صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے ’’معرکہ حق‘‘ میں مادرِ وطن پر جان نچھاور کرنے والے شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے جس قومی اتحاد، فوجی پیشہ ورانہ مہارت اور شہادت کے جذبے کو سراہا، وہ قابلِ فخر اور قومی روح کا آئینہ دار ہے۔ صدر مملکت نے بجا طور پر کہا کہ افواج پاکستان نے ’’آپریشن بنیان المرصوص‘‘ میں دشمن کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ یہ آپریشن نہ صرف ایک دفاعی ردعمل تھا بلکہ دشمن کے عزائم کے خلاف ایک واضح پیغام تھا کہ پاکستان اپنی خودمختاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔وزیراعظم شہباز شریف نے شہدا اور ان کے اہلِ خانہ کو قوم کا سرمایہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے نہ صرف اپنی سرحدوں کا دفاع کیا بلکہ دشمن کے ناپاک عزائم کو بھی خاک میں ملا دیا۔ 40 سے زائد معصوم شہریوں کی شہادت، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، بھارت کے جنگی جنون کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
معرکۂ حق صرف ایک عسکری کارروائی نہیں بلکہ ایک قوم کی عزت، خودداری اور بقا کی جدوجہد کا نام ہے۔ یہ معرکہ اس وقت رونما ہوا جب بھارت نے ایک بار پھر اپنی روایتی ہٹ دھرمی، اشتعال انگیزی اور توسیع پسندانہ عزائم کے تحت پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا۔ مگر دشمن کی یہ چال الٹ گئی۔ افواجِ پاکستان نے ایک بار پھر دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے، اور یہ ثابت کر دیا کہ دفاعِ وطن کے لیے نہ ہم کمزور ہیں، نہ غافل۔
بھارت کی عددی برتری کا زعم رکھنے والی فوج کو جس انداز سے پاکستانی افواج نے شکست دی، وہ نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا بھر کے عسکری تجزیہ کاروں کے لیے حیران کن تھا۔ بھارت کی جارحیت نے جہاں پاکستان کی عسکری طاقت کو چیلنج کیا، وہیں پاکستانی قوم کے اتحاد کو بھی مزید مضبوط کیا۔ دشمن کو واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ ہر جارحیت کا بھرپور اور فیصلہ کن جواب دیا گیا ہے اور آئندہ بھی دیا جائے گا۔یہ قربانیاں وقتی ردعمل نہیں بلکہ اس قومی عزم کے تسلسل کا حصہ ہیں جو قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک جاری ہے۔ مادرِ وطن کے سپوتوں نے اپنے آج کو قوم کے کل پر قربان کیا ہے۔ قوم ان شہداء کو سلام پیش کرتی ہے، اور یہ قربانیاں نہ ماضی میں بھلائی گئیں، نہ اب بھلائی جائیں گی۔
بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کی طرف قوم سے خطاب میں پہلگام ڈرامے کے بعد دیے گئے اشتعال انگیز بیانات اور جھوٹ پر مبنی بیانیے کے ذریعے شکست کی خفت کو چھپانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ دفتر خارجہ پاکستان نے نہایت واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی زبان نفرت، فریب اور خود ساختہ فتح کے دعوؤں سے آلودہ ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں ایک کلیدی کردار ادا کر چکا ہے اور عالمی برادری کو اب بھارت کے جھوٹے دعوؤں میں نہیں آنا چاہیے۔
مسئلہ کشمیر ایک دیرینہ تنازع ہے جس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے۔ پاکستان ہمیشہ اس مسئلے کے پرامن حل کا خواہاں رہا ہے، مگر بھارت کی ہٹ دھرمی خطے کو مسلسل عدم استحکام کی طرف دھکیل رہی ہے۔
بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ایک اور سنگین قدم ہے، جو پانی جیسے انسانی حق کو بھی سیاسی ہتھیار میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ پاکستان نے اسے کھلے لفظوں میں جنگی اقدام قرار دیا اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس خطرناک روش کا فوری نوٹس لے۔ اگر اس معاہدے کی مزید خلاف ورزی کی گئی تو خطے میں سنگین بحران جنم لے سکتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پر بھی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ نئی دہلی سے پاکستانی سفارتکار کی ملک بدری اور پاکستان کی جانب سے جوابی اقدام اس بات کا مظہر ہے کہ تعلقات نہایت نازک موڑ پر ہیں۔ ایسے میں امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے لیے کی گئی سفارتی کوششوں کو سراہا جانا چاہیے، مگر امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں پر یہ لازم ہے کہ وہ بھارت کو جارحانہ رویے سے باز رکھیں اور علاقائی امن کی ضمانت دیں۔
جنگ بندی معاہدے کے باوجود بھارت کی جانب سے مسلسل خلاف ورزیاں اور شرارتیں اس کی بدنیتی کو عیاں کرتی ہیں۔ پاکستان کی "جیسے کو تَیسا" والی پالیسی بھارتی اقدام کے مقابلے میں مؤثر اور ضروری ہے۔ اگر بھارت پابندیاں ختم نہیں کرتا، تو پاکستان بھی بھرپور جواب دے گا۔ اس سلسلے میں سفارتی، سیاسی اور عسکری تمام محاذوں پر تیاری اور چوکس رہنا ضروری ہے۔پاکستان ایک پْرامن ریاست ہے، جس کا عسکری اور سفارتی عزم کبھی کمزوری نہیں بلکہ قومی خودداری کا مظہر ہے۔ بھارت کو یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستانی قوم اور اس کی مسلح افواج دفاعِ وطن کے لیے ہمہ وقت تیار اور یکجا ہیں۔ معرکہ حق اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ پاکستان نہ صرف اپنے دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے بلکہ ہر جارح کو منہ توڑ جواب دینے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔
بھارتی نیت میں فتور نظر آرہا ہے۔ مودی کی تقریر نے حالات پھر کشیدہ کر دیئے ہیں۔جنگ بندی کا تقاضہ ہے کہ بھارت کی طرف سے جو پابندیاں لگائی گئی تھی ان کو ختم کیا جائے۔پاکستان کی طرف سے بھی اسی طرح سے بھارت پر پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔بھارت پابندیاں ختم نہیں کرتا تو پاکستان بھی پابندیاں جاری رکھے گا۔مگر پاکستان کے لیے سندھ طاس معاہدے کی مزید معطلی ناقابل برداشت ہے۔یہ پاکستان اور پاکستانیوں کی بقا کا معاملہ ہے۔ پاکستان نے اسے جنگی اقدام قرار دیا تھا۔صدر ٹرمپ سیز فائر کے ضامن ہیں۔ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی معطلی ختم کرنے پر آمادہ کریں دوسری صورت میں یہ معطلی خطے کے امن کو داؤ پر لگا سکتی ہے۔