علامہ منیر احمد یوسفی
اُم المومنین حضرت سیّدہ خدیجہؓ کے وصال کا نبی کریم کو بہت صدمہ پہنچا۔ ایک روز نبی کریم گھر میں تشریف فرما تھے کہ حضرت خولہ بنت حکیمؓ حاضر ہوئیں اور عرض کیا‘ یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں‘ آپ دوسرا نکاح فرما لیں۔ حضور نے دریافت فرمایا: کس سے؟ تو حضرت خولہ بنت حکیمؓ نے عرض کیا‘ یارسول اللہ کنواری اور بیوہ دونوں طرح کی عورتوں کے رشتے موجود ہیں۔ جیسے آپ پسند فرمائیں۔ حضور نبی کریم کے دریافت کرنے پر خولہ بنت حکیمؓ نے عرض کیا‘ بیوہ تو حضرت سودہؓ ہیں جبکہ کنواری خاتون (سیّدنا) ابوبکر صدیقؓ کی صاحبزادی سیّدہ عائشہ صدیقہؓ ہیں۔ چنانچہ وہ حضور کی حسبِ منشاء(سیّدنا) ابوبکر صدیقؓ کے گھر گئیں اور اُن سے (سیّدہ) عائشہؓ کے نکاح کے سلسلہ میں بات کی۔ اُس وقت عرب میں یہ دستور تھا کہ منہ بولے بھائیوں کی اولاد سے شادی نہیں کی جا سکتی تھی۔ حضرت خولہ بنت حکیمؓ نے واپس آ کر نبی کریمؓ کو آگاہ کیا اور ان سے اس بارے میںہدایت طلب کی۔ نبی کریم نے فرمایا: ( حضرت) ابوبکرؓ میرے دینی بھائی ہیں اور اِس قسم کے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز ہے۔ کیونکہ اُس دوران حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کی نسبت جبیر بن مطعم کے بیٹے سے طے بھی ہو چکی تھی، لہٰذا حضور نے حضرت سیّدہ سودہ بنت زمعہؓ سے شادی کر لی۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے جبیر بن مطعم سے جا کر پوچھا کہ تم نے (سیّدہ) عائشہؓ کی نسبت اپنے بیٹے سے کی تھی‘ اَب کیا خیال ہے؟ جبیر بن مطعم نے یہ کہتے ہوئے کہ میں نہیں چاہتا کہ (سیّدہ) عائشہؓ کے گھر میں آنے سے میرے گھر میں اِسلام داخل ہو۔“ اُنہوں نے حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے شادی کرنے سے اِنکار کر دیا۔ جب جبیر نے حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے اپنے بیٹے کی شادی کرنے سے اِنکار کر دیا تو حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت خولہ بنت حکیمؓ کے ذریعے حضور کو اس مطلع کیا۔ چنانچہ نبی کریمؓ نے ماہِ شوال المکرم میں 500 درہم حق مہر کے عوض حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے نکاح فرما لیا۔
اُمّ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ بچپن سے ہی بڑی ذہین تھیں۔ اِن کی معاملہ فہمی اور پاس ادب کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی نبی کریم ‘ حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ سے ملنے کےلئے تشریف لے جاتے تو نبی کریم کو دیکھتے ہی اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ اپنی سہیلیوں کی محفل برخاست کر دیتیں اورکھلونے بھی چھپا دیتیں لیکن حضور اِس معصومانہ اِہتمام سے ازحد مسرور ہوتے اورکمالِ شفقت سے دوسری بچیوں کو واپس بلا کر کھیلنے کےلئے کہتے۔ (مشکوٰة ص 280)
اُمّ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ‘ نبی کریم کے حبالہ¿ عقد میں آنے کے بعد جب حرم پاک میں رونق افروز ہوئیں تو رہائش کےلئے جو حجرہ مبارک ملا وہ مسجد نبوی شریف سے متصل تھا۔ اُس کا دروازہ مسجد نبوی شریف کی طرف کھلتا تھا۔ جس میں ایک پٹ کا کواڑ لگا ہوا تھا اور پردہ کے طور پر ایک کمبل پڑا رہتا تھا۔ اِس حجرہ مبارک کی لمبائی چوڑائی چھ سات ہاتھ سے زیادہ نہ تھی۔ دیواریں مٹی کی اور چھت کھجور کے پتوں اور ٹہنیوں کی بنی ہوئی تھی۔ بارش سے بچاو¿ کےلئے اُس پر ایک کمبل نما کپڑا ڈال دیا گیا تھا۔ اُس حجرہ کی بلندی اِتنی تھی کہ آدمی کھڑا ہوتا تو چھت کو چھو سکتا تھا۔ حجرہ مبارک سے متصل ایک بالا خانہ تھا جس کو مشربہ کہتے تھے۔ ایام ایلاءمیں نبی کریم نے ایک ماہ بستر فرمایا تھا۔ (ابو داو¿د)
