فضل حسین اعوان
13 جنوری سال 2012 شام کے سوا سات بجے دنیا کا سب سے بڑا اٹالین کروز جہاز اپنے سات دن کے یوروپین دورے پر نکلتا ہے. اس جہاز کا نام ہے کوسٹا کونکوڈیا اور یہ اتنا بڑا ہے کہ نہ صرف ٹائٹینک جہاز سے سائز میں بڑا ہے بلکہ اس میں 2000 زیادہ لوگ بٹھانے کی گنجائش تھی۔ ٹائٹینک 15 اپریل 1992 میں ڈوبا یہ برطانوی جہاز تھا ساوتھیمپٹن سے نیویارک اس کا پہلا سفر تھا۔ٹائٹینک برفانی تودے سے ٹکرا کر دو ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا۔کوسٹا کونکورڈیا جہاز کی لمبائی 290 میٹر یہ 15 سے 20 میٹر چوڑا تھا۔
کو سٹارکنکوڈیا میں سفر کر رہے ہیں 4252 لوگ ا،نٹرٹینمنٹ کی بات کی جائے تو اس جہاز میں کیا کچھ نہیں ہے۔ چار بڑے بڑے سوئمنگ پولز پانچ ریسٹورنٹس 13 الگ الگ بار ،ایک کیسینو ایک باسکٹ بال کوٹ ایک بہت ہی بڑا فٹنس سینٹر جس میں ایک جم ہے۔ ٹرکش باتھ ہے یہاں تک کہ ایک ایف ون ریسنگ سملیٹر بھی لگایا ہوا ہے اس کروزشپ کے اندر۔
اس جہاز کی پہلی ڈیسٹینیشن ہے اٹلی کا شہر سوونا جہاں پہنچنے میں قریب ایک دن لگے گا لیکن جہاز کو چلے ہوئے ڈھائی گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ اچانک سے سبھی کو ایک بڑی ہولناک آواز سنائی دیتی ہے۔ اس کے ایک دم بعد پورے جہاز میں ساری لائٹس بند ہو جاتی ہیں اور جہاز ایک طرف ٹلٹ ہونے لگ جاتا ہے۔گھڑی میں نو بج کے 45 منٹ ہوئے ہیں۔ ایک ایسا وقت جب کچھ لوگ اپنے کمروں میں سو رہے تھے تو کچھ لوگ ڈنر ٹیبلز پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے۔سوئے ہوئے لوگوں کی نیند ٹوٹ جاتی ہے اور وہ اپنے کیبنز سے باہر نکل کر دیکھتے ہیں کہ ہو کیا رہا ہے۔اتنے میں ڈنر ٹیبل پر بیٹھے لوگوں کی پلیٹس سائیڈ میں ٹیبل سے نیچے گرنے لگ جاتی ہیں۔ پیسنجرز کو انٹر کوم کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ جہاز میں ایک الیکٹریکل فیلیئر ہوا ہے لیکن اصل میں بات تو یہ تھی کہ شپ کا پورا انجن ہی فیل ہو چکا تھا۔جہاز کے کیپٹن یہ بات لوگوں سے چھپا کر رکھ رہے تھے۔تھوڑی دیر بعد جہاز دوسری طرف جھکنے لگتا ہے اب پیسنجر سمجھ جاتے ہیں یہ کوئی عام الیکٹریکل فیلیئر نہیں ہے۔لوگوں کو لگتا ہے کہ کہیں یہ ٹائٹینک جیسا حادثہ تو نہیں ہو رہا ہے ۔ان کی یہ سوچ حقیقت کے قریب تر بھی تھی۔اتفاق کی بات ہے کہ ٹائٹینک کا حادثہ اس سے ایگزیکٹلی سو سال پہلے 1912 میں ہوا تھا اور اب اس جہاز میں جب الیکٹریکل فیلیئر ہوا تو اس وقت اس کے ڈائننگ ہال میں ٹائٹینک کا فیمس سونگ مائی ہارٹ بج رہا تھا۔دھیرے دھیرے جہاز اور تیڑھا ہونے لگتا ہے۔ رائٹ سائیڈ کی طرف جھکنے لگتا ہے اور نیچے والے کمروں میں پانی بھرنا شروع ہو جاتا ہے۔ اب تک لوگوں نے ریلائز کر لیا تھا کہ جہاز تو ڈوبنے والا ہے لیکن پیسنجرز کو ڈھنگ سے کیوں نہیں بتایا جا رہا۔شپ کے کیپٹن اتنے چپ کیوں بیٹھے ہیں۔
