9مئی والے 10 مئی سے خوش نہیں 

پاکستان کے حالیہ سرحدی بحران کے دوران بھی 9 مئی والوںنے اپنا حکومت ، عسکری مخالف بیانیہ جاری رکھا جسے ہر پاکستانی حتی کے کپتان کا راگ الاپنے والوں نے بھی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس موقع پر اپنے وطن سے بے پناہ محبت کا اظہارکیا ، کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم مشکل حالات خاص طور پر اگر کوئی غیر ملک پاکستان پر میلی آنکھ ڈالے تو اس قوم کا اتحاد قابل دید ہوتا ہے مگر یہ 9مئی والے تو کسی خاص مٹی اور سوچ سے تعلق رکھتے ہیں انکے لئے ایک بہترین موقع تھا کہ انکے بیانئے سے پاکستان کی سیاسی فضاء جس طرح خراب ہوئی تھی اس میں کچھ فیصد تک انہیں ریلیف ملتا حالانکہ عسکری قیادت اور پاکستان فوج کے متعلق انکے سوشل میڈیا ہو ں یا انکی اعلی قیادت کے بیانئے ، اور حرکات قابل معافی ہرگز نہیں ، جان کی امان پائوںتو عرض کروں کہ ہمارے پیچیدہ اور منتشر عدالتی نظام کی وجہ سے 9مئی والے گزشتہ دو سال سے زائد سزائوںسے بہت دور ہیںعوام اس منفی بیانیہ سے جب ہی دور ہونگے جب انہیں معاشی طور پر سکون ملے گا حالانکہ اڈیالہ کا باسی تو کہتا تھا کہ ’’سکون تو قبر میں ہی ملتا ہے ‘‘ مگر موجود ہ حکومت اسکے برعکس کوشش کررہی ہے کہ ملک کے معاشی حالات مثبت ہوجائیں مگر اراکین اسمبلی ، وزراء کی تنخواہوں میں ہوشرباء اضافہ عوام میں نفرت کا باعث بن رہا ہے اور 9مئی والی جماعت سے معیشت کے حوالے سے پروپگنڈے جاری ہیں یہ سوچے بغیر کہ اسوقت کونسے معاشی حالات بہتر تھے ؟ اس ماہ کے اوائل میں پاکستان کی سرحدوںپر حالیہ کشیدگی کے دوران، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے وابستہ سوشل میڈیا سرگرمیاں اپنی روش برقرار رکھی رہی ہیں جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ایسے مواد کو پھیلانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے جسے کچھ حکام اور تجزیہ کار ریاست مخالف یا اشتعال انگیزی سے تعبیر کرتے ہیں۔ مارچ 2025ء میں جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ جیسے واقعات کے بعد، پی ٹی آئی سے وابستہ اکاؤنٹس پر الزام لگایا گیا کہ وہ بیانیہ کو بڑھا رہے ہیں جو پڑوس کے میڈیا کی تصویروں سے ہم آہنگ ہیں، جنہیں بعد میں پروپیگنڈا کے طور پر مسترد کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں یہ الزامات عائد ہوئے کہ پی ٹی آئی کی ڈیجیٹل موجودگی کو بیرونی اداکاروں کے ذریعے مزید مخصوص ایجنڈوں کے لیے منتخب کیا جا رہا ہے۔ اسکا ثبوت آج بھی پڑوس کے میڈیا پر موجود ہے جو سرحدی کشیدگی میں اس جماعت اور اسکے رہنمائوں کے بیانیہ کو آزادآنہ پیش کرتا رہا ، منفی معاملات کبھی پایہ تکمیل کو نہیںپہنچتے ، جس جماعت کا بیانیہ ہی قابل قبول
 نہ ہو اور ملک کو نقصان پہنچائے وہان اس جماعت کے اندر بھی خلفشار پیدا ہوتا ہے جو آج ظاہر ہے ، بیگم گروپ، بہن گروپ، وکلاء￿ گروپ ، سیاسی گروپ ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیںانکے تمام بیانات اندر بیٹھے ہوئے انکے کپتان کیلئے مشکلات پید اکررہے ہیں ، ہر جماعت کے چاہنے والے ہوتے ہیں پاکستان کے کچھ بڑی آبادی والے شہر تعلیم سے کم شخصیات سے زیادہ محبت کرتے ہیںوہاں جھوٹے بیانئے اپنا کام کرتے ہیں سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تو مریم نواز نے ترقی کے کے ایسے دروازے کھول دئے ہیں جہاں کسی اور جماعت کاوجود ناممکن ہوگیا ہے ، اسکے باوجود کپتان کا ایک سحر ہے جو اسے سزا نہ دیکر ، اسے وی آئی پی قیدی بناکرجسے وہاںپریس کانفرنس ، بیانات جاری کرنے کی آزادی ہے عوام میں مقبولیت شائد حاصل ہوجائے ، افسوس ان لوگوںپر ہے جو سوشل میڈیا پر سب

