شاہد رشید
16 دسمبر 1971ء ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا المناک دن ہے جب پاکستان دولخت ہو گیا تھا۔ اس سانحہ نے دنیا کے ہرگوشے میں بسنے والے پاکستانیوں کو اشکبار کر دیا تھا۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دراصل 1965ء کی جنگ میں پاکستان کی برتری سے بھارت کی ساکھ کو بین الاقوامی طور پر ایک زبردست دھچکا لگا۔ اس کا انتقام لینے کے لیے انڈیا نے مشرقی پاکستان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ۔ مشرقی پاکستان کے عوام کا مغر بی پاکستان کے حکمران طبقے کے ہاتھوں استحصال اور جلسے جلوسوں میں ملک کے خلاف نعرہ بازی کرنے والوںکی پشت پناہی کی گئی۔تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ کے ذریعے طلبہ کے اذہان میں مغربی پاکستان کے خلاف منفی نظریات پھلائے گئے۔ اس تعصب اورنفرت کی آگ نے مشرقی پاکستان کو رفتہ رفتہ اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس صورتحال کا پاکستانی حکمران شاید ادارک نہیں کر سکے اور ہمارا رویہ بھی کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ پاکستان میں جنرل ایوب کے طویل دور حکومت کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھال رکھا تھا۔ اسی دوران 1970ء کوملک میں الیکشن کا اعلان کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ جبکہ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری تھا۔ الیکشن کاجب نتیجہ آیا تو مشرقی پاکستان کی کل 162 نشستوں میں سے عوامی لیگ نے 160 جیت لیں جبکہ مغربی پاکستان کی 135 نشستوں میں سے پیپلز پارٹی نے 81 نشستیں جیتیں۔ شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان میں اپنے چھ نکات کے ساتھ الیکشن لڑا تھا۔ یہ چھ نکات ہی بعدازاں متحدہ پاکستان کے دولخت ہونے کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ صدر یحییٰ خان سے یہ غلطی سرزد ہوئی کہ اُنہوں نے مجیب کو ان متنازعہ چھ نکات پر الیکشن لڑنے دیا۔ مجیب انتخابی جلسوں میں بلند و بالا دعوے کرتا چلا گیا۔ عوام کی معاشی بدحالی کی وجہ سے شیخ مجیب کے 6نکات کو بھرپور پھیلنے کا موقع مل گیا۔ شیخ مجیب اپنے چھ نکات کو آئین کا حصہ بنانے پر بضد رہا ، جوکہ قطعاََ غیر ضروری و ناجائز مطالبہ تھا۔ بھٹو اور شیخ مجیب کے درمیان نئی حکومت کے قیام پر مذاکرات بغیر کسی نتیجے پر ختم ہوئے۔صدر یحییٰ نے دستور ساز اسمبلی کا اجلاس طلب نہ کیا۔حتیٰ کہ شیخ مجیب الرحمن نے بھارتی ایما پراحتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا ، مشرقی پاکستان کے حالات تیزی کے ساتھ خراب ہونے لگے۔ انڈین فوج کے زیر اثر قائم مکتی باہنی کے غنڈے سرعام قتل کرنے لگے۔ بھارت بھرپور انداز میں مکتی باہنی اور دیگر گروہوں کو عسکری، مالی اور سفارتی مدد فراہم کررہا تھا۔ حکومتی رٹ قائم کرنے اور امن وامان برقرار رکھنے کی غرض سے فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا ، لیکن بھارت نے تمام بین الاقوامی ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے مشرقی و مغربی پاکستان پر جنگ مسلط کر دی۔ پاک فوج نے ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ تاہم 90ہزار فوج کے مقابل بھارت کی دولاکھ فوج اور ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ بنگالی مکتی باہنی کے کارندے پاک فوج پر مسلسل حملے کرتے رہے۔ انڈیا نے مشرقی بازو کاٹنے کے لیے ایک طرف بڑی طاقتوں سے جدید ترین اسلحہ لیا اور دوسری طرف عالمی سطح پر پناہ گزینوں کا مسئلہ اٹھا دیا۔بڑی طاقتیں مشورے دیتے رہیں کہ پاکستان سخت ملٹری ایکشن کی بجائے پرامن حل کی تلاش کے لیے اقدامات کرے تاکہ مزید قتل وغارت کو روکا جا سکے۔ جبکہ بھارت مشرقی پاکستان کے بین الاقوامی بارڈر کوروند کر فوجی غاصبانہ قبضہ کر رہا تھا۔ ہر طرف ہنگامے کھڑے کرنے میں اس کے ادارے مصروف عمل تھے۔ سب کچھ باقاعدہ پلاننگ اور منصوبہ بندی کے مطابق ہو رہا تھا۔ مکتی باہنی گوریلا تنظیم کی تشکیل بھارتی فوج نے ہی کی تھی۔ اس گوریلا تنظیم نے قتل عام شروع کررکھا تھا۔بھارتی فوجی اہلکار سادہ لباس میں تخریبی کارروائیوں میں شامل تھے۔عمارتیںاور ذرائع مواصلات خاص طور پر ان کے نشانہ بن رہے تھے اور غیر بنگالی مسلمان تو بالکل غیر محفوظ تھے۔ ہندوستانی فوج اور مکتی باہنی خودکار ہتھیار سنبھالے بازاروں میں آزادانہ پھرتے اور جو چاہتے کرتے۔ حالات تیزی سے بگاڑے جا رہے تھے۔ پاکستانی فوج کئی محاذوں پر لڑ رہی تھی جبکہ سرحدوں پر شدید دبائو تھا۔ عوامی لیگ کے مطالبات اور دیگر وجوہات مین دن بدن شدت آتی جا رہی تھی کہ16دسمبر کی وہ سیاہ صبح دلوں پر لرزہ طاری کرتے سقوط ڈھاکہ کی خبروں کے ساتھ آ ہی گئی۔ آسمان ٹوٹ پڑا مغربی اور مشرقی پاکستان جو ایک دل و جان تھے۔ دو لخت ہو گئے سفاکیت کے ان ایام میںکہ جب انسانیت کٹ رہی تھی، مسلمان ذبح ہورہے تھے، مشرقی پاکستان جل رہا تھا، مکتی باہنی کے قتل عام کا سلسلہ جاری تھا، جلائو گھیرائو اور عصمتوں کی پامالی ہو رہی تھی۔ آج بھارت کا وزیر اعظم نریندر مودی ان واقعات کو زندگی کے یاد گار لمحات کہہ کر اقبالِ جرم کررہا ہے کہ مکتی باہنی اور بھارتی فوج میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی نے دہلی میں پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہم نے دوقومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔حالانکہ اس خطہ میں اب ایک کے بجائے دو مسلمان ملک بن گئے ہیں۔ 16دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکہ رونما ہوا لیکن بنگالی عوام پر یہ حقیقت آشکار ہو چکی تھی کہ شیخ مجیب صرف بھارت کا وفادار ایجنٹ تھا۔اسی لئے اسے بیٹوں سمیت 1975میں موت کے گھاٹ اُتاردیا گیا۔ اور پھرفوج کے ہاتھوں اس کے المناک انجام کے بعد اس کی بیٹی حسینہ واجد کو وزیر اعظم بننے کا موقع مل گیا۔ بنگلہ دیش کے آج تک کے حالات و واقعات اس امر کے گواہ ہیں کہ فوج نے شیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت کو تسلیم نہ کیا ،چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مجیب اتنا ہی بنگالی قوم کا لیڈر تھا تو اُسے بنگلہ دیشی فوج نے ہی کیوںقتل کر دیا۔