واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل پریئر بریک فاسٹ کی تقریب منعقد ہوئی تھی، اس موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذہب کو عوامی زندگی میں واپس لانے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مذہب اور خدا کو اپنی زندگیوں میں دوبارہ شامل کرنا ہوگا ، لہذا اسی دن امریکی صدر نے وائٹ ہائوس فیتھ آفس کے قیام کے لئے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر بھی دستخط کئے ،ٹرمپ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ماضی میں شاید مذہب اور خدا کا عوامی زندگی میں اتنا عمل دخل نہیں تھا ، لہذا اب اسے دوبارہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے ۔
صدر ٹرمپ کی دعا کو مشرق وسطیٰ کے حالات سے موازنہ کرنے کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے ،کہ مذہب اور خدا کو زندگیوں میں شامل کرنے کا مطلب امن ، اخلاقی اقدار اور روحانی حیات کو فروغ دینا ہوتا ہے ، مشرق وسطیٰ میں مذہب کا ایک اہم کردار ہے ،اور اس خطے کے حالات میں مذہب کا کردار صدیوں سے نمایاں ہے ، ٹرمپ کی یہ دعا اس تناظر میں دیکھی جا سکتی ہے کہ کیا وہ مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں مذہبی روایات اور اقدار کی اہمیت کو دوبارہ اجاگر کرنے کی کوشش کر یں گے ، ٹرمپ کا یہ بیان خطے میں امن اور استحکام کے فروغ کے حوالے سے کتنی اہمیت کا حامل ہوگا ، جب کہ غزہ کے حوالے سے ٹرمپ کا بیان بلا شبہ متنازع ہی نہیں بلکہ منافقت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، غزہ کا مسئلہ بہت حساس اور پیچیدہ ہے ، اور ایسی تجویز کہ غزہ کو امریکہ کے حوالے کیا جائے ، مختلف فریقوں کے درمیان مزید کشیدگی پیدا کر سکتی ہے ، فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مزید کشیدگی پیدا ہو گی ، اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی مختلف رد عمل آ سکتا ہے ، اس طرح کی تجویز کو علاقائی خود مختاری اور وہاں کے رہائشیوں کے حقوق کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزی کے علاوہ خدا اور مذہب سے بھی رو گردانی ہو گی جو کہ ایک نہایت حساس معاملہ ہے ۔
صدر ٹرمپ کی دعا کیا محض ایک سیاسی دعا ہے ، کیونکہ ماضی میں مذہب کو بعض جنگوں کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا ، جس میں عراق کی جنگ کو صلیبی جنگ قرار دیا گیا تھا ، تاریخ گواہ ہے کہ یہود اور نصاریٰ جنگ مئوتہ جو کہ 629ء میں اردن کے مقام مئوتہ پر لڑی گئی تھی جسے عربی میں معرکہ مئوتہ کہتے ہیں جس میں بازنطینی( مشرقی رومی) کی افواج نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تھی او ر اس جنگ میں نصف عرب مسیحی بھی بازنطینی شامل تھے ، اس معرکے سے لیکر غزہ کو تباہ کرنے تک مسلمانوں کے خلاف مغرب اور امریکہ مسلسل حالت جنگ میں ہے، اب ٹرمپ کس مذہب کو زندگیوں میں واپس لانے کی بات کر رہے ہیں وہ مذہب جس میں فلسطین کی زمین ان کے لئے بھی مقدس ہے اور بیت المقدس مسلمانوں کے لئے بھی جان سے زیادہ عزیز ہے ، جب ٹرمپ اور اس کے حواری اس مذہب کو زندگیوں میں واپس لائیں گے تو مزید مسلمانوں کا کشت و خون کیا جائیگا، جو کہ عرب ممالک کو تباہ کرنے کاامریکہ اور اسرائیل کا خفیہ منصوبہ ہے ۔