کوسٹا کنکوڈیاکے بنانے کی کاسٹ پڑی تھی 570 ملین ڈالرز اس زمانے کے 2500 کروڑ روپے .اس دن اس جہاز کے کیپٹن فرانسسکو شیٹینو اٹالین تھے۔ 2002 سے اس کمپنی کے لیے کام کر رہے تھے۔ ان کا نام یاد رکھنا کیونکہ یہ ہماری کہانی میں بہت اہم حصہ ہیں۔ سات بج کے 18 منٹ پر یہ جہاز اپنی پہلی ڈیسٹینیشن سوونا کے لیے روانہ ہوتا ہے اور دو گھنٹے ہی گزرے تھے کہ جہاز اپنے نارمل روٹ سے بھٹک جاتا ہے یہ کوئی غلطی نہیں تھی۔کیپٹن شٹینو جان بوجھ کر اس جہاز کو ایک آئی لینڈ کے پاس سے لے جانا چاہتے تھے۔ اٹلی کا گگلیو آئی لینڈ۔یہ چاہتے تھے کہ یہاں بیٹھے لوگ رات کے اندھیرے میں اس چمکتے ہوئے جہاز کا نظارہ کر سکیں۔ جب بھی کوئی جہاز کسی زمین کے بڑی قریب سے گزرتا ہے اس چیز کو سیل پاس کیا سیل بائی کہا جاتا ہے۔ نارملی اتنے بڑے جہاز کئی کلومیٹر دور ،سات آٹھ کلومیٹر کنارے سےدور سمندر کے بیچ میں ہی چلتے ہیں کیونکہ پانی اتنا گہرا بھی ہونا چاہیے اتنے بڑے جہاز کے چلنے کے لیے۔ لیکن اس سیل بائے کی وجہ سے یہ جہاز کنارے سے صرف 150 میٹر دور تھا ظاہر سی بات ہے پانی یہاں اتنا گہرا نہیں ہوتا۔ نیچے بڑے بڑے پتھر یا ریف ہو سکتی ہیں جن سے جہاز ٹکرا سکتا ہے۔ اوپر سے رات بھی تھی اور جہاز کافی تیز بھی چل رہا تھا۔بعد میں اٹلی کی منسٹری آف انفراسٹرکچرز اینڈ ٹرانسپورٹس کی رپورٹ نے بھی یہی بتایا۔ رات کے وقت ایک محفوظ ڈسٹنس کو نظر انداز کر کے یہ جہاز کنارے کے زیادہ ہی قریب چل رہا تھا۔ ایک سوال یہاں پر یہ اٹھے گا کہ کیپٹن ایسا کر کیوں رہے تھے۔ بات ہے کہ یہ کیپٹن شیٹینو ایک وقت پر سینیئر کیپٹن ماریو پولمبو کے انڈر کام کیا کرتے تھے اور یہ ماریو ، گیگلیو آئی لینڈ پر ہی رہتے تھے اور جس رات یہ جہاز اس آئی لینڈ کی بغل سے گزر رہا تھا اس رات شیٹینو، ماریو کو کال کر کے کہتے ہیں کیونکہ ہم اس آئی لینڈ کے بغل سے گزر رہے ہیں۔ ہم آپ کے لیے سائرن بجا دیں گے۔ ہم آپ کو ٹریبیوٹ دینا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر ماریو بتاتے ہیں کہ میں تو ہوں ہی نہیں اس آئی لینڈ پر، اس وقت میں تو اٹلی کے کسی دوسرے شہر میں ہوں۔اسی بات چیت میں کال کی لائن کٹ ہو جاتی ہے۔یہ کال کی گئی تھی نو بج کے 40 منٹ پر اور اس کے کچھ ہی منٹوں بعد وہی بھیانک سی آواز آتی ہے۔جس کا ڈر تھا وہی ہوا یہ جہاز پانی کے اندر موجود پتھروں سے جا کر ٹکرا گیا۔ کونکوڈیا جہاز کے پیندے کو ٹکر نے چیر کر رکھ دیا۔لگ بھگ 70 میٹر لمبا کٹ جہاز کے حساس حصے پر لگ گیا جس جگہ پر یہ امپیکٹ ہوا وہ جگہ آئی لینڈ کے کنارے سے ڈیڑھ سو میٹر دور بھی نہیں تھی۔ رات کے اندھیرے میں جہاز اتنا آئی لینڈ کے قریب پہنچ گیا تھا۔ ایک دم پانی جہاز کے اندر بڑی تیزی سے آنے لگا۔
26 سال کے اینڈریو کورولو کنکوڈیا جہاز کے تھرڈ آفیسر تھے۔یہ اپنے کیبن میں سو رہے تھے جب یہ واقعہ ہوا۔ جب ان کی نیند کھلتی ہے اور وہ بھی اپنے کیبن سے باہر نکل کر دیکھتے ہیں تو انہیں دکھتا ہے کہ ہالوے کے اندر پانی آچکا ہے یہ فوراً انجن روم کی طرف بھاگتے ہیں اور وہاں پہنچتے ہیں تو انہیں دکھتا ہے کہ وہ دروازہ تو کھل ہی نہیں سکتا۔بند دروازے سے ہی نے دکھ رہا تھا کہ جنریٹرز اور انجن پوری طریقے سے پانی کی لپیٹ میں آ چکے تھے۔ نو بج کے 52 منٹ پر چیف انجینئر اور انجن روم کے باقی آفیسرز ایمرجنسی ڈیزل جنریٹر چالو کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ناکام رہتے ہیں۔ یہ چیف انجینیئر جہاز کے کیپٹن شیٹینوکو جا کر پھر بتاتے ہیں کہ حالت کتنی خراب ہو چکی ہے لیکن جہاز کے کیپٹن پیسنجرز کو اناونس کرتے ہیں کہ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔ بس لائٹ گئی ہے اس لیے بلیک آوٹ ہوا ہے۔
اگلے منٹوں میں جہاز رکا نہیں تھا۔10 بجے کے قریب کیپٹن شیٹینو کو لگتا ہے کہ اس جہاز کو واپس گھما لینا چاہیے اگر ہم ڈوب گئے تو بیچ سمندر کے اندر رہنا زیادہ خطرناک ہوگا۔ آئی لینڈ کے پاس رہیں گے تو بہتر ہے. جہاز ایک یوٹرن لیتا ہے اور اس کی وجہ سے سیدھا ہونے کے بجائے دوسری طرف ٹلٹ کرنے لگ جاتا ہے۔ پہلے لیفٹ سائیڈ کی طرف ٹلٹ کر رہا تھا اب رائٹ سائیڈ کی طرف جھکنے لگ جاتا ہے۔
جہاز کے کرائسز کوارڈینیٹر رابرٹو فیرانی دو بار کال کرتے ہیں کیپٹن شیٹینو کو 10 بج کے پانچ منٹ پر اور 10 بج کے سات منٹ پر۔ دوسری کال میں کیپٹن بالآخر مانتے ہیں کہ جہاز میں کچھ پرابلمز ہیں لیکن یہ پرابلمز اگر جلدی مان لئے جاتے تو بہتر رہتا۔
کیپٹن شیٹینو اپنی غلطی ایڈمٹ ضرور کر لیتے ہیں لیکن اس کے بعد وہ ایک اور بیوقوفی کرتے ہیں۔ اپنی غلطیوں کو کور کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ کہہ کر کہ یہ جو لائٹ گئی ہے اس کی وجہ سے ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ الٹا کہتے ہیں وہ ایکچولی ایکسیڈنٹ کی وجہ سے لائٹ گئی تھی۔اسی بیچ کچھ پیسنجرز پریشان ہو کر لوکل پولیس کو کال کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور 10 بج کے 12 منٹ پر اٹالین کوسٹ گارڈ جہاز کے کیپٹن کو کال کرتے ہیں کہ بتاو چل کیا رہا ہے۔پیسنجرز ہمیں کانٹیکٹ کر رہے ہیں۔ کیپٹن کہتے ہیں کچھ نہیں ہوا صرف ایک بلیک آوٹ ہوا ہے۔ اپ لوگ فکر مت کرو یہ بات تب کہی گئی جب آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا ٹکرہوئے۔10 منٹ اور بیتتے ہیں اور تب جا کر کیپٹن شیٹینو کا من بدلتا ہے۔ آخر کب تک جھوٹوں کے سہارے وہ سچائی کو دبا کر رکھیں گے۔رات کے 10 بج کے 22 منٹ شیٹینو ریڈیو آپریٹر کو کہتے ہیں کہ تم کوسٹ گارڈ کو کال کر کے بتاو کہ جہاز کے لیفٹ سائیڈ میں ایک ٹکر لگ گئی ہے اور کونکوڈیا کو ٹگ بوٹس کی مدد کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو لائف جیکٹس ہم نے دے دیئے ہیں اور سب لوگ سیف ہیں۔
