شام خانہ جنگی کی لپیٹ میں!

 گلوبل ویلج                
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
بشارالاسد کو اپنی مشکلات کا یقینا احساس تھا، انہیں اپنے دشمن کی قوت کا بھی ادراک تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کو اپنے ہی وطن سے فرار ہو کر کہیں اور جائے پناہ تلاش کرنا پڑے گی۔ انہوں نے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ کتنے لوگوں کی جان لے لی، کتنے لوگ ملک شام کو چھوڑ گئے لیکن اقتدار کے بقائے دوام میں وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ بہت سے حکمرانوں کی تاحیات اقتدار پر براجمان رہنے کی خواہش ہے۔ شہنشاہ ایران محمد رضا پہلوی نے بھی کبھی دربدر ہونے کے بارے میں نہیں سوچا ہوگا ۔ حسینہ واجد نے اپنے اقتدار کے بقا کے لیے کیا کچھ نہیں کہا ، کیا کچھ نہیں کیا، کتنے لوگ مروا دیئے ،کتنے مخالفین کو جیلوں میں رکھا لیکن ان کو بھی اپنے وطن سے راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔ بشارالاسد کی ہسٹری پر نظر ڈالی جائے تو ان کی سیاست میں کوئی بھی قربانی اور کردار نہیں رہا وہ خود بھی سیاست میں آنا نہیں چاہتے تھے، ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنا کیریئر بناناچاہتے تھے مگر وہ اسی طرح سے ایک حادثے کی وجہ سے شام کے صدر بن گئے۔ ایسا ہی حادثہ راجیو گاندھی کو بھی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر لے گیا تھا۔ اندراگاندھی اپنے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی کو اپنا سیاسی جانشین بنانا چاہتی تھی لیکن وہ ایک جہاز میں ایروپیکٹس کرتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔ تو راجیو گاندھی جو پروفیشنل پائلٹ تھے ان کو اندراگاندھی کے قتل کے بعد انڈیا کا وزیراعظم بنا دیا ہے۔ بالکل اسی طرح حافظ الاسد کے طرف سے اپنے بیٹے باسل کو سیاسی جانشین بنایا گیا تھا مگر وہ ایک کارکے حادثے میں جاں بحق ہو گئے تو بشارالاسد کے سر پر صدارت کا تاج اس کے باوجود رکھ دیا گیا کہ ان دنوں صدر بننے کی کم از کم عمر چالیس سال تھی، آئین میں ترمیم کرکے یہ عمر چوانتیس سال کی گئی۔ بشارالاسد کے والد حافظ الاسد وہ بھی کسی جائز سیاسی طریقے سے اقتدارمیں نہیں آئے تھے بلکہ ان کی طرف سے بھی بغاوت کی گئی تھی ۔ یہ فضائیہ کے ہیڈ بنائے گئے تو اسی ناطے ان کو وزیردفاع بھی بنا دیا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد پھر چل سو چل ریفرنڈم پہ ریفرنڈم کسی اور کو قریب تک نہیں آنے دیا گیا۔ ایسی آمریت چلتی رہتی ہے اس کو دوام بھی مل جاتا ہے بشرطیکہ عوام کے لیے زندگی کی آسانی کے راستے کھلتے چلے جائیں۔ بہت سے عرب ممالک میں ملوکیت ہے اور وہ کامیابی سے چل رہی ہے۔ کہیں بادشاہت ہے ،کہیں خلافت ہے ،لیکن ان کے خلاف کہیں کوئی تحریک نظر نہیں آ رہی ہے۔ ان کی بقا اور دوام کی وجہ ایک ہی ہے کہ عام آدمی کی زندگی آسان بنا دیا گئی ہے ۔شہر سے سینکڑوں میل دور صحرا میں، پہاڑوں میں ،کسی جزیرے میں، ایک بھی گھر ہے وہاں تک پانی، بجلی، گیس اور بہترین سڑکوں کی صورت میں زندگی کی ہر سہولت پہنچا دیا گئی ہے ۔ ایسے حکمرانوں کو جب بھی کسی مشکل کا سامنا ہوتا ہے، عوام ان کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے تیار تک ہو جاتے ہیں۔ ترکی کی مثال لے لیجئے ۔طیب اردگان کے خلاف چند جرنیلوں نے بغاوت کر دی ،قریب تھا کہ یہ بغاوت کامیاب ہو جاتی وہ تو طیب اردگان اس وجہ سے بچ گئے کہ بغاوت کی ان کو ایک تو اطلاع مل گئی، دوسرے وہ اس وقت جہاز میں سفر کررہے تھے۔ اگر وہ زمین پر ہوتے تو ان کو فوج کے اس گروہ کی طرف سے گرفتار کر لیا جاتا،جہاز سے طیب اردگان کو جیسے ہی اطلاع ملتی ہے، میڈیا پر خبریں آ جاتی ہیں۔ ٹینک سڑکوں پر دھندنانے لگتے ہیں چونکہ طیب اردگان نے اپنے عوام کے لیے بہت کچھ کر دیا تھا وہ ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ اور اس بغاوت کو ناکام بنا دیا۔ آج بہت سے جرنیل جیلوں میں پڑے اپنے زخم سہلا رہے ہیں۔ 
بشارالاسد کی طرف سے بھی اپنے لوگوں کی اسی طرح خدمت کی گئی ہوتی تو وہ یقینی طور پر ان کے لیے اپنی جان قربان کرنے پر تُلے بیٹھے ہوتے اور آج ان کو دربدری کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔وہاں پر دشمن کی طرف سے کچھ گروپوں کو کھڑا کیا گیا تھا۔ ان گروپوں ہی کو اچھی حکمت عملی سے بشارالاسد اپنے ساتھ ملا سکتے تھے لیکن انہوں نے جبر کے ہتھکنڈے اور حربے اختیار کیے۔ اس میں بھی شک والی کوئی بات نہیں ہے کہ ان گروپوں کو شام کے دشمنوں کی حمایت حاصل تھی۔ اس میں کئی امریکہ کے پروردہ ہیں، کوئی برطانیہ کی حمایت سے سرگرم عمل ہے کسی کو اسرائیل سپورٹ کرتا ہے۔ ترکی اور ایران کے بھی اپنے اپنے گروپ موجود تھے۔ ایران کی طرف بشارالاسد کی مکمل حمایت کی گئی لیکن دوسرے لوگوں کا زور چل گیا اور بشارالاسد کو اپنے ملک ہی سے بھاگنا پڑ گیا۔
شام میں ایک عرصے سے حالات دگرگوں تھے۔ اگر ہم اپنے ملک کی بات کریں تو پاکستان میں بھی دہشت گردی ایک بار پھر در آئی ہے۔ یہی دہشت گرد جن کو چند سال قبل ”ضرب عضب“ آپریشن کے لیے ذریعے بے بس کر دیا گیا تھا وہ آج پھر پاکستان میں صورتحال کو بدترین سطح پر لے گئے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں اپنے مضبوط ٹھکانے بنائے ہوئے تھے، ان کی تربیت گاہیں تھیں، اسلحہ ساز فیکٹریاں تھیں ،جب قوم ان کے خلاف متحد ہوئی تو ”ضرب عضب“ آپریشن کے ذریعے ان کا خاتمہ کر دیا گیا اور واقعی ان کی کمر توڑ دی گئی تھی۔ یہ پاکستان سے فرار ہو کر افغانستان چلے گئے۔ پاک فوج کی طرف سے زبردست آپریشن کیا گیا تھا لیکن سول حکومتوں کی طرف سے ان معاملات کو ٹیکل نہ کیا جا سکا تو وہ دہشت گرد پھر سے پاکستان میں در آئے ہیں۔ کل ہی کی بات ہے کہ بلوچستان ،خیبر پی کے میں آپریشن کے دوران سولہ دہشت گردوں کو مار ڈالا گیا۔ پانچ روز میں تینتالیس دہشت گرد مارے گئے ہیں جب کہ پاک فوج کے سپوت بھی ان آپریشنز میں مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ دہشت گرد کیسے یہاں پرایسی کارروائیاں کر جاتے ہیں۔اس کا جواب آسان ہے کہ ان کو سہولت کاروں کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ سہولت کاری کے بغیر دہشت گردی کا ہونا ناممکن ہے۔اور پھر ہمارے پڑوس میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی آ گئی۔ ٹی ٹی پی والوں نے وہاں پر اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔ طالبان حکومت کی طرف سے ان کی مکمل پشت پناہی کی جاتی ہے۔ جس کے ثبوت اقوام متحدہ کی طرف سے بھی سامنے لائے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ صرف ثبوت دنیا کو نہ دکھائے بلکہ ان کے خلاف کاروائی کرے تو وہ زیاد ہ بہتر ہے۔ کل ہی اقوام متحدہ میں پاکستان کے قائم مقام مندوب عثمان جدون کی طرف سے کہا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی القاعدہ کی شاخ بن چکی ہے ہماری سلامتی کو ہمسایہ ممالک سے خطرہ ہے ۔ ہمسایہ ممالک میں ایک تو بھارت ہے اور دوسرا افغانستان ہے۔ ٹی ٹی پی کے حوالے سے میرا اپنا بھی تلخ تجربہ ہے۔ جن دنوں یہ پاکستان میں بڑی قوت بنے ہوئے تھے۔ شمالی وزیرستان کو نوگوایریا بنا دیا تھا۔ پاکستان کی رِٹ وہاں پر ختم ہو گئی تھی، ان دنوں میں نے ان کے منصوبوں کو، ان کے ایجنڈے کو بے نقاب کرتے ہوئے کتاب تحریر کی تھی۔ اس کے بعد ان کی طرف سے مجھے دھمکیاں دی گئیں ، میرے گھر پر ریڈ کیا گیا تو مجھے پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ اس کے بعد ان کو نکیل تو ڈال دی گئی لیکن آج پھر یہ طاقت میں آ رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ بہت زیادہ مضبوط ہو جائیں ان کا قلع قمع بہرصورت کر دینا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن