شاہینوں کی فتح کا قصہ

اندھیروں کے سناٹے میں لپٹا ہوا رات کا لمحہ۔اس رات خاموشی صرف فضا میں نہیں محسوس ہو رہی تھی بلکہ عالمی طاقتوں کے عقل و دانش میں بھی اتر چکی تھی۔ بھارتی فضائیہ کے بیس پر اچانک ہنگامی سائرن بجنے لگے ائیر ٹریفک کنٹرول کی سکرین پر چند لمحوں کے لیے سب کچھ منجمد ہو گیا۔ایک کے بعد ایک جگمگاتے نقطے اچانک غائب ہونے لگے۔ ان میں سے تین تھے رافیل فرانس کا فخر بھارت کا غرور اور دنیا کے اسلحہ مارکیٹ کا قیمتی تاج۔پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے یہ طیارے مار گرائے۔دنیا نے پہلے پہل اس خبر کو مذاق سمجھا مگر پھر فرانس کی خفیہ ایجنسی نے سی این این کو بتایا کہ ہاں رافیل واقعی گر چکا ہے۔یہ محض ایک جنگی کارنامہ نہیں تھا بلکہ ایک بیانیے کا انہدام تھا۔رافیل جسے کبھی ناقابل تسخیر سمجھا گیا اب جلی ہوئی دھات کے ٹکڑے کی صورت میں کشمیر کے پہاڑوں میں پڑا تھا اور فرانس کے ایوانوں میں ایسی خاموشی تھی جیسے کوئی خوفزدہ تاجر جو اپنی مہنگی ترین شے کے ناکام ہونے کے بعد یہ بات سوچتا ہے کہ کیا وہ یہ مال واپس مانگ لے گایا کیا بھارت اب اپنی فضائی دیواروں میں شگاف چھپانے کی کوشش کرے گا اور کیا پاکستان جسے اکثر دفاعی سطح پر محض رد عمل دینے والا سمجھا جاتا ہے اب وہ کھلاڑی بن چکا ہے۔جو پیش قدمی بھی کر سکتا ہے اور دشمن کے گھر کے اندر پہنچ کر سبق بھی سکھا سکتا ہے۔ یہ کہانی صرف ایک میزائل کی نہیں ایک کہانی ہے طاقت کے توازن کی اعتماد کے بکھرنے کی اور اس لمحے کی جب ایک جدید ہتھیار ایک خاموش پیغام بن جاتا ہے کہ اب تم محفوظ نہیں ہو نہ آسمان میں نہ زمین پر۔ یہ کہانی اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں جنگ صرف گولی بارود اور سرحدی جھڑپوں کا کھیل نہیں رہی بلکہ جدید ٹیکنالوجی اور ذہانت کے امتزاج نے جنگ کے تصور کو ہی بدل دیا جب پاکستان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے بھارتی فضائیہ کے پانچ لڑاکا طیارے تباہ کیے اور وہ بھی بھارت کی فضائی حدود کے اندر تو دنیا چونک جاتی ہے کیسے ممکن ہوا سوال اٹھنے لگتے ہیں کہ ایک ایسا ملک جس پر مسلسل دباؤ اور پروپیگنڈے کا بوجھ لادا گیا تھا دشمن کے دل میں گھس کے وار کرے اور بچ کے نکل آئے اس سوال کا جواب پاکستان کے جدید میزائل اور اس کے ساتھ جڑی ہوئی پیش رفت جدید سسٹم میں چھپا ہے اور وہ جدید میزائل ہے پی ایل 50 یہ میزائل نہ صرف دشمن کے ریڈار سے دور رہ کر اپنے ہدف کو تلاش کرتا ہے بلکہ دو سو کلومیٹر سے بھی زائد فاصلے پر موجود طیارے کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مکمل خاکہ کچھ یوں ہے کہ بہت سارے لوگ یہ کہتے ہیں کہ 80 طیارے تھے جواب میں ادھر سے 15 / 20 طیارے تھے وہ 80 طیاروں کا مقابلہ کرتے ہیں پانچ طیارے مار گراتے ہیں وہ خود بھی بچ کے واپس آجاتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے؟ تو جناب یہی وہ فرق ہے جو پاکستان کی فضائی دفاع کو صرف ایک ری ایکٹو سسٹم نہیں بلکہ ایک سٹریٹیجک Afensive فورس میں تبدیل کر دیتا اور اس کامیاب حملے کی کڑی جو ہے وہ گزشتہ واقعات سے بھی جڑتی ہے جو بھارتی رافیل طیارے گرائے گئے اور دنیا نے پاکستان کے جے ایف 17 تھنڈر کو اور اسکے چینی شراکت دار کے ہنر کو تسلیم کیا اس کے بعد فرانس کی دفاعی کمپنی کے شیئرز کا گرنا بھارتی اعتماد کو متزلزل ہونا اور اندرونی خلفشار کا بڑھنا ایک ایسی کہانی میں بدل چکا ہے جو صرف محاذ جنگ پر نہیں بلکہ عالمی منڈیوں سفارتی میزوں اور دفاعی پالیسیز پر اپنی گونج چھوڑ رہی ہے اب جب پاکستان دشمن کی فضاؤں میں بیٹھے جہاز کو گرانے کی بات کرتا ہے تو یہ محض دعویٰ نہیں یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی گواہی دشمن کا جھکا ہوا سر خود دے رہا ہے۔ پاکستان کی فضائی صلاحیتوں میں ایک ایسا انقلابی موڑ آیا جس نے پورے خطے میں طاقت کا توازن بدل کے رکھ دیا اور اس تبدیلی کا مرکزی کردار پی ایل 15 میزائل ہے جو چین کے جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے اور اب جے ایف 17 تھنڈر بلاک تھری جیسے پاکستانی لڑاکا طیاروں کا اہم ہتھیار بن چکا ہے یہ میزائل صرف ایک لمبے فاصلے تک مار کرنے والا ہتھیار نہیں بلکہ چالاک، خود کار اور دشمن کو حیران کرنے والا نظام ہے۔جو دو سو کلومیٹر سے بھی زیادہ فاصلے پر موجود دشمن کے طیارے کو تلاش کر کے عین نشانے پر لگنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس کی سب سے بڑی طاقت اس کے اندر نصب جدید اے ای ایس اے ریڈار سسٹم اور انرشن نیویگیشن جو میزائل کو پرواز کے دوران مسلسل ہدف کے قریب لاتا ہے چاہے دشمن تیز رفتاری سے مقام تبدیل کرتا رہے یا ریڈار سے غائب ہونے کی کوشش کرے۔ جیسے بھارت کے رافیل طیاروں نے کی، پی ایل 15 کی زد میں یہ جو رافیل آئے ہیں اسے جدیدیت کا نشان سمجھا جا رہا تھا۔ لیکن پی ایل 15 کی زد میں ا آکے یہ دھول چاٹ چکے۔ دنیا نے دیکھا کہ جب پاکستانی طیاروں نے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو کے فضا میں پنجہ آ زمائی کی تو فرانسیسی ٹیکنالوجی بے بس نظر آئی یہی وہ لمحہ ہے جب جنگی صلاحیت صرف ہتھیار کی نہیں بلکہ ذہانت فیصلہ سازی اور ٹیکنالوجی کی ہم آہنگی کا امتحان بن جاتی ہے۔ (جاری) 

 اب پی ایل 15 صرف ایک میزائل نہیں بلکہ علامت بن چکا ہے اس نئے پاکستان کی جو نہ صرف دفاع میں خود کفیل ہے۔ بلکہ دشمن کی زمین اور فضا میں جھانک کر اسے وقت سے پہلے حیران کر سکتا ہے۔ جب جنگ محض توپ و تفنگ کا کھیل نہیں رہتی بلکہ عقل حکمت عملی اور سائنسی مہارت کی جنگ بن جاتی ہے۔ بھارتی فضائیہ کے ایس ای او 30 جیگوار یا رافیل جیسے طیارے جب سرحد کے قریب پٹھان کوٹ برنالہ یا بٹھنڈہ کے اندرون سے پرواز بھرنے لگتے ہیں تو پاکستانی فضائی دفاعی نظام خاموش تماشائی نہیں رہتا۔بلکہ متحرک آنکھ بنتا ہے زمین پر بکھری ہوئی ریڈار پکٹس،فضاؤں میں گشت کرتے ایواکس طیارے اور زیر زمین نصب جدید سینسرز مل کے دشمن کی ہر حرکت کو سینکڑوں کلومیٹر دور سے محسوس کر رہا ہے یہ نیٹ ورک دشمن کی پرواز کی سمت،اونچائی،رفتار اور فاصلہ مسلسل مانیٹر کرتا ہے۔ اور جیسے ہی دشمن کا طیارہ اس فاصلے میں داخل ہوتا ہے جہاں پی ایل 15 میزائیل اثرانداز ہو سکتا ہے ایک خاموش مگر مہلک رد عمل تشکیل پانے لگتا ہے۔

