فلسطین کی صورتحال پر ہم سب غمزدہ ہیں کہ پی ایل او فلسطینی عوام کی واحد جائز نمائندہ جماعت ہے۔ بلاشبہ یہ فارمولا محض کسی رائے عامہ کے نتائج کو ریکارڈ کرنا(تمام فلسطینی عوام کی نمائندگی کیلئے کسی براہ راست جمہوری میکانزم کی عدم موجودگی میں) نہیں ہے۔ ان لوگوں کے ذہنوں میں جنہوں نے اسے ایجاد کیا اورجیسے اس کی عموماً تشریح کی گئی اس فارمولے میں واضح طور پر پی ایل او اور اسکی قیادت کو فلسطینی عوام کے نام پر ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا کلی اختیار دیاگیاہے۔ ایسے وقت میں جب بی ایل او نے بغیرکسی ابہام کے سرجھکانے کے راستے کا انتخاب کرلیاہے اس فارمولے کے ضرر رساں کردار کو آسانی سے سمجھاجاسکتاہے۔
امریکی انتظامیہ نے دسمبر1988ء میں بی ایل او کے ساتھ براہ راست بات چیت شروع کی جبکہ صیہونی اسٹیبلشمنٹ کا ایک پھیلتا ہوا حصہ بشمول موجودہ لیبر وزیر آئزر وائزمین اور اسی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کا ایک تہائی اور اس کا جنرل سیکرٹری جس نے انہی وجود پر استعفیٰ دے دیاہے، اسرائیلی حکومت اور پی ایل او کے درمیان براہ راست مذاکرات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ کیایہ سب کچھ انتفادہ کی پہلی سالگرہ منانے کیلئے ہورہاہے؟ یا اس لئے کہ وسط نومبر اور وسط دسمبر کے درمیان عرفات کی قیادت نے امریکی اور اسرائیلی شرائط کے سامنے سرنگوں کرنے کیلئے کچھ فیصلہ کن اقدامات کئے ہیں؟
یہ بات یاد رہے کہ فلسطینیوں کی اکثریت فلسطینی سرزمین بشمول مغربی کنارے اور غزہ سے باہر رہ رہی ہے۔ فلسطینی عوام کے حق خود اختیاری میں یہ حق بھی شامل ہے کہ بغیرکسی شخص کویہ اختیار دیئے کہ وہ باہر سے یہ اعلان کرسکے کہ کون واحد جائز نمائندہ ہے وہ آزادی سے اورجمہوری طریقے سے اپنے نمائندے چن سکیں۔ یہ مانا کہ فی الحال پی ایل اوکو فلسطینیوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے کیونکہ جمہوریت میں نمائندگی کوئی ابدی حق نہیں ہوتا۔ لوگوں کی اکثریت غلط ہوسکتی ہے۔ انقلابیوں کو یہ حق حاصل ہے اور ان کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ انہیں سمجھائیں اور انکے رویوں کے خلاف جدوجہدکریں۔ظالموں کیخلاف مظلوم عوام کی جدوجہد کی غیرمشروط حمایت کا مطلب ہے کہ اس کی قیادت کی نوعیت(چاہے یہ جاگیردارانہ ہویا مذہبی) سے ماوراء ان کی جدوجہد کی حمایت کی جائے۔ اس کا یہ مطلب کسی صورت نہیں ہے کہ اس قیادت کی غیرمشروط حمایت کی جائے اور اس سے بھی کم جب کہ وہ جائیداد رکھنے والے طبقات سے تعلق رکھتی ہو۔ اس حوالے سے انقلابیوں کا رویہ ان اقدامات کے درمیان امتیاز کی بنیاد پر ہونا چاہیے جن کی حمایت کی جانی چاہیے اور جن کی مذمت کی جانی چاہیے۔