ایک ایک منٹ یہاں پر بہت ضروری تھا کیونکہ جہاز دھیرے دھیرے اور زیادہ ٹلٹ کیے جا رہا تھا۔فائنلی جا کر 10 بج کے 33 منٹ پر ایک جنرل ایمرجنسی الارم ریز کیا جاتا ہے اور پیسنجرز کو کہا جاتا ہے کہ وہ ایمرجنسی اسمبلی ایریاز میں جا کر اکٹھے ہوں اور انسٹرکشنز کا انتظار کریں۔ رات کے 10 بج کے 48 منٹ ،جہاز 30 ڈگری سے ٹلٹ کر چکا ہے۔ایکسیڈنٹ کو ایک گھنٹے سے زیادہ بیت چکا اور 10 بج کے 54 منٹ پر کیپٹن شیٹینو آرڈر دیتے ہیں کہ جہاز کو خالی کیا جائے۔ سوچ کر دیکھئے۔دوستو! 4200 سے زیادہ لوگ اس جہاز پر پھنسے ہوئے ہیں. جہاز 30 ڈگری ٹلٹ کر چکا ہے نیچے کے کئی کیبنز پانی کے اندر ڈوب چکے ہیں اور اوپر کے کئی ڈیکس میں سامان ادھر ا±دھر ہو کر گرا ہے. سب کچھ تہس نہس ہو چکا ہے۔ اس پوری سیچوایشن میں کیپٹن نے بس ایک اچھا فیصلہ لیا تھا :یو ٹرن لینے کا اب اسے ایک اچھے فیصلے کے بل پر ہی کیپٹن مہاراج یہاں پر کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہے تھے۔وہ چاہ رہے تھے کہ لوگ انہیں ہیرو کی نظر سے دیکھیں، ایک فیصلے کی وجہ سے۔ یہ بات سچ ہے کہ یہ فیصلہ ان کا اچھا تھا لیکن باقی سارے فیصلے ان کے بیوقوفی حماقت بلکہ جہالت سے بھرے تھے۔ اوپر سے وہ ایک کے بعد ایک جھوٹ بولے جا رہے تھے اور لوگوں کو گمراہ کر رہے تھے، اس ڈوبتی ناو میں۔ آگے چل کر کیپٹن پھر کچھ ایسا کر دیتے ہیں جس کے بعد ان کو صرف لوگوں کی گالیاں ہی پڑتی ہیں۔
جیسے ہی انہوں نے جہاز چھوڑ دینے کا پیغام دیا کنکوڈیا میں بری طرح سے افراتفری مچ گئی۔ کچھ لوگ تو اس اندیشے سے پہلے ہی لائف بوٹس لے کر پانی میں نکل چکے تھے۔ باقی کئی لوگ کانفیڈنٹ تھے کہ انہیں سوئمنگ آتی ہے تو وہ سیدھا پانی میں کود گئے۔ انہیں دکھ رہا تھا کہ بغل میں آئی لینڈ ہے۔ وہاں تیر کر چلے گئے لیکن کیپٹن کے سگنل کے بعد پوری طرح سے کیوس ہو گیا کیونکہ ان لوگوں کی بھیڑ لائف بوٹس کی طرف بھاگنے لگی۔ لوگ دھکا مکی کرنے لگے، پہلے لائف بوٹس میں جانے کے لیے۔ ایک اچھی چیز یہ ہوئی گی کیپٹن شیٹینوکے برتاو سے پریشان ہو کر کچھ کرو ممبرز ریبل کرنے لگ گئے تھے۔ 10، 15 منٹ پہلے ہی پیسنجرز کو اپنے کیبنز سے باہر نکال کر لائف بوٹس میں بٹھانے لگ چکے تھے۔ رات کے اندھیرے میں جہاز دھیرے دھیرے رائٹ سائیڈ کی طرف گرتا جا رہا تھا۔40 ڈگریز کا ٹلٹ 50 ڈگریز کا ٹلٹ اس پوائنٹ تک رائٹ سائیڈ میں جن لوگوں کے کیبنز تھے ان کا لیول بالکل پانی کے لیول پر آ چکا تھا۔ وہ لوگ تو بڑی آسانی پسے پانی کے اندر کود کر چل لئے آئی لینڈ کی طرف۔ لیکن مصیبت ان لوگوں کے لیے تھی جو جہاز کی دوسری طرف تھے۔اتنے تیز بہاو میں کیسے وہ راستہ ڈھونڈیں اور باہر کی طرف نکلیں۔ یہ سب دھکا مکی کے بیچ ایک انڈین سٹاف ممبر بھی وہاں موجود تھی۔ رمیشانہ جو کنکوڈیا کی 11 ممبر سکیورٹی سٹاف کی اکلوتی خاتون تھیں وہ بتاتی ہیں کہ کیسے لینگویج بیریئرز ورکر کے سامنے آنے لگے۔ زیادہ تر پیسنجرز جو کروز شپ میں بیٹھے تھے وہ اٹالین ہی تھے اور کرو زکے بہت سارے ممبرز اٹالین زبان نہیں جانتے تھے۔اوپر سے دقت یہ تھی کہ زیادہ تر ممبرز ایسی ایمرجنسی سچویشن کے لیے ٹرینڈ نہیں تھے۔ وہ صرف سروس سٹاف تھے۔ ان سب مصیبتوں کے باوجود کچھ کرو ممبرز نے یہاں پر ہیرو کا کام کیا۔