دنیائے ادب میں ریاست پاکستان کے حوالے سے پاک ٹی ہاؤس اور حلقہ ارباب ذوق کی ایک منفرد داستان موجود ہے لیکن کبھی ہم اس سے ناواقف تھے لہذا جونہی زمانہ نو عمری میں ہمارا اس سے تعارف کرایا گیا ہم اس ادبی مسکن میں آنے جانے والی شخصیات کا دیدار کرنے پہنچ گئے۔ انتظار حسین ،اے حمید، صوفی تبسم، اختر حسین جعفری، قتیل شفائی، نواز، خالد احمد ،نجیب احمد، قائم نقوی، احمد ندیم قاسمی ،عبدالمتین عارف، طفیل ھوشیار پوری ،منیر نیازی ،سرور مجاز، شہزاد احمد اور بہت سے شعراء، افسانہ نویس اور لکھاریوں کو پہلی مرتبہ دیکھا، اب یہ لوگ اگلی دنیا کی جانب بڑھ چکے ہیں لیکن تمام نے اپنے اپنے شعبے میں ایسی خدمات انجام دی ہیں کہ ان کے اعتراف میں ان سب کی تصاویر پاک ٹی ہاؤس کی زینت بنی ہیں۔ تاہم جن دنوں پہلی بار وہاں گیا اس وقت بھی فیض احمد فیض، سعادت حسن منٹو اور بہت سے دوسروں کی تصاویر وہاں موجود تھیں، پھر ایک زمانہ ایسا آ یا کہ ان شخصیات کے ساتھ کام کرنے کا بھی نادر موقع ملا، انجم رومانی ہمارے دیال سنگھ کالج کے اساتذہ میں شامل تھے جبکہ انتظار حسین اور سرور مجاز روزنامہ مشرق میں تھے اور بی۔ اے کرنے کے بعد جب مجھے کالج میگزین ’’افشاں‘‘ کی ایڈیٹر ی کے بعد نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبار روزنامہ مشرق میں چیف ایگزیکٹو اقبال زبیری صاحب نے سب ایڈیٹر بننے کی پیشکش کی تو دوستوں اور محسنوں کے مشورے سے میں بھی ادب و صحافت کی بھاری بھرکم شخصیات انتظار حسین ،ریاض بٹالوی، سرور مجاز، عالی رضوی کے ساتھ شامل ھو گیا۔ ابتدا میں ان شخصیات اور انہیں ملنے والوں کو باادب ہو کر دور دور سے دیکھا کرتا تھا۔ پھر تاریخ کے جبر نے مجھے ’ایمپلائز یونین، سی۔ بی۔ اے کا صدر بنا دیا اور یہ تمام لوگ میری میز پر مجھ سے گپ شپ کرنے بھی آیا کرتے تھے، بس انہی حالات اور واقعات میں ہم نے بھی صحبت کا اثر لیا اور آ ج اچھے برے الفاظ میں ادبی حلقوں میں بھی جانے پہچانے جاتے ہیں ہم نے حلقہ ارباب ذوق کے مختلف ادوار بھی دیکھے اور انجمن ترقی پسند مصنفین کی سرگرمیاں بھی دیکھیں، ان ادوار میں ایسی مارکٹائی کا بھی مشاہدہ کیا جس میں ترقی پسندوں اور رجعت پسندوں کی معرکہ آرائی کا شور تھا لیکن اب ایسے حالات ہرگز نہیں، رواداری اور برداشت سے کام خوش اسلوبی سے چل رہا ہے۔ تاہم ان پڑھے لکھے لوگوں میں بھی گروپنگ کا زہر مکمل طور پر زائل نہیں ہو سکا، بسا اوقات بھانت بھانت کی بولی اور پسند ناپسند ہی نہیں، من پسند کی بھی نشاندہی ہوتی رہتی ہے، پھر بھی پاک ٹی ہاؤس کی کہانی بھی دلی سے مختلف ہرگز نہیں، یہ بھی کئی بار اجڑا اور ابھی تک آباد ہے اس میں حکومتی تعاون کا بھی عمل دخل موجود ہے لیکن اسکی بندش میں سابق گورنر پنجاب خالد مقبول نے الحمرا میں ادبی بیٹھک اور ہمارے دوست ناہید شاہد نے ناصر باغ لاہور میں ان قلم پسندوں اور کتاب دوستوں کے لیے ’چوپال‘ بنا دی دونوں مقامات پر ادیبوں شاعروں کی آمدورفت اور ادبی سرگرمیاں جاری و ساری ہیں لیکن ان کی موجودگی میں بھی پاک ٹی ہاؤس کی انفرادیت قائم ہے کیونکہ یہاں اٹھنے بیٹھنے والی معروف و ممتاز شخصیات کی روحیں ابھی یہاں آ تی جاتی ہوں گی، میں یہ سب کچھ ڈاکٹر مجاہد حسین کی کتاب ،،خوش نما روحوں کا رقص،، کی تعارفی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے سوچ رہا تھا۔ یہ خیال بھی مسلسل تنگ کر رہا تھا کہ آ خر اس ذمہ داری کے لیے میرا ہی انتخاب کیوں کیا گیا ؟ ہمزاد نے جواب دیا کہ یہ دھکا ڈاکٹر فرحت عباس شاہ نے دیا ہے جو تمہیں استاد اور مرشد کا درجہ دیتے ہیں۔
