بعض قارئین کوشکایت ہے کہ جناب کلیم عثمانی پر میرا سلسلہ مضامین کئی اقساط پر پھیل گیا ہے اور یہ طوالت انہیں گراں گذر رہی ہے اس بنا پر یہ کہانی اب ختم کی جا رہی ہے۔ البتہ کلیم عثمانی کے لکھے ہوئے کچھ نغمات درج ذیل ہیں جن سے قارئین کو یہ اندازہ کرنے میں مدد ملے گی کہ کلیم عثمانی صاحب کی یاد تازہ کرنا بلاسبب نہیں تھا۔ اب ملاحظہ فرمائیں ان کے لکھے ہوئے نغمات۔
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمیں کا ہر ذرہ آفتاب تم سے ہے
یہ فضا تمہاری ہے، بحر و بر تمہارے ہیں
کہکشاں کے یہ جالے، رہ گزر تمہارے ہیں
یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
اس زمیں کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا
ارضِ پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا
نظم و ضبط کو اپنا میرِ کارواں جانو
وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو
یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ زمیں مقدس ہے ماں کے پیار کی صورت
اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت
دیکھنا گنوانا مت، دولتِ یقیں لوگو
یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو
یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
میرِ کارواں ہم تھے، روحِ کارواں تم ہو
ہم تو صرف عنواں تھے، اصل داستاں تم ہو
نفرتوں کے دروازے خود پہ بند ہی رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سربلند ہی رکھنا
یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے ******
ہم ایک ہیں‘ ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
ایک چمن کے پھول ہیں سارے، ایک گگن کے تارے
ایک سمندر میں گرتے ہیں سب دریاؤں کے دھارے
جدا جدا ہیں لہریں، سرگم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
پاکستان کی عزت ہم کو اپنی جان سے پیاری
اپنی آن ہے اس کے دم سے یہ ہے شان ہماری
اپنے چمن میں پھول اور شبنم ایک ہیں ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
ایک ہی کشتی کے ہیں مسافر اک منزل کے راہی
اپنی آن پہ مٹنے والے ہم جانباز سپاہی
بند مٹھی کی صورت قوم ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، ہم ایک ہیں
******
تجدید عہد کا دن
اپنے خون سے تجھے رنگین فسانے دیں گے
اے وطن آنچ کبھی تجھ پہ نہ آنے دیں گے
گلستاں تیرے کھلائیں گے لہو سے اپنے
ہم تجھے اپنی محبت کے خزانے دیں گے
اپنی باہوں سے بنائیں گے تیرے گرد حصار
کوئی طوفان تیری سمت نہ آنے دیں گے
تیرے دہقاں کے پسینے کو بنائیں گے گلاب
تیرے مزدور کو آنسو نہ بہانے دیں گے
تیری بنیاد ہے اسلام‘ بقاء بھی اسلام
کوئی نعرہ نہ یہاں اور لگانے دیں گے
جن کے ارماں میں ہے تو دیدہ حیراں کی طرح
تیری آنکھوں کو وہی خواب سہانے دیں گے
جو قدم اٹھے ہیں بڑھتے ہی چلے جائیں گے
اب کمی اپنے ارادوں میں نہ آنے دیں گے
تیری تعمیر میں مصروف رہیں گے ہر آن
رائیگاں وقت کو اب اور نہ جانے دیں گے
ایک ہم ہی تو نہیں تیرے ثناء خواں جاناں
تیری عظمت کی گواہی تو زمانے دیں گے
******
نغمہ وطن
یہ نور کا مسکن ہے ستاروں کی زمیں ہے
یہ ارض وطن خطہ فردوس بریں ہے
بکھرا ہے فضائوں میں دھنک رنگ خوشی کا
ذروں میں ہے انداز ستاروں کی ہنسی کا
ہر غنچہ ہے شاداب ہر ایک پھول حسیں ہے
یہ ارض وطن خطہ فردوس بریں ہے
ہر صبح یہاں نغمہ فشاں حمد و ثنا سے
روشن ہے ہر اک شام یہاں نام خدا سے
یہ ملت اسلام کی وحدت کا امیں ہے
یہ ارض وطن خطہ فردوس بریں ہے
یہ قائد اعظم کی قیادت کا ثمر ہے
یہ شاعر اسلام کے خوابوں کا نگر ہے
اس ملک کا سرمایہ فقط دین مبیں ہے
یہ ارض وطن خطہ فردوس بریں ہے
اسلام کے ہی نام پر قائم یہ ہوا تھا
اسلام کے ہی نام پہ قائم یہ رہے گا
یہ قلعہ اسلام ہے شک اس میں نہیں ہے
یہ ارض وطن خطہ فردوس بریں ہے
آنکھوں میں نہاں اس کے فسانے ہیں بہت سے
اس خاک کے سینے میں خزانے ہیں بہت سے
یہ شوکت رفتہ کے زمانوں کا امیں ہے
یہ ارض وطن خطہ فردوس بریں ہے
تسلیم و رضا شیوہ ارباب وطن ہے
مہکا ہوا ہر رنگ کے پھولوں سے چمن ہے
اس جیسا زمانے میں کوئی اور نہیں ہے
یہ ارض وطن خطہ فردوس بریں ہے