کرنا تھا رمیشانہ نے ایک بلائنڈ عورت کو لائف بوٹ میں بٹھایا باقی دو لوگوں نے ویل چیئرز پر بیٹھے پیسنجرز کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر لائف بوٹس میں بٹھایا۔دوسرا جہاز پر ایک اور انڈین کرو ممبر موجود تھے رسل روبیلو جو ویٹر کے طور پر کام کر رہے تھے۔کیپٹن شیٹینو کے آرڈرز کے آنے سے پہلے ہی وہ پیسنجرز کی مدد کر رہے تھے لائف بوٹس پر بیٹھنے میں۔ وہ آخری دم تک پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کرتے رہے ،جیسے جہاز ڈوبتا رہا لیکن انفارچونیٹلی رسل ان لوگوں میں سے تھے جو اپنی خود کی جان نہیں بچا پائے۔ اس ایویکیویشن کے دوران۔
دوسری طرف کیپٹن شیٹینو جیسے لوگ تھے جو پیسنجرز کی مدد کرنے کے بجائےجہاز چھوڑ کر بھاگ گئے۔ وہی کیپٹن جنہوں نے پہلے جھوٹ بول کے ایک گھنٹہ لگا دیا پیسنجرز کو سچ بتانے میں اور جیسے ہی انہوں نے ابیڈن کا آرڈر دیا اس کے کچھ ہی منٹ بعد رات کےگیارہ بج کے 19 منٹ پر یہ پہلے کرو ممبرز میں سے تھے جو جہاز چھوڑ کر بھاگے۔ گیگلیو آئی لینڈ ایک گاوں کی طرح ہے۔ زیادہ لوگ وہاں رہتے نہیں ہیں۔ صرف 700 لوگوں کی پاپولیشن ہے اس ائیلینڈ پر لیکن اس رات جب حادثہ ہوا کچھ لوگوں نے اپنے گھروں سے باہر نکل کر ضرور دیکھا کہ کیا ہو رہا تھا۔اس آئی لینڈ کے ڈپٹی میئر ماریو پیلے گرینی کو جیسے ہی پتہ چلا کہ یہاں ایک جہاز ڈوب رہا تھا یہ خود اس جہاز کے پاس گئے لوگوں کی مدد کرنے کے لیے۔ایک منٹ بنا سوچے یہ لائف بوٹ میں کودے اور پانی میں گئے لوگوں کی مدد کرنے کے لیے۔ انہوں نے کہا جب جہاز پوری طریقے سے رائٹ سائیڈ کی طرف گر چکا تھا تو بھنور سے بننے لگے تھے، جہاز کے اندر پانی کے۔ جن میں لوگ پھنسے ہوئے تھے وہ ایک رسی کا انتظام کرتے ہیں اور اس رسی کی مدد سے کنویں میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکال کر ان کے جان بچاتے ہیں۔
2500 سے 3300 لوگ سیفلی آئی لینڈ پر پہنچ چکے تھے۔ 11 بج کے 38 منٹ کے قریب 400 لوگ ابھی بھی جہاز میں پھنسے ہوئے تھے۔ اٹالین کوسٹ گارڈ کے ہیلی کاپٹرز اور ریسکیو سروس بھی لوگوں کی مدد کرنے کے لیے پہنچ چکی تھی۔ کچھ 100 لوگوں کو یہ پانی کے اندر سے بچاتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ کتنے اور لوگ جہاز کے اندر ابھی پھنسے ہوئے پڑے ہیں۔ رات کے 12 بج کے 42 منٹ کوسٹ گارڈ کے کمانڈر کیپٹن گرے گوریو فیلکو کیپٹن شیٹینو کو کال لگاتے ہیں۔ یہ شٹینو سے سیدھا غصے میں کہتے ہیں تم کیپٹن ہو تمہیں جہاز پہ واپس جانا چاہیے۔میں تمہیں آرڈر کرتا ہوں واپس جاو اور بتاو کہ کون کون پیسنجرز بچے ہیں۔ تم اس طریقے سے اپنے پیسنجرز کو چھوڑ کر بھاگ نہیں سکتے۔شٹینو کہتےہیں پلیز میں واپس نہیں جا سکتا۔ میں واپس نہیں جا سکتا۔ اس سب کے بعد بھی کیپٹن شٹینو واپس نہیں جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ شٹینو کو بعد میں لوگ کیپٹن کوورڈ یا کیپٹن قائر کہہ کر پکارنے لگے۔
