گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
یہ خبر اچنبھے سے کم نہیں کہ قومی اسمبلی میں کورم مسلسل پورا نہیں ہو رہا۔ اس تشویش ناک خبر پر ذرا نظر ڈالتے ہیں: قومی اسمبلی کا اجلاس مسلسل دوسرے بھی کورم کی نذر ،اجلاس کسی کارروائی کے بغیر تین روز بعد تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا،بار بار کورم کی نشاندہی پر سپیکر اپوزیشن پر برہم ہوگئے۔حالانکہ کورم پورا کرنا اپوزیشن نہیں بلکہ حکومتی پارٹیوں کی زیادہ ذمہ داری ہے۔ البتہ اپوزیشن کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ وہ بھی اتنے ہی کورم پورا کرنے کے ذمہ دار ہیں جتنے کسی بھی پارٹی کے ارکان ہوتے ہیں۔ جمعہ کیلئے قومی اسمبلی سیکر ٹیریٹ نے 18نکاتی ایجنڈا جاری کیا تھاجو زیر بحث نہ آ سکا۔
سپیکر نے کہا،افسوس اپوزیشن خود ایوان کی کارروائی کا حصہ نہیں بن رہی،با ر بار کورم کی نشاندہی پر ایاز صادق بر ہم ہوگئے۔سپیکر نے وقفہ سوالات کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا اور شر میلا فاروقی کا سوال پکارا تو پی ٹی آئی کے ایم این اے اقبال آفریدی نے کورم کی نشاندہی کردی۔سپیکر ایاز صادق نے ارکان کی گنتی کا حکم دے دیا تاہم با ر بار کورم کی نشاندہی پر ناراضی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کل بھی زیادہ سوالات اپو زیشن کے تھے۔ آج بھی زیادہ سوالات اپو زیشن کے ہیں۔ آپ لوگ خود ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دیتے۔
پاکستان میں جمہوری نظام کو بہتر بنانے کی ہر کاوش اس وقت بے معنی ہو جاتی ہے جب عوامی نمائندے خود اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ، جو قانون سازی کا اعلیٰ ترین ادارہ ہے، اگر اس کے اجلاس کورم کی کمی کے باعث بار بار ملتوی ہوں، تو یہ ایک سنگین جمہوری بحران کی علامت ہے۔ ایک عام شہری کا سوال یہی ہوتا ہے: آخر یہ مقدس گائے کون ہیں؟
ہم اپنے ووٹوں سے جن ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں، ان کا اولین اور بنیادی کام قانون سازی ہے، نہ کہ عوامی مسائل کے لیے بجلی، گیس، پانی کے کنکشن دلانا یا سڑکیں بنوانا۔ ان کا کردار پالیسی سازی تک محدود ہوتا ہے۔ مقامی ترقیاتی کاموں کے لیے دنیا بھر میں بلدیاتی نظام کو ہی بااختیار بنایا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اختیارات اور فنڈز کو بلدیاتی اداروں کے بجائے ایم این اے اور ایم پی اے کی جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے، جو جمہوری روح کے منافی ہے۔
مراعات کی انتہا، کارکردگی کی کمی:ایک عام رکن قومی اسمبلی حکومت کو ماہانہ 35 سے 40 لاکھ روپے میں پڑتا ہے۔ یہ رقم تنخواہوں، ٹی اے/ڈی اے، مفت ہوائی سفر، رہائش، بلوں کی ادائیگی، میڈیکل، سرکاری گاڑیوں اور ان کے عملے کی مد میں شامل ہوتی ہے۔ اس کے باوجود پارلیمنٹ میں حاضری نہ دینا اور قانون سازی سے لاتعلقی دکھانا افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک ہے۔ جب 342 ارکان پر مشتمل قومی اسمبلی میں 86 ارکان بھی اجلاس میں شریک نہ ہوں تو یہ جمہوریت کی بے حرمتی ہے۔یہی نہیں، ہر رکن کو مختلف قائمہ کمیٹیوں کا ممبر بنایا جاتا ہے۔ بعض ارکان بیک وقت 5 سے 7 کمیٹیوں کے رکن ہوتے ہیں، اور ہر کمیٹی کی رکنیت کے ساتھ اضافی مراعات بھی حاصل کرتے ہیں۔ ان کمیٹیوں میں دفاع، خارجہ، خزانہ، صحت، تعلیم، ریلوے، انویسٹی گیشن، اور دیگر شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کمیٹیوں کے اجلاس کتنی بار ہوتے ہیں؟ اور ان میں عوامی مفاد کے کتنے فیصلے کیے جاتے ہیں؟