امریکہ اور یورپ میں مذہب ایک حساس موضوع رہا ہے ، موجودہ حالات میں بھی ٹرمپ کے بیانات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ، سیاسی بیانات کی سچائی کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہوتا خاص طور پر جب وہ مذہبی معاملات سے متعلق جڑے ہوں ،اسرائیلی وزیر اعظم نے دورہ امریکہ کے دوران اسرائیلی میڈیا کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے ،لہذا سعودی فلسطینی ریاست اپنے ملک میں بنا سکتے ہیں سعودیوں کے پاس بہت زیادہ زمین ہے ،درندہ صفت ننگ آدمیت نیتن یاہو کتنی ڈھٹائی سے فلسطینیوں کو کسی دوسرے ملک میں بسانے کی تجویز دے رہے ہیں ، جب کہ دنیا جانتی ہے کہ یہودیوں نے فلسطین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اگر نیتن یاہو فلسطین کی ریاست کے قیام سے اپنی سلامتی کو خطرہ سمجھتے ہیں تو اس کا پر امن اور آسان حل یہ ہے کہ سارے اسرائیلی یہودی امریکہ میں جا کر آباد ہو جائیں ، امریکہ ان کے لئے محفوظ بھی رہے گا اور امریکہ کو اسرائیل پر اپنے خزانے لٹانے کی زحمت سے بھی چھٹکارا مل جائے گا اس طرح مشرق وسطیٰ اور دنیا میں امن بھی قائم ہو جائے گا ۔
ننگ انسانیت، ننگ وطن اور ننگ دین نیتن یاہو کا یہ بیان خاصہ متنازع اور گریٹر اسرائیل کی تکمیل کی خواہش کو آشکار کرتا ہے اور دنیا کے خود مختار ممالک پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ، ایک طرف یہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو بگاڑ دے گا جب کہ دوسری طرف اس سے عالمی سطح پر ممالک کے تعلقات اور ان کی پالیسیوں پر منفی اثرات مرتب ہو گے ، خاص طور پر ان ممالک پر جو مشرق وسطیٰ کے معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں ، اس کے علاوہ یہ مسئلہ بین الاقوامی تعلقات میں کشیدگی پیدا کر سکتا ہے ۔
نیتن یاہو کے اس شرمناک بیان پر سعودی حکومت نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے سعودی حکام نے اسے مسترد کرتے ہوئے فلسطینیوں کے اپنی سرزمین پر حق کی حمایت کی ، سعودیہ نے نتن ہاہو کے اس بیان کو اسرئیل کے اقدامات سے توجہ ہٹانے کی کوشش بھی قرار دیا ،نیتن ہاہو کے اس بیان پر دنیا بھر سے رد عمل سامنے آیا ہے ، پاکستان سمیت بہت سے ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں نے اس بیان کی مذمت کی ہے ، اور اسے فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے ، مستقبل میں اسرائیلی وزیر اعظم کے اس بیان کے باعث خطے میں کشیدگی بڑھے گی ، جس سے امن عمل پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔
چین اور روس نے اس معاملے پر سخت رد عمل دیا ہے کیونکہ دونوں ممالک فلسطینی ریاست کے قیام کے حامی ہیں ، اور اسرائیل کے یکطرفہ فیصلوںکی مخالفت کرتے ہیں ، روس سفارتی سطح پر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ روابط بڑھا سکتا ہے ، تاکہ فلسطینی موقف کو تقویت ملے ، اسرئیل اور امریکہ کے لئے دنیا میں امن قائم کرنے کا واحد حل اسرئیلی ریاست کا امریکہ میں قیام ہے ، امریکہ کے پاس زمین بھی بہت ہے ،کیونکہ 1948 ء میں امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین نے اسرائیل کے قیام کی حمایت کی تھی ، ہیری ٹرومین سے پہلے امریکی صدر فرینکلن ڈی ۔ روزویلٹ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران مختلف قسم کے منصوبوں کی پلاننگ کی تھی ، اور غیر رسمی بات چیت میں یہودیوں کو امریکہ میں آباد کرنے کی پیشکش کی تھی ، یہ پیشکش حتمی طور پر امریکہ کی سرکاری پالیسی میں شامل نہ ہو سکی ، جسے اب شامل کر کے دنیا میں امن قائم کیا جائے۔