انڈیا کا بھرم چکنا چور ہو گیا بزعم خود چودھری بنا پورے ریجن پر حکمرانی کے خواب دیکھنے والے کی سر عام ؟؟؟ بھلے کچھ دن لگ گئے جواب دینے میں مگر کمال کر دیا میری ’’بہادر فوج‘‘۔چُنیدہ اہداف کی لسٹ سُن کو دل عش عش کر اُٹھا۔ پاکستان کی بے مثال برداشت۔ صبر نے بھی ’’ہندو توا‘‘ کے کھولتے دماغ کو ٹھنڈا نہیں کیا بالاآخر اُن کی خود تراشیدہ جعلی فتح کو ایک ہی جھٹکے میں میری پیاری ’’فوجی قیادت‘‘ نے بھک سے اُڑا دیا۔ صد شکر ہمارے تمام ’’شاہین‘‘ فتح کا ایمان پرور جھنڈا لہراتے ہوئے پاک وطن میں محفوظ سلامت لوٹ آئے تمام قوم کو مبارکباد۔کل تک ہم اُن کی نظر میں گومگو کیفیت میں تھے آج ’’فاتح‘‘ ہیں۔ مذاکرات کی میزجب بھی سجے گی ہماری پوزیشن ’’واضح فاتح ‘‘ کی ہوگی۔
کچھ دن پہلے دل پُریقین تھا کہ ’’صدر ٹرمپ‘‘ تصادم کی نوبت نہیں آنے دینگے کیونکہ اُن کا منشور ہی یہی تھا کہ وہ دنیا میں جنگوں کو ختم کر کے امن قائم کریں گے ۔ الزامات کے عروج میں ’’نائب صدر‘‘ کے انتہائی متنازعہ بیان نے ہماری قوم کو ناراض کیا۔ لڑائی شروع ہو گئی کچھ نہیں کہا جب ’’بھارتی طیارے‘‘ گرائے گئے تو فوراً امریکی سیکرٹری خارجہ نے رابطہ کر کے امن پر زور دیا مگر امن کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ جونہی جارحیت نے ’’ڈرونز‘‘ کی صورت میں شدت پکڑی تو نائب صدر کا مِلا جُلا بیان آگیا یعنی امن بھی چاہیے مگر دخل نہیں دینا۔ اچھے نہیں معلوم ہوئے الفاظ کہ جس جنگ سے ہمارا لینا دینا نہیں ہم کیوں کہیں کہ اُسے روک دیں۔ آج یعنی 10مئی (10مئی کو ہی کالم لکھ لیا تھا ) کو بھارتی فضاؤں ۔ برقی نظام کو اپنی گرفت میں لیتے ہمارے بے مثل ایکشن سامنے آئے تو پھر سیکڑری خارجہ نے ہمارے ’’بہادر سپہ سالار‘‘ کو فون کر دیا۔ نائب وزیر اعظم کو فون کھڑکا دیا۔ مطلب یہ کہ جب نظر آگیا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ دو دن پہلے ثالثی سے یکسر منکر ہماری ایمانی طاقت دیکھ کر خود ہی ثالثی پر اُتر آئے ۔ بلاشبہ جنگ کا مطلب مکمل تباہی ہے کاش ’’ہندو ذہن ‘‘ اِس مطلب کو اب ہی سمجھ لے۔ اربوں انسانوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگاتے پاگل پن سے باز آجائے ۔ انڈیا بھی امن چاہتا ہے مگر مار کھانے کے بعد اور وہ بھی عارضی طور پر بچت واسطے ۔
