ٹرمپ کارڈ

 گلوبل ویلج                
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
تقسیم کے موقع پر لارڈ ماﺅنٹ بیٹن سے کسی نے پوچھا کہ آزادی کے بعد پاکستان اور انڈیا یہ کس طرح سے رہیں گے، ان کا کیا سٹیٹس ہو گا،باہمی تعلقات کیسے ہوں گے تو اس پر ماﺅنٹ بیٹن نے مثال دی تھی کہ یہ دونوں ممالک اسی طرح رہیں گے جس طرح امریکہ اور کینیڈا ہیں۔ امریکہ کی چھتری تلے کینیڈا ہے۔ اسی طرح اس خطے میں بھارت کا ہولڈ ہو گا اور پاکستان اس کی چھتری تلے رہے گا۔ یہ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی سوچ تھی لیکن پاکستان اور بھارت کے تعلقات پہلے دن سے ہی اختلافا ت کا شکار ہوتے ہوتے دشمنی اور پھر نوبت جنگوں تک بھی پہنچ گئی۔ ادھر امریکہ اور کینیڈا کے باہمی تعلقات کو مثالی قرار دیا جاتا رہا۔ صدر ٹرمپ نے ابھی حلف اٹھایا نہیں کہ ان کی طرف سے جو کچھ کہا جا رہا ہے اس سے ایک دفعہ تو پوری دنیا ہی لرز گئی۔جب کہ یہ کہا جائے کہ کینیڈین حکمران اور کچھ طبقات حواس باختہ ہو گئے اور بلکہ ان کے ہوش کے طوطے اڑ گئے توبھی غلط نہ ہوگا۔ رقبے کے لحاظ سے روس کے بعد کینیڈا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس میں سے تین چار امریکہ نکل سکتے ہیں۔ٹرمپ نے نے کینیڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست قرار دے دیا اور ساتھ انہوں نے کہا کہ کینیڈا ہمارے ساتھ شامل ہو جائے۔
 کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو ٹرمپ کو مبارک باد دینے امریکہ گئے تو وہ واپس اپنے وطن آتے ہیں۔ اس کے بعد جو پہلی گفتگو ٹرمپ کی طرف سے کی گئی اس میں انہوں نے جسٹن ٹروڈو کو پرائم منسٹر نہیں بلکہ گورنر جنرل کینیڈا کہا۔اس سے کچھ لوگوں کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ ٹرمپ اپنے کہے پر سنجیدہ ہیں۔ کینیڈا ترقی یافتہ ملک ہے لیکن بہت سے معاملات پر اسے امریکہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ کہتا ہے کہ ہم سالانہ جو فسیلیٹیٹ کرتے ہیں، جو ٹیکس میں چھوٹ دیتے ،جو مدد کرتے ہیں وہ دو سو ارب ڈالر کی ہے۔ ٹرمپ نے صرف کینیڈا کو ہی نہیں بلکہ انہوں ایک باقاعدہ ایک نیا آنے والا وزیررچرڈ گرینل کو پاکستان ہر بھی لگا دیا۔ پاکستان کے خلاف انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔ سیاسی معاملات کے حوالے سے عمران خان کی حمایت کی گئی۔ اس پر عمران خان کے مخالفین کی طرف سے تحفظات کا اظہار فطری امر تھا لیکن یہ اتنی بڑی کوئی بین الاقوامی موو نہیں ہے۔جو کینیڈا کے حوالے سے ٹرمپ نے کہا وہ بہت بڑی بات ہے۔۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے میکسیکو کے حوالے سے بھی با ت کی۔ انہوں نے کہا کہ میکسیکو خلیج کو امریکی خلیج کا نام دے دیا جائے گا۔ پچھلے ٹینور میں انہوں نے ایک پوری دیوار میکسیکو کے ساتھ بنا دی تھی تاکہ غیرقانونی امریکہ میں داخل ہونے والے لوگوں کو روکا جا سکے۔ٹرمپ نے یہ کہا تھا کہ اس کے اخراجات بھی میکسیکو ادا کرے گا،بہرحال اخراجات تو نہیں لیے دیوار بنا دی تھی۔ پانامہ نہر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ ہم نے نہر پانامہ کے حوالے کی تھی سارے اخراجات ہمارے آئے تھے۔ لیکن وہاں پر چین کو زیادہ فسیلیٹیٹ کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈنمارک کو بھی ٹرمپ کی طرف سے آنکھیں دکھائی گئی ہیں۔ گرین لینڈ جو ڈنمارک کا ایریا ہے اس پر بھی ٹرمپ کی نظریں ہیں۔ 