خوش نما روحوں کا رقص، نوبیل انعام یافتہ افسانہ نگار ایلس منرو کا ترجمہ ہے، جس میں 15 کہانیوں کا انتخاب کیا گیا ہے مترجم ڈاکٹر مجاہد حسین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا میں نے مشکل کام کو اس لیے آسانی سے انجام دے دیا کہ میری خواہش تھی کہ میں ادبی ذوق رکھنے والوں کو عالمی انعام یافتہ مصنفہ،، ایلس منرو،، سے متعارف کراؤں کہ انعام یافتہ اور دنیا میں نام کمانے والوں کا انداز کیا ہوتا ہے۔ یقینا اردو کی ترقی میں ترجمے کا کردار منفرد ہی نہیں بلکہ ایک بڑی حقیقت ہے۔ فارسی، روسی، جرمن، فرانسیسی اور دیگر زبانوں کے ترجموں نے اردو ادب میں خصوصی اہمیت حاصل کی، ان کا کہنا تھا کہ ،،ایلس منرو،، کینڈی انگلش مصنفہ ہیں انہوں نے افسانے اور ناول لکھے ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ،، ڈانس آ ف دی ہیپی شیڈز،، 1968ء میں منظر عام پر آ یا لیکن اسے 2013ء میں نوبیل انعام برائے ادب کے لیے منتخب کیا گیا، میں نے اسے اس لیے پسند کیا کہ مصنفہ ایلس منرو اپنے مشاہدات کے ذریعے احساسات کو ضبط تحریر میں لائیں لہذا میں نے عالمی ادب کے ایک قاری کی حیثیت سے اسے پوری ذمہ داری سے اردو میں یوں ڈھالا کہ ہمارے ادبی ذوق رکھنے والے بآسانی نہ صرف اسے اور اسکی کہانی کو سمجھ سکیں بلکہ یہ بھی جان سکیں کہ عالمی انعام کے مستحقین کیسے ہوتے ہیں ان کا انداز بیان اور موضوعات کا انتخاب کیا ہوتا ہے؟ ان کا دعوی تھا کہ کسی بھی زبان کا اپنی زبان میں ترجمہ مشکل ترین کام ہوتا ہے لیکن یہ آسان بھی ہو جاتا ہے کہ اگر آپ مطالعہ کے شوقین ہوں تو۔۔۔ یعنی دونوں زبانوں میں اس قدر عبور ہو کہ اصل تحریر کے معنی اور مقصد مجروح نہ ہو، آج کل اے آ ئی کی مدد سے بھی جدید تقاضوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ترجمہ کیا جا رہا ہے جو یقینا اس قدر معیاری نہیں، جس کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر رشی خان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مجاہد حسین نے انتہائی ذمہ داری سے ،،ایلس منرو،،کی کہانیوں کو اردو میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے ایک استاد کی حیثیت سے اردو اور انگریزی کا ہر ممکن حد تک خیال رکھا لیکن وقت کی ضرورت یہ بھی ہے کہ ہمارے اردو ادب کی کتابوں، کہانیوں اور ناول کو بھی انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا جائے ،ایسا کیا بھی جا رہا ہے لیکن اس کی رفتار مایوس کن ہے حالانکہ ہمارے ہاں اردو، پنجابی سندھی اور دیگر زبانوں میں معیاری لکھنے والوں کی کمی نہیں، انہوں نے کہا اگر عالمی معیار کے مطابق ترجمہ کر کے دنیا کے حوالے کیا جائے تو اسے بھی پذیرائی ملے گی پروفیسر مشکور احمد صدیقی نے ڈاکٹر مجاہد حسین کو مبارکباد دیتے ہوئے حلقہ ارباب ذوق کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ایک ایسی تقریب منعقد کی جس میں تمام شعبہ زندگی کے افراد ہی نہیں بلکہ ہمیں نوجوانوں اور خواتین کی تعداد بھی دکھائی دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا سرسید احمد خان کی مسلم امہ اور مسلمانوں کے لیے علمی خدمات یکتا ہیں ،مجاہد حسین نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری سرسید کے حوالے سے تحقیق کر کے حاصل کی، وہ ایسی شخصیت ہیں کہ ان پر مزید کام بھی ہونا چاہیے اس مطالعاتی نشست میں نوجوان عبداللہ ضیا ء نے ڈاکٹر مجاہد حسین کی شخصیت کے حوالے سے ایک مفصل مضمون پڑھا اور اپنے سینیئرزسے بھرپور داد حاصل کی،