 جے ایف 17 تھنڈر بلاک تھری طیارہ ہے جو پی ایل 15 سے لیس ہوتا ہے یہ دشمن سے محفوظ فاصلے پہ رہتے ہوئے میزائل کو فائر کرتا ہے مگر یہ فائرکوئی اندھا فائر نہیں ہوتا۔لوگ سمجھتے ہیں کہ اتنا نشانے پہ فائر کیسے لگ سکتا ہے کیونکہ رافیل فوری پلٹ سکتا ہے، وہ ریڈار کو چکما دے سکتا ہے،تو یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ فائر کریں اور سیدھا ہی جا کے اسے لگے، یہاں پہ پی ایل 15 کی خاصیت بتانے کی ضرورت ہے۔ جہاں پہ میں لکھ رہی ہوں جے ایف 17 تھنڈر کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ادھر کیا ناکامی تھی یہاں پہ پی ایل 15 جو ہے اسے انبیکٹ بہت بہتر طریقے سے جے ایف 17 تھنڈر کے ساتھ کیا گیا، کیونکہ اس کی فائرنگ جو ہے وہ اندھا وار نہیں ہے بلکہ ہر لمحے کی اپڈیٹ،ہر زاویے کی خبر،میزائل کو مل رہی ہوتی ہے۔ ابتدائی طور پہ یہ میزائل جو ہیں اپنے طیارے سے ڈیٹا لنک کے ذریعے مسلسل رہنمائی لیتے ہیں اور جیسے ہی وہ ہدف کے قریب پہنچتا ہے اس کا اپنا ایکٹو ریڈار آن ہو کے آخری کاری ضرب لگا گیا، یہی وہ لمحہ تھا جو دشمن پائلٹ کو آمد کا پتہ نہ چلا اور طیارہ ہوا میں جلتا ہوا زمین پہ گرا،یہ صرف پی ایل 15 کی فتح نہیں ہے بلکہ پورے ڈیفنس ایکو سسٹم کی اجتماعی ذہانت ہم آہنگی اور تربیت کی فتح ہوئی ہے۔ جو دشمن کے بہترین ہتھیار کو بھی بے بس کر گئی۔ یہی وہ نقطہ تھا جہاں جنگ کے روایتی تصور کی دیواریں ٹوٹ گئیں اور جنگ ایک مکمل طور پہ غیر مرئی اور ڈیجیٹل دائرے میں داخل ہوئی، جب پاکستان نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے بھارتی فضائی حدود کے اندر دشمن کے پانچ طیارے تباہ کیے تو یہ محض پراپیگنڈا نہیں تھا بلکہ ایک جدید مربوط اور ریل ٹائم ٹیکنالوجی کی بنیاد پہ قائم دعویٰ تھا جیسے ہی پی ایل 15 میزائل نے ہدف کو نشانہ بنایا زمین پر موجود ریڈار پکٹس اور سگنل انٹیلیجنس کے آلات فوری طور پہ اس تبدیلی کو نوٹ کرتے رہے، ایک لمحہ پہلے جو طیارہ 800 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے فضا میں حرکت کر رہا تھا وہ اچانک غائب ہوتا ہے، نہ رفتار،نامقام، نہ آواز سب کچھ خاموش یہی خاموشی سب سے بڑی گواہی، اکثر اوقات دشمن کے پائلٹ جو ہیں وہ خود ہنگامی ڈسٹرس سگنلز بھیج دیتے ہیں۔ جو پاکستانی انٹیلیجنس سسٹم فوری طور پہ انٹرسیپٹ کرتی ہے۔ یہ پیغام اس بات کی تصدیق تھی کہ واقعی کچھ غلط ہوا، کبھی کبھار بھارتی ائیر بیس سے اچانک ریسکیو ہیلی کاپٹرز کی روانگی یا کوئی مخصوص نو فلائی زون کا اعلان بھی صورتحال کی تصدیق کر دیتا ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جہاں میزائل اور ڈیٹا ریڈار اور خاموش سگنلز ہر ایک حرکت دشمن کی تباہی کا ثبوت بنا۔ انسانی آنکھ کچھ نہ دیکھے تب بھی زمین پر موجود ٹیکنالوجی اور فضا میں گشت کرتے نادیدہ نظام دشمن کے ہر نقصان کو بے نقاب کرتے ہیں اور یوں بھارت کے دل میں موجود ائیر بیس تک غیر محفوظ بن جاتے ہیں،نہ صرف فزیکلی بلکہ نفسیاتی طور پر بھی، یہی لمحہ تھا جب عالمی سیاست،عسکری توازن اور اسلحے کی منڈی تینوں ایک ساتھ لرز اٹھے۔فرانسیسی انٹیلیجنس کے اعلی آفیسر نے کیبل نیوز سے نیٹ ورک یعنی سی این این کو یہ تصدیق کی کہ بھارتی فضائیہ کا ایک رافیل طیارہ پاکستانی حملے میں تباہ ہوا۔ ایک کمپنی یا وہ ملک جس کا فخر جس کا غرور ایک طیارہ ہو اور وہ خود ہی اس کا اعتراف کرے کہ ہاں مار گرایا گیا تو ان کے لیے کتنا بڑا دھچکا تھا۔

ای پیپر دی نیشن