ایک طرف اس جہاز کے کچھ کرو ممبرز اور اٹالین کوسٹ گارڈ کی ٹیم رات بھر مدد کرتے رہے لوگوں کی۔شیٹینو دور بیٹھے نظارہ دیکھتے رہے۔ اگلی صبح جب سورج نکلتا ہے اور اس جہاز پر روشنی پڑتی ہے تب جا کر لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ یہ کتنا بڑا حادثہ ہوا ہے۔صبح تک زیادہ تر لوگ ریسکیو کیے جا چکے تھے۔ تین لوگوں کی موت کنفرم ہو چکی تھی لیکن کچھ لوگ ابھی بھی پھنسے ہوئے تھے۔
اس بیچ گیگلیو میں رہنے والے سبھی لوگوں کو پتہ چل چکا تھا اس حادثے کے بارے میں اور بہت سے لوگ مدد کرنے نکلے۔700 لوگ آئی لینڈ پر رہنے والے ہیں لیکن چار ہزار لوگ جو جہاز میں تھے، ان لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے کھولے۔الزبتھ نامی ٹورسٹ جو گیگلیو ٹورسٹ انفارمیشن میں کام کرتی تھیں انہوں نے بتایا کہ سارے سروائیورز شاک میں تھے کچھ لوگ ہائیپوتھرمیا کا شکار بنے ہوئے تھے کیونکہ پانی بہت ٹھنڈا تھا۔سب لوگ بڑے ڈیسپریٹ تھے اپنے فیملی ممبرز اور دوستوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس آئی لینڈ کے گاوں پر موجود سکول چرچز اور کینٹینز جیسی جگہوں کو کھول دیا گیا تاکہ سروائیورز کو سر پر ایک چھت مل سکے بلینکٹس اور کپڑے بھی دیے گئے ان لوگوں کو لیکن دوسری طرف جو ریسکیو اپریشن چل رہا تھا وہ اگلے دو سے ڈھائی ہفتوں تک چلنے والا تھا۔اٹالین نیوی کوسٹ گارڈ فائر ریسکیو سروس سب کو انوالو ہونا پڑا۔ ریسکیو ڈائیورز کی بھی ضرورت پڑی کیونکہ جو ابھی بھی پھنسے ہوئے لوگ تھے وہ اپنا دروازہ نہیں کھول پا رہے تھے کیبنز کا۔پانی کا پریشر دوسری طرف سے اتنا تھا جو کیبن کے اندر ہی بند رہ گئے تھے۔ 14 جنوری کو ایک ساوتھ کورین کپل کو ریسکیو کیا جاتا ہے جو اپنے کیبن کے اندر ہی بند تھے اس طریقے سے زیادہ تر لوگ جو مارے گئے اس حادثے میں وہ اسی وجہ سے مارے گئے۔ اپنے کیبن کے اندر بند رہ کر پانی کے اندر ڈوب گئے۔ اگر انہیں ٹائم پر انفارم کیا جاتا تو ان کی بھی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔ کل ملا کر 32 لوگوں کی موت ہوئی اس پورے دورانیئے میں۔اگلی پرابلم تھی اس ڈوبے ہوئے جہاں سے تیل نکالنا اور پورے جہاز کو واپس ریسکیو کرنا تاکہ یہیں نہ پڑا رہے۔ انجینیئرز نے جب اس جہاز کو اینالائز کیا تو اسے کنسٹرکٹیو ٹوٹل لاس ڈکلیئر کر دیا گیا۔ اس کا مطلب کہ اسے بچانے کا کوئی چانس نہیں تھا۔ اس جہاز کو دوبارہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ہی آپشن تھا کہ اب اسے ڈس اسمبل کیا جائے اور اس کے سکریپ میٹل کو بیچ دیا جائے۔ سب سے پہلے جہاز کے اندر قریب 19 لاکھ لیٹر فیول موجود تھا یہ فلی لوڈڈ شپ تھی جب اس نے چلنا شروع کیا تھا۔اس لیے فیول پورا بھرا ہوا تھا فیول نکالنے کے لیے جہاز کے اراونڈ ایک آئل بیریئر بنایا گیا اور 12 فروری 2012 کو جا کر آئل ریموول کرنا شروع کیا گیا کیونکہ یہ سردیوں کا موسم تھا۔ایک اور پرابلم یہ تھی کہ کافی سارا فیول سیمی سولڈ بن چکا تھا تو اسے ری ہیٹ کرنے کی بھی ضرورت پڑی تھی۔ اسے باہر نکالنے سے پہلے ہیٹ کرنے کے بعد ایک دوسری ٹینکر شپ کا استعمال کیا گیا اور پمپ کے ذریعے سارے تیل کو ادھر سے ادھر ٹرانسفر کیا گیا۔ یہ کرنے میں ایک مہینے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ 24 مارچ تک یہ پروسیس چلتا رہا۔ اب اگلی چیز پورے جہاز کو یہاں سے کھڑا کر کے واپس لے کر جانا یہ اپنے آپ میں بہت بڑا انجینئرنگ پروجیکٹ تھا۔ایک سٹیل سٹرکچر بنایا گیا پانی کے اندر جہاں پر اس جہاز کو سیدھا کیا جا سکے۔اس پر کام شروع ہوا ایک سال بعد اپریل 2013 میں جا کر۔ اس کے بعد جہاز کے اوپر والی سائیڈ پر بڑے بڑے بکسے لگائے گئے۔ ان بکسوں میں پانی بھرا گیا اور رسیوں کا اور کیبلز کا استعمال کر کے ان بکسوں کو کھینچا گیا تاکہ انہیں ویٹس کی طرح استعمال کیا جا سکے ان واٹر ٹائپ بکسوں کوکیسن کرکے بلایا جاتا۔ ٹوٹل میں 15 ایسے کیسن لگائے گئے۔ 16 ستمبر 2013 ایکچول پروسیس شروع ہوا کنکوڈیا کو سیدھا کرنے کا۔ اس میں19 گھنٹے لگ گئے۔ پلنگ مشین سٹیل سٹرکچر اور کیسنز کا استعمال کر کے اس کے بعد اگلی سٹیپ تھی اس جہاز کو پانی پر تیرانہ، اس کے لیے اور بکسوں کا استعمال کیا گیا دوسری طرف بھی کیسنز لگائے گئے اور اس کے بعد ان کیسنز سے پانی نکال دیا گیا جس سے کیسن فلوٹ کرنے لگے اور جیسے جیسے وہ کیسن فلوٹ کرنے لگے پورا جہاز بھی ان کے ساتھ فلوٹ کرنے لگا۔پورے پروسیس میں 500 ڈائیورز ٹیکنیشینز انجینیئرز اور بائیولوجسٹ انوالو تھے۔
19 مہینے بیت چکے تھے ایکسیڈنٹ ہوئے اور صرف اس جہاز کو ریسکیو کرنے کی کاسٹ 799 ملین ڈالرز آرہی تھی۔جہاز کو پورٹ پر لے جانے کے لیے دوسرے جہاز کا استعمال کیا جاتا ہے جو اسے کھینچ کر کے لے جاتا ہے۔یہ کیا گیا جولائی 2014 میں اور اب تک ٹوٹل کاسٹ اس اپریشن کی 1.2 بلین ڈالرز پہنچ چکی تھی لیکن خرچہ ابھی بھی بہت اٹھانا تھا اس کمپنی کو۔ اس ٹوٹے ہوئے جہاز سے بھی میٹل کو سکریپ کر کے نکالنے کا خرچہ لگتا ہے، لوگوں کی محنت لگتی ہے۔ 350 سے زیادہ لوگوں نے اس پر کام کیا اور یہ پروسیس جا کر جولائی 2017 میں ختم ہوا لیکن لوگوں کو ریسکیو کرنے کے بعد لیگل کیسز بھی یہاں پر شروع ہو چکے تھے۔ فائنلی جا کر اس کمپنی نے ایک ایک سروائیونگ پیسنجر کو اپنا ٹکٹ کا پرائز واپس تو لوٹایا ہی،اس کے علاوہ 11 ہزار یورو کی کمپنسیشن تھی۔ یہ بنتا ہے قریب 10 لاکھ روپے پر پیسنجر۔ اس کے علاوہ جن لوگوں کی جانیں گئیں ان کے خاندانوں کو ایک ان ڈسکلوزڈ اماونٹ پے کیا گیا۔ ٹوٹل کاسٹ اس ڈیزاسٹر کی اس کمپنی کو پڑی دو بلین ڈالر لیکن ایک سوال اپ کے ذہن میں ضرور ہوگا۔ کیپٹن کے ساتھ آخر کیا ہوا ؟ پھر وہی بندہ جو اکلوتا ذمہ دار تھا اس حادثے کے پیچھے ،جس نے اپنے پیسنجر سے جھوٹ بولا ٹائم پر انہیں انفو نہیں دی اور جب جہاز ڈوبنے لگا تو سب سے پہلے خود ہی جہاز چھوڑ کر بھاگ نکلا۔حادثے کے بعد بھی کیپٹن شیٹینو کی پھینکنے کی عادت گئی نہیں۔ کورٹ میں جب کیس چلا تو کورٹ میں کہتے ہیں کہ جب جہاز 70 ڈگری کے اینگل پر تھا میرا پیر پھسل گیا اور میں لائف بوٹ میں گر گیا اور کچھ اس طریقے سے میں لائف بوٹ میں گرا اور وہاں سے گیا۔ظاہر سی بات ہے یہ ارگیومنٹ کسی کو قابل یقین نہیں لگے۔کورٹ کے جج نے اس بات پر بالکل یقین نہیں کیا اور 2017 میں کیپٹن شیٹینو پر قتل عام مین سلاٹر کا چارج لگایا جاتا ہے اور انہیں 16 سال کی جیل سنائی گئی۔ آگے چل کر شیٹینو کے بارے میں کچھ اور انٹرسٹنگ باتیں نکل کر آتی ہیں۔
ماریو پولمبو جو سینیئر کیپٹن رہے تھے۔ 2003 میں شیٹینو ان کے انڈر کام کرتے تھے اور انہوں نے بتایا کہ شیٹینو ہمیشہ سے ہی ایسے جھوٹے انسان رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کافی کیسز میں اپنی غلطیاں ایڈمٹ کرنے کی جگہ شیٹینو جھوٹ بولتے تھے۔
اس رات چانس کی بات تھی کنکوڈیا جہاز میں ایک اور جہاز کے کیپٹن روبوٹو بوسیو موجود تھے۔ کوسٹا سیرینا جہاز کے کیپٹن تھے لیکن اس رات کنکوڈیا میں ہی تھے لیکن شیٹینوکی طرح یہ جہاز چھوڑ کر بھاگے نہیں تھے۔ آخر تک لوگوں کی مدد کرتے رہے تھے اور ان فیکٹ شیٹینو کے آفیشل سگنل آنے سے پہلے بھی یہ لوگوں کو اویکیوٹ کرنا شروع کر چکے تھے بعد میں ان کا یہ کہنا تھا اونلی ڈسگریس فل مین لفٹ دا پیسنجرز اون بورڈ۔یہ میری زندگی کا یہ سب سے خراب ایکسپیرینس تھا ایک ٹریجڈی تھی جو ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی۔ مجھے ہیرو مت بلاو میں نے تو بس اپنی ڈیوٹی کی ہے، کیپٹن کی جو ڈیوٹی ہوتی ہے ایکچولی ایک انسان کی بھی یہی ڈیوٹی ہونی چاہیے۔
کیپٹن کو چھوڑ کر پانچ اور لوگوں کو اریسٹ کیا جاتا ہے اسپیشلی جو ہائی رینک افیسرز تھے اس رات جہاز میں لیکن ان سب کو محض دو سال کی ہی سزا سنائی جاتی ہے کیونکہ سب سے بڑی غلطی کیپٹن شیٹینو کی ہی تھی۔ آج اس حادثے سے قریب 12 سال بعد شٹینو جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں اور اس پوری کہانی سے اگر کوئی سبق ملتا ہے تو وہ یہ کبھی بھی اپنے جہاز کی کپتانی ایک اور بزدل آدمی کو مت دییں جو اپنی غلطیاں ایڈمٹ کرنا نہ جانتا ہو۔
کروز جہاز کے کپتان نے حادثے سے پہلے ایک خوبصورت خاتون کے ساتھ شراب پی۔ یہ دعویٰ تفتیش کے دوران ایک گواہ نے کیا۔
ایک طرف یہ فرانسسکو شٹینو ہے اور دوسری طرف انسانیت کیلئے ہیرو ایڈورڈ جان سمتھ ہیں۔ٹائی ٹینک جہاز کے کپتان ایڈورڈ جان سمتھ بیشترعملے کے ساتھ خواتین اور بچوں کو بچانے کی کوشش میں خود ڈوب کر انسانیت پر احسان کر گئے۔ وہ آخری آدمی تھا
جس نے جہاز سے چھلانگ لگائی۔
ایک آدمی آخری کشتی کی طرف تیرتے ہوئے ہوئے لپکا تو ایک مسافر نے کہا ”یہ پہلے ہی اوور لوڈ ہے“ اس پرتیراک پیچھے ہٹ گیا اور کہا "All right boys. Good luck and God bless you" یہ جہاز کا کپتان 62 سالہ ایڈورڈجان سمتھ تھا۔ دوسروں پر اپنی جاں نچھاور کرنے کے عظیم جذبے کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اس کا مجسمہ سٹیفورڈ میں نصب کیا گیا ہے۔