مثال کے طور پر ہندوستانی عوام کی برطانوی استعمار کے خلاف مزاحمت کی غیرمشروط حمایت کو گاندھی اور کانگریس پارٹی کے ناقدانہ جائزے کے ساتھ ملایاجانا چاہیے تھا باوجود کہ انہیں بے پناہ مقبولیت حاصل تھی اور یہ حقیقت کہ سول نافرمانی جیسی وہ چند تحریکوں کی قیادت کرچکے تھے اور یہ تحریکیں آج کے فلسطین میں انتفادہ سے ملتی جلتی تھیں۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں دوسرے ممالک(چین، ایتھوپیا، تیونس، ایران، فلپائن وغیرہ) سے مستعار لی جاسکتی ہیں۔ مگر فلسطین کی اپنی تاریخ بھی کافی فصیح ہے۔1948کی شکست تک فلسطینیوں کی بڑی اکثریت مفتی یروشلم حاجی امین الحسینی کی قیادت پر ایمان رکھتی تھی۔ وہ 1936 سے1939ء تک چلنے والی عظیم فلسطینی انتفادہ کا ترجمان تھا اور صیہونیوں کی قیمت پر برطانوی نگران اتھارٹی کے ساتھ مصالحت کی تلاش میں اسے تباہ کرنے کا ذمہ دار بھی تھا۔
صیہونیت،استعماری حکومتوں یاعرب رجعت پسندوں اور پی ایل اوکے درمیان تمام تنازعات میں بغیرکسی شک وشبے کے پی ایل او کی حمایت کی جانی چاہیے۔ زمین پر پی ایل او کے ساتھ مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد بنائے جانے چاہئیں۔ لیکن پتہ ہونا چاہیے کہ ایسے اتحادی کے ساتھ چلناکیسے ہے، جس طرح ٹروٹسکی نے چین کے کم ان تانگ کے بائیں بازو (جوکہ آج پی ایل او کے مقابلے میں زیادہ انتہاپسندتھا) کے بارے میں کہا ہرتذبذب کے موقع پر کم ان کے سامنے سجدہ ریزہوکرنہیں بلکہ کم ان تانگ کے ہراگلے قدم کی حمایت کرکے اوربغیرکسی رکاوٹ کے اسکے ہر تذبذب پرالئے قدم کو افشاء کرکے۔
یہ موخرالذکراقدام فلسطینی انقلابیوں کی ذمہ داری ہے اور ان کی جو عرب ممالک میں ہیں جن کی رجعت پسند حکومتیں پی ایل او کی قیادت کی قریبی اتحادی ہیں اور اس کے پیچھے کی طرف اٹھتے ہر قدم کی حمایت کررہی ہیں۔ یقیناً ان لوگوں کیلئے یہ درست نہیں ہے جو اسرائیلی ریاست کے اندر یا اس کے حمایتی استعماری ممالک میں سرگرم ہیں۔
یہ کہاگیاکہ پی ایل او کی قیادت بارے ہمارے تجزیے اور اس حقیقت کے درمیان کہ اسے اب تک بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے بظاہر ایک تضاد پایا جاتا ہے۔ یہ تضاد اس قیادت کے بورڑواکردار میں پیش کرنے کی وجہ سے سامنے نہیں آتا۔ اسکا بورڑوا ہونا ایسی حقیقت ہے جس پر تمام فلسطینی بایاں بازو بشمول پی ایل او کے سٹالنسٹ دھڑے کے سب متفق ہیں۔ آخر کوئی بورڑوا قیادت بھی غیرملکی تسلط کے خلاف اپنے عوام کی قومی خواہشات کی عمدہ طریقے سے نمائندگی کرسکتی ہے۔ اس تضاد کا تعلق اگر1973ء سے نہیں تو گزشتہ چند سالوں میں پی ایل او کے ٹیڑھے راستے پرسرجھکاتے ہوئے چلنے بارے ہمارے بیان سے ہے۔جارج حباش نے جوکہ اس تجزیے سے متفق ہے اس بارے واقعاتی اعتبارسے تین وجوہات بیان کی ہیں تاکہ لمبے عرصے کے موازنے میں اس بظاہرتضاد کی وضاحت کی جاسکے۔ پی ایف ایل پی کے اخبار الہدف کودسمبر 1987میں اس نے اس حوالے سے ایک لمبا انٹرویودیا۔اسکے مطابق پہلی وجہ فلسطینی دائیں بازوکا 1965 میں مسلح جدوجہد کا راستہ اختیارکرنے کی ابتدا کرناہے جس کی وجہ سے اسے بہت نام اور قائدانہ کردار ملا۔ دوسری وجہ فلسطینی بورڑواپن ہے۔ اپنے طبقے کی فطرت اورمصالحت اورصلح صفائی کے رجحان کی بناء پر یہ رجعت پسند بور بورڑواعرب حکومتوں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتاہے جنہوں نے اسے بڑی مقدار میں سیاسی ومادی حمایت مہیاکی ہے جس سے وہ غالب حیثیت کا حامل ہوگیاہے۔