 کچھ جانتے ہوئے خان کیلئے گرما گرم بے پرکی خبریں اسلئے دیتے ہیں کہ اس پر ’’لائک ‘‘ملتے ہیں اوراس ’’لائک ‘‘سے یو ٹیوب سے انہیں پیسے ملتے ہیں ، پیسہ ضروری ہے ملک کی سالمیت اور حقیت ایک طرف۔اسکے برعکس پی پی پی ، ہو یا مسلم لیگ اسکا نہ ہی سرگرم سوشل میڈیا ہے اور نہ ہی لائک کرنے والوںکی بڑی تعداد یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے ، اندھی محبت کرنے والوں کے اوتار کو حالیہ پاک بھارت کشمکش میں ایک سنہری موقع ملا جس سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنے سیاسی مخالف شریفوں کو ناک آئوٹ کروا سکتے تھے تحریک انصاف کو غیبی قوتوںنے ایک موقع دیا وہ لوگ جو سیاست کرنا چاہتے ہیں قومی دھارے پر رہ کر انکی ملاقات بھی گروپ کی شکل میںکرائی گئی کہ اسوقت کوئی محب وطنی کا بیانیہ جاری ہو مگر ان سبکو منہ کی کھانی پڑی اڈیالہ سے وطن سے محبت کا کوئی بیانیہ نہیںآیا اور وکلاء گروپ خاموش ہوکر بیٹھ گیا ، ایک خامخواہ کا بیان دا غ دیا گیا کہ جب پڑوس سے سیز فائر ہوسکتا ہے تو تحریک انصاف سے کیوںنہیں ، بھائی پڑوس کو بھی ہمارے جانفشاں ، بہادر قیادت نے جو مزا چکھایا وہ دنیا نے دیکھا ، انہوںنے قائد اعظم کی تصاویرکو پیروںمیں نہیں روندا تھا شنید ہے کشیدگی سے ایک دن پہلے ایک اہم ترین حکومتی ذمہ دار نے تحریک انصاف کے رہنمائوں کو پیغام دیا کہ اگر تحریک انصاف مشترکہ کانفرنس میں شامل ہونے کی حامی بھرے تو حکومت اور مقتدرہ آل پارٹیز کانفرنس کا فوری اہتمام کرسکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی جیل سے باہر بیٹھی قیادت نے کپتان کو قائل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن جیل میں بیٹھے چیتے نے صاف انکارکردیا ا موقع ضائع ہوا خان کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ، ہماری جانب سے سیز فائر سے قبل جو بھی بہادرانہ اقدام ہوئے عوامی حمائت اور سیاسی قیادت کے بغیر جنگ لڑکراس کشیدگی کے اکیلے فاتح جنرل عاصم منیر ہیں جو عوامی مقبولیت کے اس اعلیٰ مقام پر فائز ہوگئے ہیں دراصل پی ٹی آئی کے ڈالر کمانے والے یو ٹیوبرز عمران خان کو مفاہمت کی طرف جانے ہی نہیں دیتے کیونکہ مفاہمت سے ان کی روزی روٹی بند ہو سکتی ہے ، مجھے یاد ہے کہ دوران حکومت جب تحریک انصاف کے اسوقت کے رہنماء فیاض چوہان اپنے بیانات میں مخالفین کی بہنو ںبیٹوںکے خلاف بیان بازی کرتے تھے فیاض چوہان کو کپتان ’’چیتے اور شیر کے القاب سے نوازتے تھے یہ ایک خوش آئین بات ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر، سرکاری سوشل میڈیا چینلز کے غیر منظم استعمال پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ پارٹی قیادت نے ایک نگرانی کے طریقہ کار کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مواد پارٹی کی پالیسیوں کے مطابق ہو اور نادانستہ طور پر ریاستی اداروں کے ساتھ تناؤ میں اضافہ نہ ہو مگر جماعت
 میںگروپنگ کی وجہ سے یہ خواہش رکھنے والا گروپ کتنا مضبوط ہے یہ علیحدہ بات ہے۔ اشاعت سے پہلے مواد کی جانچ کے لیے ایک کمیٹی قائم کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے پی ٹی آئی سے وابستہ افراد کا فعال طور پر تعاقب کیا ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غلط معلومات یا نفرت انگیز تقاریر پھیلائی ہیں۔ یہ لوگ ملک میں قابل گرفت ہیں مگر یہ زیادہ تر بیرون ملک ہیںجن پر ہمارے بیرون ملک سفارتخانے اور قونصل خانے کوئی واضح دسترس نہیں رکھتے۔کئی سابقہ سفارت کار اگر یو ٹیوب یا وی لاگ نہیںبناسکتے تو پاکستان کی قیادت چاہے وہ سیاسی ہو یا عسکری اسکے خلاف اپنے فیس بک پر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن