سیاسی جماعتوں کے غیر سنجیدہ رویے کے باعث ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام ختم نہ ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ایک طرف تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا عمل جاری ہے اور دوسری جانب سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اندر اور باہر ایک دوسرے کیخلاف الزامات کی بوچھاڑ اور زبانی گولہ باری جاری ہے۔ نفرت ،تقسیم اور محاذ آرائی کی سیاست کے باعث عوام اس نظام سے متنفر دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی چیلنجز میں بھی اضافہ ہورہا ہے گو کہ موجودہ حکومت نے بہتر لائحہ عمل اپنا کر ملک کو فی الوقت ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر نکال لیا ہے ، انٹرسٹ ریٹ میں نمایاں کمی ہوئی ہے، مہنگائی بڑھنے کی رفتار میں بھی کمی آئی ہے مگر ہمیں اسوقت شارٹ ٹرم کی بجائے لانگ ٹرم اکنامک پالیسی اپنانے کی اشد ضرورت ہے اگر معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے تو ہمیں اپنی انڈسٹری کو فعال کرکے ایکسپورٹ میں اضافہ کرنا ہوگا، کاشتکاروں کو انکی اجناس کا جائزہ منافع دینا ہوگا،نئی عالمی منڈیاں تلاش کرنا ہونگی۔ آئی پی پیز کے بوجھ سے نجات حاصل کرکے صنعتوں اور کاشتکاروں سستی بجلی فراہم کرنا ہوگی۔ خیر بات حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکراتی عمل سے شروع ہوئی تھی مگر دونوں سائیڈز سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اور اس طرزعمل کیساتھ کامیابی کا امکان کم ہی دکھائی دے رہا ہے مگر مذاکرات کا عمل شروع ہونا ایک خوش آئند عمل ہے۔پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ مریم نواز کے دور حکومت کو ابھی ایک سال مکمل نہیں ہوا مگر جس طرح انہوں نے عوامی فلاح کے متعدد منصوبوں پر کام شروع کیا ہے اسکی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ِپنجاب حکومت کے مثالی اقدامات ناصرف پنجاب بلکہ پاکستان کے لیے ترقی اور خوشحالی کا سنگ میل ثابت ہونگے۔مریم نواز کی قیادت میں پنجاب حکومت نے خدمت، جدت اور شفافیت کے نئے معیارات قائم کیے۔ مریم نواز کی قیادت میں صوبے نے نہ صرف ترقی کی راہ اپنائی بلکہ عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے موثر اقدامات بھی اٹھائے گئے۔ اس بار مریم نواز صرف صوبائی دارالحکومت کو فوکس کرنے کی بجائے جنوبی پنجاب کے دورافتادہ اور پسماندہ علاقوں کی ترقی کو بھی ترجیح دے رہی ہیں۔
گذشتہ ہفتے وزیراعلٰی پنجاب نے ایک ہفتے کے دوران دو مرتبہ شہر اولیاء ملتان کا دورے کئے۔ طلباء و طالبات کو وظائف دینے کی پروقار تقریب میں شرکت کرکے طلبہ میں وظائف کے چیک تقسیم کئے اور مختلف منصوبوں کا افتتاح کیا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے دورہ ملتان کے دوران یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا دورہ کیا اور یہاںمریم نواز شریف گرلز ہاسٹل کا سنگ بنیاد رکھا ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے ملتان میں پاک ترک معارف انٹرنیشنل سکول اینڈ کالج کی افتتاحی تقریب سے بھی خطاب کیا۔ ترک معارف انٹرنیشنل سکول کے افتتاحی تقریب کے موقع پرانہوں نے کہا کہ ترکیہ کے وزیر تعلیم کی یہاں موجودگی ان کیلئے باعثِ فخر ہے-ترکیہ کے وزیر تعلیم یوسف تیکن کی قیادت اور لگن ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ان کی انتھک کوششوں نے معارف فاونڈیشن کو حقیقت کا روپ دیا ہے۔ تعلیم اور ثقافتی تبادلے کو فروغ دینے کے لیے معارف فاونڈیشن کی کاوشیں پاکستان اور ترکیہ کے مشترکہ ویژن کی عکاس ہے،پنجاب کے عوام ترک بھائیوں کے شکر گزار ہیں - معارف فاونڈیشن نے خطے کے تعلیمی منظرنامے میں گرانقدر کردار ادا کیا۔ صدر رجب طیب اردوان کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں، وہ پاکستان کے حقیقی بھائی ہیں -صدر رجب طیب اردگان کی غیرمتزلزل حمایت نے دونوں قوموں کے تعلقات کو مزید مستحکم کیا ہے۔ ضرورت کے وقت میں ترکیہ نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اپنا اخلاص ثابت کیا ہے- صدر اردگان کے ویڑن نے پنجاب اور ملک بھر میں ترقی اور بہتری کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔دعا ہے کہ پاک ترکیہ دوستی اور شراکت داری آنے والی نسلوں تک پھلتی پھولتی رہے۔
مدرسہ قاسم العلوم گلگشت میں جے یوآئی ضلع ملتان کے زیراہتمام منعقدہ ورکرز کنونشن کے بڑے اجتماع سے خطاب کر تے ہوئے۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اللہ کی نعمتوں سے رشتہ کمزور ہو گا تو کفر دنیا کی نعمتوں پر غالب ہوجائے گا ۔قوم کو جوڑنے کی ضرورت ہے توڑنے کی نہیں۔ لوگ بدامنی اور بھوک کا سامنا کررہے ہیں دنیا میں امن اور معیشت کی بہتری کی اشد ضرورت ہے عدالتیں جب فیصلے موخر کرتی ہیں تو انصاف میں تاخیر ہوتی ہے پارہ چنار شیعہ سنی فساد نہیں بلکہ جائیدادی مسئلہ ہے۔ مدارس کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہمارا ایک پارلیمانی کردار ہے میڈیا پر قادیانیوں کی باتیں ہونے لگی ہیںاللہ نے قادیانیوں کو سپریم کورٹ میں پھنسایاآئین کے اندر 26ویں ترمیم لیکر آئے ترمیم کے اندر کالا ناگ تھاہماری جدوجہد سے کئی شقوں کو ختم کر دیا گیا ہے ملک کے سیاسی ماحول میں سب سے مشکل چیز اسلام بن گئی ہے سیاستدان کلمہ پڑھتے ہیں مگراسلام کو نہیں مانتے انیسویں صدی سے لیکر بیسویں صدی تک بر صغیر میں مسلمانوں کے ہاتھ میں قیادت تھی کوئی شیعہ سنی فساد نہیں تھا۔