امیر محمد خان
OPFکی کاوشوں، کوششوں سے اوورسیز پاکستانیز کنونیشن ایک مرتبہ پھر میڈیا کی خبروں پرچھاکر ختم ہوگیا ، دنیابھر میں اسوقت ایک کروڑ بیس لاکھ پاکستانی موجود ہیں جو روزگار سے منسلک ہوکر پاکستانی معیشت کو ذرمبادلہ فراہم کررہے ہیں،سمندر پار پاکستانیوںکو جوبھی حکومت ہو انہیں ہمیشہ شکائت رہتی ہے دراصل وہ شکایات حکومت سے کم اور جس ملک میں وہ رہائش پذیر ہیں وہاں کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں تعینات نوکر شاہی سے ہوتی ہے جو پاکستان کے عقل کل ہیں ، ایک کہاوت کے مطابق اچھے سفارتکار جنہیں پاکستانیوں کے معاملات سدھارنے کی خواہش ہوتی ہے اور اسکے لئے محنت کرتے ہیں بقول ایک محاورے کے انکی تعداد’’آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے ‘‘گزشتہ تین روزہ کنونشن اس لحاظ سے تو بہتر تھا کہ وہاں دنیابھر سے آئے ہوئے1500 نمائندگان جس میں اکثیریت حکومتی جماعت مسلم لیگ یا پی پی پی کی تھی انہیں وزیر اعظم اور سپہ سلار کے مہمان بننے کا موقع ملا ، وزیر اعظم شہباز شریف کے خطاب میں سمندر پارپاکستانیوں کیلئے ’’ کچھ‘‘ حوصلہ افزاء باتیں تھیں جبکہ سپہ سالار کی تقریرنے مندوبین کے دل جیت لئے
حکومت پاکستان کی طرف سے اس کنونشن کے انعقاد کا مقصد باتوں کے علاوہ اوور سیز پاکستانیوں کو یہ اطمینان دلانا تھا کہ وہ ہمارے دلوں کے قریب ہیں اور ہمارے دلوں میںہیں ان کے لیے بے پناہ عزت اور پیار ہے۔ جب سمندر پار پاکستانی کسی کنونیشن میں شرکت کرتے ہیں یا کسی حکومتی اعلی شخصیت سے ملتے ہیںدنیا بھر اور ملک میں موجود پاکستانی نوکر شاہی وہ دن پریشانی میں گزارتے ہیں کہ نہ جانے کون کیا شکائت کرے گا ، جب اتنا خوف ہے تو انہیں کمیونٹی کے ساتھ خندہ پیشانی اسے پیش آنا چاہئے اپنے اہل خانہ او ر ملک سے دور محنت کشوںکا مشکل کشاء ہونا چاہیے پاکستان سے آنے والے اکابرین کو اسی خوف سے ہرملک میں کمیونٹی سے دور رکھا جاتا ہے بیرون ملک مقیم پاکستانی ہنر مندوں اور لیبرز کو بعض ممالک میں پاکستانی سفارتخانوں سے بھی متعدد شکایات ہیں اگر وزارت خارجہ اور متعلقہ وزارتیں سمندر پار پاکستانی، وزارت اطلاعات اپنے بیرون ملک افسران پر نظر رکھے تو وہ افسران صرف ملک کی بہتری اور کمیونٹی کے اتحاد کیلئے ہی کام کرینگے اکثر ممالک میںکچھ افسران کی محنت منفی انداز میں کمیونٹی میں تفرقہ پھیلانا ہوتی ہے انکی بھیجی ہوئی ’’سب اچھا کی ‘‘ رپورٹ پر اپنے قابل اعتبار ذرایئع سے اسکی سچائی کی تحقیق کرے تو بڑے معالات کھل جائینگے دفتر خارجہ اپنے سفارت خانوںاور قونصل خانوں کی ہدائت تو دل سے کرتی ہے اپنی کمیونٹی کا خیال کرو، مگر نوکر شاہی کا یہ انداز ہوتا ہے یہ وزیر ہمیشہ کیلئے تو نہیں جو ہم سے باز پرس کرے گا نیز ہم اپنے تعلق دار وزیر سے کہہ کہ وزیر خارجہ کی ناراضگی وغیرہ دور کردینگے۔ سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل معروف ہیںجیسے انکی جائیدادوں پر قبضے ، انکے بچوںکی تعلیم کیلئے ملک میں موجود تعلیمی اداروں میں داخلے ، کم قیمت رہائشی اسکیموںکے مالکان کو تنبہ کہ سمندر پاکستانیوں کو سونے کا انڈہ نہ سمجھیں وہ بہت محنت سے پیسہ کماتے ہی نہ جانے انہیں آجروںکی خوشنودی کیلئے کیا کیا کرنا پٹرتا ہوگا سمندر پار پاکستانی کمائو پوت ہیں۔ ملکی معیشت میں انکی اہمیت ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے۔ پاکستان میں اب ترقی کے دروازے کھل رہے ہیں۔ اوورسیز پا کستانیوں کوبھی ترقی کے ان مواقع میں سرمایہ کاری کرنے کی طرف راغب کرنے کے لیے خصوصی پروگرام اورمنصوبہ بندی پر توجہ دینی چاہئے۔ حالیہ کنونشن جسے پہلا کہا گیا وہ اس حکومت کا پہلا کنونیشن ضرور ہے مگر سمندر پاکستانیوںکو پہلا کنونیشن نہیں مجھے یاد ہے اس سے قبل بھی گزشتہ سالوں میں دو کنونیشن ہوچکے ہیں انکی سفارشات بھی کسی فائل میں موجود ہونگیں۔
اسٹیٹ بنک کی کل کی اعداد شما ر کے مطابق 2025ء میں اب تک سمندرپار کے محنت کشوں کا ذرمبادلہ ایک ریکارڈ اضافہ ہے خلیجی ممالک اور خاص طور پر سعودی عرب سے بھیجے جانے والا زرمبادلہ دنیا بھر کے کسی بھی ممالک سے سب زیادہ ہے اور یہ ہمیشہ ہوتاہے بہ حیثیت سعودی عرب میں بسنے والے ایک سمندر پار پاکستانی میرا اس کنونیشن کے انعقاد کرنے والی انتظامیہ سے سخت اعتراض اور گلہ ہے ، سعودی عرب سے گئے ہوئے مندوبین نے مجھے ٹیلفون پر بتایا کہ ہم وطن کی محبت میں یہاں وزیر اعظم کی دعوت پر آئے ہیں۔ سعودی عرب سے جتنا زرمبادلہ جاتا ہے نیز سعودی عرب وہ جگہ ہے جہاں سے حکومت پاکستان اور عسکری قیادت یا ملک کے خلاف کوئی سوشل میڈیاکام نہیں کررہا اسلئے توقع تھی کہ کم از کم سعودی عرب سے آئے ہوئے لوگوں کا خصوصی شکریہ ادا کیاجاتا انہیں یہ بھی امید ہے کہ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر جو اسلام آباد کنوینشن میں خود بھی موجود تھے وہ سرکاری طور پرمنتظمین تک سعودی عرب کے وفد کاشکوہ پہنچائیں۔ سعودی عرب سے گئے ہوئے بڑے بڑے ( ا ز خود ) لیڈران جنکا تعلق حکومتی جماعت سے مگر انہیں کبھی وزیر اعظم کے آس پاس نہیں دیکھا کہ اس کنونشن میں سعودی عرب سے گئے ہوئے کسی بے چارے لیڈر اور نہ ہی سرمایہ کارکو پوچھا گیا ، ہونا یہ چاہئے تھا امریکہ ، برطانیہ ، اورچند دیگر یورپی ممالک کے مندوبین کو اسٹیج دیا گیا اسی طرح سعودی عرب میں موجود پاکستانیوں کا بھی خصوصی ذکر ہی ہوتا اگر تقریر نہ بھی کرائی جاتی اس سے سعودی عرب میںکام کرنے والے پندرہ لاکھ پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند ہوتا کہ ہمارے ذرمبادلہ کو خصوصی طور پر سراہا گیا۔ بہرحال رات گئی بات گئے میں نے فیس بک پر دیکھا ہے اور جو دوست اسلام آباد گئے ہیں انہوں نے بتایا سعودی عرب اورکچھ دوسرے ممالک سے لوگ اپنے ہمراہ ٹکٹ دیکر فوٹو گرافری کیلئے کچھ لوگو ں کولے گئے تھے جو انکی اوراپنی تصاویرمسلسل سوشل میڈیا پر پوسٹ کررہے تھے یہ ہی انکی خواہش تھی۔ بہر حال کنوینشن میں سپہ سلار ، وزیر اعظم اور وزیر سمندر پار پاکستانی کی تقاریر شاندار تھیں جے سمند پار پاکستانیوںنے سراہا، سب سے خوبصورت تقریر سپہ سلار عاصم منیرکی تھی ،کنونشن کے مندوبین نے افواج پاکستان اور سپہ سالار کی لازوال کوششیں جو وہ سرحدوں پر اور ملک میں موجود دہشت گردوں ، انکے سہولت کاروںپر جو موقف اپنائے ہوئے ہیں وہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے وزیر اطلاعات نے کنونشن سے ایک روز قبل کہاتھا کہ یہ کنونشن اوورسیز پاکستانیوں اور ملک وقوم کیلئے سنگ میل ثابت ہوگا۔تالیوں کی گونج میں سپہ سلار نے تمام مندوبین کو سلام کرتے ہوئے کہا کہ میں آج بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے جذبات دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں، یقین دلاتا ہوں آپ کیلئے ہمارے جذبات اس سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔انہوں نے کہا کہ آپ صرف پاکستان کے سفیر ہی نہیں، پاکستان کی وہ روشنی ہیں جو پورے اقوام عالم پر پڑتی ہے۔انہوںنے کہاکہ پاک فوج ریاست کی سلامتی کیلئے دہشت گردی کیخلاف ڈھال بنی رہے گی آرمی چیف کا کہنا تھا کہ جو لوگ برین ڈرین کا بیانیہ بناتے ہیں وہ جان لیں یہ برین ڈرین نہیں برین گین ہے، بیرون ملک پاکستانی برین گین کی عمدہ ترین مثال ہیں۔ پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ انکا کہنا تھا کہ ہم آج مل کر واضح پیغام دے رہے ہیں، جو پاکستان کی ترقی کے راستے میں حائل ہوگا ہم مل کر اْس رکاوٹ کو ہٹادیں گے۔سپ سالامندوبین کے ہمراہ ملک پرجوش نعرہ لگایا۔ ’’پاکستان ہمیشہ زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا۔