے اور اس سفید ہاتھی کو کس طرح پالتا ہے؟