جمہوریت یا مفادات کا کھیل؟بدقسمتی سے ہماری جمہوریت کا محور عوامی فلاح نہیں بلکہ ذاتی مفادات کا حصول بن چکا ہے۔ منصوبوں کی لاگت وقت گزرنے کے ساتھ کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ایک سڑک جو 50 ارب میں مکمل ہونی تھی، تاخیر اور کرپشن کے باعث 300 ارب میں جا کر مکمل ہوتی ہے۔ تاخیر کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ قانون سازی میں رکاوٹیں، بیوروکریسی کا غیر فعال کردار، اور پارلیمنٹیرینز کی غیر حاضری جیسے عوامل ہیں۔ ان حالات میں کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ سرمایہ کار پاکستان کا رخ کریں گے؟بیوروکریسی کی اجارہ داری، شفافیت کی کمی اور پالیسیاں بننے میں تاخیر نے سرمایہ کاری کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ بیرونی دنیا میں جب کوئی ملک ترقی کرتا ہے، تو اس کے پیچھے ایک فعال، ذمہ دار اور عوام دوست قانون ساز ادارہ ہوتا ہے۔ یورپ، امریکہ، ترکی، ملائیشیا، اور حتیٰ کہ دبئی جیسے ممالک میں بھی پارلیمنٹیرینز کو ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کیے جاتے۔ ان کا کام صرف قانون سازی ہے، مقامی ترقیاتی کام بلدیاتی نمائندے انجام دیتے ہیں۔
احتساب کا فقدان: آئین موم کی ناک؟دنیا بھر میں جو رکن پارلیمنٹ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتا، اسے عوامی، آئینی اور عدالتی سطح پر باز پرس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن پاکستان میں معاملہ بالکل برعکس ہے۔ یہاں کوئی رکن اسمبلی اگر ایک سال بھی ایوان میں نہ آئے، تو اس سے نہ پوچھا جاتا ہے، نہ اس کی تنخواہ رْکتی ہے، نہ کوئی سزا دی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک کیا ہوگا کہ پارلیمنٹیرین کے لیے آئین اور قانون موم کی ناک بن چکے ہیں۔
کئی بار یہ کہا جاتا ہے کہ ملک کے مسائل کی جڑ اسٹیبلشمنٹ ہے۔ مگر کیا کبھی کسی نے سوچا کہ پارلیمنٹیرینز، جن پر قوم ہر سال اربوں روپے خرچ کرتی ہے، انہوں نے اپنا کردار کیوں ادا نہیں کیا؟ اگر سیاستدان خود کو بہتر کر لیں، اپنی ذمہ داری نبھائیں، ایوانوں میں آئیں، عوامی فلاح کے لیے قانون سازی کریں، تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ترقی کی راہ پر نہ چل پڑے۔کون ہے مقدس گائے؟پاکستان میں اکثر اوقات مختلف ادارے اپنے آپ کو "مقدس گائے" سمجھتے ہیں، یعنی ان پر تنقید نہیں ہو سکتی، ان سے سوال نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اب سیاستدانوں کے رویے بھی کچھ مختلف نہیں رہے۔ وہ عوامی نمائندے ہونے کے باوجود اپنے آپ کو احتساب سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ جو طبقہ سب سے زیادہ عوامی پیسے پر پل رہا ہے، وہی سب سے زیادہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
پارلیمنٹیرینز کا یہ طرز عمل نہ صرف جمہوریت کے ساتھ مذاق ہے بلکہ عوامی اعتماد کی توہین بھی ہے۔ جب عوام ٹیکس دیتے ہیں، تو وہ امید کرتے ہیں کہ ان کے نمائندے ان کی آواز بنیں گے۔ لیکن اگر وہی نمائندے ذاتی مفاد میں گم ہو جائیں، قانون سازی سے غافل رہیں، اور مراعات سے بھرپور زندگی گزاریں، تو پھر سوال اْٹھتا ہے — آخر مقدس گائے کون ہے؟
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادوں کو ازسرِ نو پرکھیں۔ ضروری ہے کہ:-1 پارلیمنٹیرینز کی حاضری کو لازمی قرار دیا جائے اور غیر حاضری پر تنخواہ کاٹے جانے کا قانون بنایا جائے۔-2 ایم این اے/ایم پی اے کو ترقیاتی فنڈز دینے کا سلسلہ بند کیا جائے اور یہ فنڈز صرف بلدیاتی نمائندوں کو دیے جائیں۔-3 قائمہ کمیٹیوں کی کارکردگی کا سالانہ جائزہ عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔-4 مراعات کے نظام کو شفاف اور معقول بنایا جائے۔-5 رکن اسمبلی کی کارکردگی کو انتخابی بنیاد پر عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ عوام اگلی بار فیصلہ بہتر کر سکیں۔
پاکستان اگر ترقی کرنا چاہتا ہے تو اسے ایسے نمائندوں کی ضرورت ہے جو خود کو عوام کا خادم سمجھیں، نہ کہ مراعات یافتہ طبقہ۔