ٹرمپ کے آنے سے دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ یہاں پر کہنا یہ ہے کہ ”ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات“کینیڈا اگر دفاعی حوالے سے طاقتور ہوتا تو امریکہ اسے اپنے ساتھ ملانے کی کبھی ایسی بات نہیں کرتا۔ 
آپ اپنے خطے کو دیکھ لیں کشمیر اگر مضبوط ہوتا تو بھارت اس پر کبھی قبضہ نہ کرتا۔ کشمیر پر ایک طرف بھارت نے اس پر قبضہ کر لیا۔ چین بھی کئی علاقوں پر دعوی کرتا ہے۔ پاکستان کا بھی بڑے علاقے پر نہ صرف دعویٰ ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ کشمیری اپنی مرضی سے ملے بھی ہیں۔ اگر کشمیر مضبوط ملک ہوتا اس کا راجہ مصلحتوں کا شکار نہ ہوتاتو اس پر کہیں سے قبضہ نہ کیا جاتا۔ پانچ سو سے زیادہ ریاستیں تقسیم کے موقع پر موجود تھیں۔ ان میں زیادہ پربھار ت نے قبضہ کر لیا، کچھ ریاستوں جونا گڑھ ،حیدرآباد، کشمیر نے اپنے طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی کوشش کی لیکن بھارت آڑے آ گیا۔ کمزوری کی بات کی جائے تو پرتگا ل سے 1961میں بھارت گوا چھین کر اپنے تسلط میں لے آیا تھا۔ یوکرین نے کچھ عرصہ قبل ہی اپنے ایٹمی اثاثے ختم کر دیئے تھے۔ اگر اسے پتہ ہوتا کہ کل کوروس اس پر چڑھائی کر دے گا تو وہ اپنی ایٹمی قوت کبھی ختم نہ کرتا۔ یہ بھی جرم ضعیفی ہی ہے۔ ٹرمپ کے آنے سے ویسے دنیا بدلتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ نیٹوسب سے زیادہ اس کا نشانہ بننے والا ہے۔ نیٹو ٹوٹ رہی ہے۔ یورپین یونین اپنی جی ڈی پی کا دو فیصد نیٹو کو اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے ادا کرتا تھا۔ ایلون مسک کی طرف سے اب کہا گیا ہے کہ چار فیصد دے، اگر وہ چار فیصد نہیں دیتا تو پھر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس میں شکست و ریخت ہو گی۔ امریکہ اس کے سارے اخراجات برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
 مجھے نہ صرف نیٹو ٹوٹتا ہوتا نظر آ رہا ہے بلکہ یورپ میں بھی کچھ تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔ ایک طرف مور گریٹر امریکہ کی خواہش پائی جا رہی ہے۔دوسری طرف اسرائیل نے گریٹر اسرائیل کی بات پھر سے کر دی ہے وہ اردن، لبنان ،سیریا، عراق کو بھی اپنے تسلط میں لینا چاہتا ہے۔اسرائیل کے لیے کوئی مشکل نہیں ہوگا، نہ ہی امریکہ کے لیے اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں پرعمل کروانا مشکل ہے۔کیونکہ بڑے عرب ممالک آج بھی اسرائیل کے سامنے کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پچھلی صدی میں روس ٹوٹا اس میں سے کتنے ممالک نکل آئے ، اس صدی میں لگتا ہے کہ یہ بلاکوں کی صدی ہے ایک طرف نارتھ امریکہ میں امریکہ کا بلاک جس میں ٹرمپ اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے اس خطے پر اپنا تسلط حاصل کر سکتا ہے۔ روس اپنا مضبوط بلاک بنا سکتا ہے ،جنوبی ایشیا میں پاکستان اتنا طاقتور نہ ہوتا تو بھارت کب کا ایسا کوئی بلاک بنا چکا ہوتا۔خطے کے بڑے حصے کو چین اپنی چھتری تلے لے سکتا ہے۔ اسی صدی میں ہو سکتا ہے کہ دو سو کے قریب ممالک یہ دنیا میں پانچ یا چھ بلاکوں میں سمٹ جائیں۔

ای پیپر دی نیشن