ڈاکٹر مجاہد حسین ایک استاد ہیں، اردو ادب اور عالمی ادب کے پرستار بھی، اس لیے انہوں نے،، خوشنما روحوں کا رقص،، کو پوری ذمہ داری سے نبھایا، اس کی کہانیاں ہمارے معاشرے، تہذیب و تمدن کے حوالے سے مختلف ہونے کے باوجود اردو ادب ،محاورے اور مکالموں کی بھرپور گرفت میں ہیں۔ اگر وہ ناموں کا انتخاب اپنے ماحول کے مطابق کر لیتے تو ایک سے زیادہ کہانیاں اپنی ہی دکھائی دیتیں لیکن انہوں نے،، ایلس منرو،، سے یہ ناانصافی نہیں کی، اسی طرح مجاہد حسین نے الفاظ کے انتخاب میں بھی یہی احتیاط اختیار کی، جس سے ،،ایلس منرو،، کی کہانیاں بالکل ویسی ہی ہیں جیسی انگریزی زبان میں لکھی گئیں۔ انہوں نے مشکل الفاظ سے بھی خاصہ پرہیز کیا تاکہ کہانی عام فہم رہے ہر قاری کی دلچسپی قائم رہے۔ کسی بھی مترجم کی کامیابی میں ان خصوصیات کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے حالانکہ کسی بھی زبان کو دوسری زبان میں ڈھالنا مشکل کام اس لیے ہوتا ہے کہ ہر زبان اپنے معاشرے، ماحول اور تہذیب کی گتھیوں میں الجھی ہوتی ہے جس کو دوسری زبان کے سہارے سلجھانے میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر کوئی مترجم ان بھول بھلیوں سے بچ جائے تو یقینا یہی اس کے قاریوں کے اطمینان کا باعث بنتی ہے اور ایسا صرف مترجم کی مہارت، ریاضت اور وسیع مطالعے کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ ’’خوشنما روحوں کا رقص‘‘ پڑھ کر یوں ہی محسوس ہوتا ہے، جو ڈاکٹر مجاہد حسین کی کاریگری سے زیادہ ان کے مشاہدات، تجربات اور شوق پرواز کی خبر دیتا ہے ،میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ اسی دلجمعی اور ذمہ داری سے اس میدان میں کوشاں رہے تو پھر اردو ادب میں مزید شہرہ آفاق عالمی ادب کے شاہکاروں کا اضافہ ہوگا۔ پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے انہیں مجاہد اردو قرار دیا گیا اور قومی زبان اردو کو ایسے ہی پرعزم مجاہدین کی اشد ضرورت ہے۔ اطلاع یہی ہے کہ وہ اردو افسانے کی تنقید پر بھی سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں حالانکہ سر سید شناسی ان کا حقیقی موضوع ہے۔ قبل ازیں ان کی دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں لہذا مستقبل میں ان سے بہت سی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے ،،ایلس منرو،، کے افسانوی مجموعے کا انتخاب اس لیے کیا کہ وہ محبت ،خلوص، پیار اور مسلسل ترقی کی منزلیں طے کرنے کا درس حقیقی اور انسانی فطرت کے مطابق دیتی دکھائی دیتی ہیں، اس سوچ کے تحت ڈاکٹر مجاہد حسین شاعری، نثر اور مترجم کے حوالے سے مستقبل میں اردو ادب کا ایک مضبوط حوالہ بنتے نظر آ تے ہیں کیونکہ ان کا مجاہدانہ جذبہ جہد مسلسل کا پیغام دے رہا ہے اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ ،،خوشنما روحوں کا رقص،، کے ایک کامیاب ترجمے کے بعد ابھی اور بہت کچھ اردو ادب میں اس کے چاہنے والوں کو ملے گا تو بے جا نہ ہوگا۔