اُمّ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کے پاک گھر کی خود اِختیاری کائنات ایک چارپائی‘ ایک چٹائی‘ ایک بستر‘ ایک چھال بھرا تکیہ‘ دو تین مٹکے اور پانی پینے کےلئے ایک پیالہ سے زیادہ نہ تھی۔کئی کئی راتیں ایسی گزرتیں کہ گھر میں چراغ تک نہ جلتا تھا۔ گھر میں کھانا پکنے کی نوبت بہت کم آتی تھی۔ خود اُمّ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ تین تین دن مسلسل اَیسے گزرتے کہ خاندانِ نبوی نے پیٹ بھر کر کھانا نہ کھایا۔ ( صحیح بخاری معیشت النبی)
نبی کریم اکثر سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ ایک دسترخوان بلکہ ایک ہی برتن میں کھانا تناول فرماتے تھے۔ پیالہ میں وہیں پر منہ رکھ کر پانی نوش فرماتے تھے جہاں سیّدہ عائشہ صدیقہؓ منہ لگا کر پانی پیتی تھیں۔ (مسند احمد‘ ابوداو¿د)
گھر میں اگرچہ خادمہ موجود تھی لیکن سیّدہ عائشہ صدیقہؓ ، نبی کریم کا کام خود ہی اپنے ہاتھ سے اِنجام دیتی تھیں۔ آٹا خود پیستی تھی۔ خود ہی گوندتی تھیں۔ خود کھانا پکاتی تھیں۔ بستر اپنے ہاتھ سے بچھاتی تھیں۔ وُضو کےلئے پانی خود لا کر دیتی تھیں۔ نبی کے سر مبارک میں کنگھا کرتی تھیں۔ گھر میں کوئی مہمان آتا تو اُس کی خدمت بجا لاتی تھیں۔
بیوی کا سب سے بڑا کمال اپنے شوہر کی اِطاعت اور فرمانبرداری ہے۔ سیّدہ عائشہ صدیقہؓ نے 9 برس میں نبی کریم کے کسی حکم کی کبھی مخالفت نہ کی نبی کریم کو اگر کوئی بات ناگوار بھی گزری تو فوراً اسے ترک کر دیا۔ الغرض سیّدہ عائشہ صدیقہؓ نے نہ صرف نبی کریم کی زندگی میں بلکہ بعد میں بھی اِسی طرح نبی کریم کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتی رہیں۔
اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ ‘ نبی کریم کے ساتھ رات کو اُٹھ کر نماز ادا کرتیں۔ نبی کریم اِمام ہوتے تو وہ مقتدی ہوتیں۔ اگر نبی کریم مسجد میں نماز پڑھاتے تو اُمّ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ حجر ہ مبارک میں ہی کھڑی ہوکر اِقتدا کر لیتیں۔ (صحیح بخاری کتاب الکسوف) نبی کریم ‘ سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کو نماز‘ دُعا اور دین کی باتیں اکثر سکھایا کرتے تھے۔ آپؓ نہایت ذوق شوق سے سیکھا کرتی تھیں اور پھر ہر حکم کی شدت سے پابندی بھی کرتی تھیں۔ سیّدہ عائشہ صدیقہؓ نے عورتوں کی خواہش پر اُن کی تعلیم و تربیت کےلئے ہفتہ میں ایک خاص دن مقرر کر رکھا تھا۔ ۔سیّدہ عائشہ صدیقہؓ بے پناہ قوتِ حافظہ اور اِجتہاد و اِستنباط کی صلاحیت سے بہرہ ور تھیں۔ اُمّ المومنین عائشہ صدیقہؓ کا شمار محدثین کے طبقہ اوّل میں ہوتا ہے۔ آپؓ سے دو ہزار دو سو دس اَحادیث مروی ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ اَحکام شرعیہ کا ایک چوتھائی حصہ اُمّ المومنین عائشہ صدیقہؓ سے منقول ہے جب کبھی وہ کسی حدیث پاک کو روایت کرتی تھیں تو اُس کے سیاق و سباق اور اَحکام کے اسرار و رموز کو اِس خوبی سے بیان کرتیں کہ زیر بحث مسئلہ روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتا تھا۔
اُمّ المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے‘فرماتی ہیں‘ رسولِ کریم نے فرمایا: ”اے عائشہؓ! یہ (جبرائیلؑ) ہیں کہ یہ تمہیں سلام کہتے ہیں۔ فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا‘ اُن پر سلام ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکتیں۔ (آپؓ فرماتی ہیں: میں نے نبی کریم سے عرض کیا) آپ وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھتے۔“ (بخاری جلد 1 ص 532)
سیّدہ عائشہ صدیقہؓ ہر سال حج پر تشریف لے جایا کرتی تھیں۔ حج پر باقاعدگی سے جانے کا مقصد یہ تھا کہ وہاں آنے والے مسلمانان عالم اپنے نبی کریم کی تعلیمات سے بہرہ ور ہو سکیں۔یہ سلسلہ آخری سانسوں تک جاری رہا۔
سیّدہ عائشہ صدیقہؓ رمضان المبارک 58 ہجری میں چند روز علیل رہنے کے بعد 17 رمضان المبارک کی رات کو 63 سال کی عمر میں نماز وتر کے بعد اِس دارِ فانی سے پردہ فرما گئیں۔ آپ کو وصیت کے مطابق دیگر ازواجِ مطہرات کے ساتھ جنت البقیع میں رات کے وقت دفن کیا گیا۔ بھتیجوں اور بھانجوں نے آپ کے جسم مبارک کو قبر میں اُتارا۔