’’اللہ رحمان ۔ رحیم ۔ کریم‘‘ کے فضل سے ہمیں فتح نصیب ہوئی ۔ دشمن کی سرزمین پر سناٹے چھائے ۔ رات کی تاریکی میں ہمارے معصوم لوگوں ۔ بچوں کو شہید کرنے والوں کے ناموں پر شروع ہونے والی جوابی کاروائی نے دن کی روشنی دشمنوں پر اندھیرا کر دی۔ تاریکی کا مقدر دفن ہے روشنی کا سفر ابدی زندگی ہے نتائج انجام دنیا کے سامنے ہے چاہے انڈیا دن میں لاکھوں مرتبہ روئے دھوئے ۔2005سے مسلسل اسلحہ کے انبار لگانے میں مصروف ملک کی سازشیں ۔ ہتھکنڈے ۔ ظلم ۔ جبر ۔ سالانہ ’’90ارب ڈالرز‘‘ دفاع پر خرچ کرنے والا۔ اُس کے عزائم ۔ کیا اب بھی کوئی پوشیدہ امر ہے ’’اللہ کریم‘‘ کی مدد تو شامل حال ہونا تھی ’’شہیدوں‘‘ کے لہو کی لاج رکھنا تھی ہمارے ’’پیارے رب رحمان ۔ رحیم ۔ کریم‘‘ نے ۔
’’جنگ کے فوائد‘‘
چین کے مقابلہ میں انڈیا کو طاقت بنانے کی کوششوں ۔ خواہشات کو سخت زد لگی۔ ’’طاغوتی اکٹھ‘‘ اُس کو بڑی اقتصادی ۔ عسکری قوت کے طور پر منوانے کے خبط میں مبتلا تھا۔ دنیا بھر میں پاکستان کو ناکام ریاست اور دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنا کر پیش کرنے والا ’’چند گھنٹوں ‘‘ میں ڈھیر ہوگیا ۔ وہ بھلا دنیا کی سب سے مضبوط۔ متحد ۔ سمجھدار قوم ’’چائنا‘‘ کا مقابلہ کیسے کر سکے گا ؟؟سب طاقتوں کی خوش فہمی ۔ پلاننگ ہمارے ’’5گھنٹوں ‘‘ کی فتح میں ڈوب گئی۔ مستقبل قریب میں کوئی بھی ہم کو ناجائز دبانے ۔ ڈرانے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ ہمیشہ کی طرح ’’چین‘‘ کے دوٹوک ۔ مضبوط موقف ۔ ابہام سے پاک ہمارے ساتھ وابستگی کے اظہار نے حالات کا رخ بدل دیا۔ آنے والے دنوں میں بہت سارے ’’ملفوف حقائق‘‘ ضرور آشکار ہونگے جو
ساری تصویر کو سمجھنے میں بیحد معاون استاد جیسی ذِمہ داری کا کردار ادا کریں گے۔ عوام کا ساتھ ۔ عوام کی طاقت کے بغیر کوئی بھی حکومت نہ جنگ جیت سکتی ہے نہ امن کے ایا م میں اپنی سرگرمیاں واضح طور پر نبھانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ انڈین جارحیت دوسرے دن پھر ننگی در اندازی ۔آخر ہم جواب کیوں نہیں دے رہے ؟؟ حتیٰ کہ غلظ بیانیہ معروف ہوگیا کہ طے شدہ سکرپٹ ہے۔ ٹوپی ڈرامہ ہے صد شکر بزدل قوتوں کو صحیح مار پڑی تو غلط سوچوں کو بھی شکست اُٹھانا پڑ گئی پر کیا کریں ہماری ذہنی اُیج ہی ایسی ہے کہ جس دن پاکستان نے انڈیا کو دھویا سارا دن بھنگڑے ڈالتے ۔ مٹھائیاں کھلاتے رہے ۔ عوام کو جوابی کاروائی کا خدشہ تھا ایسے میں ’’سیز فائر‘‘ کی اطلاھع ملی تو پھر سوچ پیدا ہوئی اتنا بڑا نقصان ’’مودی‘‘ کیسے سہہ گیا ؟؟ شبہات کی بھرمار۔ پاکستان کے پاس صرف ’’3دن‘‘ کا ایندھن ۔ انڈیا بہت بڑی طاقت ۔ ہم لمبی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے گویا کہ پہاڑ تھا شکوک ۔ بد یقینی کا ممکن نہیں کہ پوری قوم بیک وقت غلط رُخ کا شکار ہو جائے ۔ انتشار پھیلاتے ۔ تفریق کو گہرا کرتے مواد پر متفق ہو جائے ایک ہی وقت میں اکثریتی طبقہ کے اذہان میں یکساں سوالات پیدا ہوئے جنہوں نے جلد ہی جگہ گھیر لی کہ اتنی زیادہ تعداد میں ڈرونز کیسے اندر گُھس آئے ؟ ہم کیا کر رہے ہیں ؟ہمارا صبرپھر عوامی تشویش کو اُبھارتے سوالات ۔ ہر زاویہ کو ’’پالیسی میکرز‘‘ نے بغور مانیٹر کیا بالاآخر عوامی خواہش غالب رہی کیونکہ عوام کا نام ہی ریاست ہے۔ جنگ سے پاکستان بدل گیا ہم ایک ہو گئے۔ تقسیم ختم ہوگئی ہم نئی بہادر قوم میں ڈھل گئے ۔ مڈل ایسٹ ۔ بیرونی دنیا میں جو سلوک ہم سے ہو رہا تھا اب وہ خودبخود ہماری عزت میں بدل جائے گا ۔ پوری اسلامی دنیا کے لیے پاکستان ایک ’’بڑی اُمید‘‘ بن کر اُبھرا ہے۔ چین ہمارا ازلی دوست ۔ ’’5 گھنٹے ‘‘ کی لڑائی میں دشمن کا حشر چائنا کو اقتصادی طور پر بہت زیادہ فوائد فراہم کرے گا۔ ہم پہلے سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ میز پر بلوچستان ۔ کشمیر ۔ پانی جیسے مسائل کو ’’بطور فاتح‘‘ لیکر بیٹھیں ۔ اِس تصویر کے ساتھ کہ پوری دنیا میں ہمارے حق میں ’’موثر طاقتوں‘‘ کی آوازنہیں اُٹھی ۔ ہماری مار نے انڈیا کو ادھ موا کیا تب اُن طاقتوں نے انڈیا کو ’’ریسکیو‘‘کیا ۔ قارئین اہم ترین نکتہ نوٹ کر لیں یہ جیت صرف ایک ملک کے خلاف نہیں بلکہ اُس کے ساتھ خفیہ و ظاہر جڑے اتحاد کے خلاف حاصل ہوئی ۔
کشمیر تنازعہ حل کروانے کا امریکی عزم قابل تحسین‘ پر حل وہی تاریخ ۔ حالات کو منظور ہوگا جو کشمیریوں کی دلی آرزؤں کو پُورا کرتا ہو۔ اِس معاملہ میں اب قطعاً سمجھوتہ کی گنجائش نہیں قدرت کی طرف سے پاکستان کو بہت زیادہ مواقع ملے ہیں ہمیں تمام کارڈز کو بروقت ۔ صحیح سمت میں کھیلنے کی ضرورت ہے یہ موقعہ دوبارہ نہیں ملے گا۔ ’’چین‘‘ ۔ افغانستان کے تعلقات خلوص مانگتے ہیں ہماری خارجہ پالیسی بڑے بولڈ فیصلوں کو مانگتی ہے۔ ضرور حالات کے مطابق عمل کرنا چاہیے ۔ دشمن بہت مکار ۔ دغا باز ہے ۔ باز نہیں آنے والا۔ ہر طرح سے بھرپور تیاری ہماری ضرورت ہے۔ پاکستان کو ’’اسلحہ سازی‘‘ کے ذریعہ’’اربوں ڈالرز‘‘کمانے کا نادر موقع میسر ہوا ہے اپنے مخلص دوستوں کے ساتھ شراکت داری کو مزید گہرا ۔ موثر بنایا جائے۔ بلاشبہ پہلے بھی دنیا میں ہمارے بنائے اسلحہ کی مانگ ہے مگر اب جیت نے مزید ترقی ۔ مانگ کی سند ثبت کر دی ہے تو فائدہ اُٹھایا جائے۔ مصنوعی ذہانت کے جدید ترین ادارے قائم کرنے کی طرف بڑھیں ۔ بلکہ مصنوعی ذہانت کو قومی سیلبس کا لازمی مضمون بنا دیں۔ آگے بڑھیں یہ سنہری وقت ہے ہمارا۔