یہ نعرہ ’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘ عمومی طور پر ایک مخصوص ذہن کی خواتین اپنے حقوق ، مادر پدر آزادی اور خود مختاری کے مطالبے کے طور پر پیش کرتی ہیں ، تاہم اس نعرے کی تشریح اور اس کے پس بردہ مقاصد پر مختلف نقطہء نظر پائے جاتے ہیں ، جن میں کچھ خواتین اس نعرے کو جنسی ہراسانی ، گھریلو تشدد ، زبر دستی کی شادی اور دیگر نا انصافیوں کے خلاف ایک مئوقف کے طور پر استعمال کرتی ہیں ، ان کے مطابق یہ نعرہ اس حق کی علامت ہے، کہ خواتین کو اپنے جسم اور زندگی کے فیصلے خود کرنے کا اختیار ہونا چاہئے ۔
مغربی فکری اثرات سے متاثرہ خواتین کے متعلق کچھ حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نعرہ مغربی ’’ نسوانیت پسندی ‘‘سے متاثر ہو کر اپنایا گیا ہے ، اور بعض خواتین اسے معاشرتی روایات اور اقدار سے بغاوت کے طور پر استعمال کرتی ہیں ، ان کے مطابق اس نعرے کے کچھ پہلو اسلامی و مشرقی اقدار سے متصادم ہیں ،یہ نعرہ مختلف سیاق و سباق میں مختلف تشریحات رکھتا ہے ، اور اس کا انحصار بولنے والی عورت کے خیالات ، ارادوں اور پس منظر پر ہوتا ہے ، بعض حلقوں میں اسے مشرقی روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف تصور کیا جاتا ہے ، جب کہ اسلامی معاشرے میں اس نعرے کا مطلب فحاشی کے زمرے میں آتا ہے ، اسلامی معاشرے میں جسم اور اس کے حقوق کا ایک واضح دینی اور اخلاقی پہلو ہے ، اسلام میں عورت اور مرد دونوں کے لئے پاک دامنی ، حیاء اور نکاح کے زریعے جائز تعلقات کو اہمیت دی گئی ہے ۔
میرا جسم میری مرضی جیسے نعروں کی جو تشریحات اسلامی تعلیمات کے خلاف جاتی ہیں ان پر یقینی طور پر تنقید کی جا سکتی ہے ، اسلام میں نکاح کے بعد مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے حقوق کے پابند ہوتے ہیں اور کوئی بھی اپنی مرضی سے غیر شرعی تعلقات قائم کرنے کا مجاز نہیں ہوتا ، البتہ اگر اس نعرے کا مطلب خواتین کے بنیادی انسانی حقوق ، عزت اور زبر دستی کے خلاف آواز اٹھانا ہو ، جیسا کہ ہراسانی، گھریلو تشدد ۔ یا جبری شادی کے خلاف تو ایسی تشریحات کو اسلامی اقدار کے دائرے میں رہ کر سمجھا جا سکتا ہے اور اگر اس کا مطلب آزادانہ جسمانی تعلقات ، بے راہ روی ، یا اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہو تو یہ یقینی طور پر فحاشی کو ترغیب دینے کا سبب ہے ، اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ۔اس مسئلے پر معاشرے میں دو رائے پائی جا تی ہیں بعض لوگ اس نعرے کو جائز حقوق کے لئے استعمال کرتے ہیں جب کہ کچھ اسے بے حیائی اور معاشرتی بگاڑ کا جوا ز سمجھتے ہیں ، لہذا کسی بھی نعرے یا تحریک کو سمجھنے کے لئے اس کے اصل مفہوم اور نیت کو پرکھنا ضروری ہے ، کیونکہ اس نعرے سے منسلک خواتین کے ہاتھوں میں جو پلے کارڈ دیکھے گئے وہ حتمی طور پر حیا ء اورعورت کی تعزیم کی نفی کرتے ہیں ، یہ نعرے اور پلے کارڈ ز بلاشبہ فحاشی اور بے حیائی کی حدوں کو پار کر گئے ہیں ، اور اسلامی معاشرے میں ان کی کوئی گنجائش نہیں ، اسلام نے عورت کو عزت اور پاک دامنی کا درس دیا ہے اور ایسے نعرے نہ صرف اسلامی اقدار کے خلاف ہیں ، بلکہ مشرقی روایات اور خاندانی نظام کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں ۔
حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو کچھ عناصر آزادی نسواں کے نام پر مادر پدرزادی اور بے راہ روی کو فروغ دینے میں ملوث ہیں ، جو کہ اسلامی تعلیمات کے بالکل بر عکس ہے ، لیکن یہ جس آزادی کی خواہاں ہیں وہ شریعت کے دائرے میں ہے نہ کہ مغربی فکری اثرات کے تحت بے حیائی کی ترغیب دینے کے لئے ، جو لوگ ایسے نعروں کے زریعے عورت کی عزت کو داغدار کرتے ہیں وہ در حقیقت نہ صرف مذہبی بلکہ سماجی اور اخلاقی اصولوں کو بھی پامال کرنے کے مر تکب ہیں ، ایک صالح معاشرے کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ ایسے غیر اخلاقی رجحانات کی بیخ کنی کی جائے اور خواتین کو ان کے حقیقی اسلامی حقوق اور مقام کی طرف رہنمائی کی جائے ۔
جو خواتین میرا جسم میری مرضی کا نعرہ بلند کرتیں ہیں دراصل وہ بے حیائی کی رغبت رکھتے ہوئے جذبات کی رو میں بہہ جاتی ہیں ،ایسی خواتین جان لیں کہ
نہ جسم تیڈا نہ جان تیڈی
اے ترکہ رب رحمان د ا ہے
اوندے حکم بغیر تو بے وس ہے
اے فیصلہ پڑھ قرآن دا ہے
میڈے جسم تے میڈی مرضی ہے
اے وہم گمان انسان دا ہے
تیڈی روح ہے شاکر مالک دی
تیڈا ڈھانچہ قبرستان دا ہے
یہ بات واضح ہے کہ کچھ خاص نظریاتی گروہ اور غیر ملکی این جی اوزخواتین کے حقوق کے نام پر ایسی تحریکوں کو فروغ دے رہے ہیں جن کا مقصد اسلامی اور مشرقی اقدار کو کمزور کر کے ’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘ جیسے نعروں کو تقویت دے کر معاشرے میں بے راہ روی کو فروغ دینا ہے ، یہ نعرہ خواتین کی آزادی کی نفی کرتا ہے نلکہ معاشرے میں بے حیائی کا موجب بنتا ہے ، اس کے بر عکس اگر صرف خواتین کے بنیادی حقوق ، تحفظ اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے تک محدود رکھا جاتا تو شائد یہ اتنا متنازع نہ ہوتا لیکن جب اس نعرے کے تحت فحش ،بے حیائی اور برہنہ نعروں پر مبنی پلے کارڈ اٹھائے جاتے ہیں اور خاندانی نظام کو چیلنج کیا جاتا ہے تو یہ واضح ہے کہ اس کے پیچھے بے راہ روی اور فحاشی کا ایک منظم ایجنڈا موجود ہے ۔
بعض مغربی قوتیں اور این جی اوز دنیا بھر میں ’’ نسوانیت پسندی ‘‘ ( فیمینزم )کے نام پر روایتی خاندانی نظام کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہیں ، اور مسلم ممالک میں یہ کوشش خاص طور پر زیادہ شدت سے جاری ہے ، ان کا مقصد عورت کو آزادی کے نام پر بے راہ روی کی طرف دھکیلنا ہے ، تاکہ وہ روایتی اسلامی اصولوں کو ترک کر دیں ، دیکھا گیا ہے کہ کچھ سیاسی اور حکومتی عناصر براہ راست یا بالواسطہ طور پر ایسی تحریکوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں ، بعض سیاسی جماعتیں اور حکومتی ادارے بین الاقوامی دبائو ، این جی اوز کے اثر رسوخ یا مغربی امداد کے حصول کی خاطر ان نعروں اور سرگرمیوں کو سپورٹ کرتے ہیں ، ممکنہ طور پر یہ کوئی اتفاقی معاملہ نہیں بلکہ ایک منظم حکمت عملی کا حصہ ہے ، کئی مرتبہ دیکھا گیا ہے کہ حکومت میں شامل کچھ افراد عورت مارچ جیسے پروگراموں کی نہ صرف حمایت کرتے ہیں بلکہ انہیں سیکورٹی اور وسائل بھی فراہم کرتے ہیں، جب کہ دوسری طرف اگر کوئی اسلامی یا روایتی اقدار کے مطابق بات کرے تو اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا تا ہے، یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں آئین اور قانون اسلام کے اصولوں پر مبنی ہے وہاں ایسی سرگرمیوں کو جگہ دی جا رہی ہے ، اس کے خلاف عوامی شعور بیدار کرنا اور اسلامی اقدار کو مضبوط کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