ماں کی عظمت کو ہردم سلام

دنیا بھر میںماؤں کا عالمی دن ہر سال مئی کے کے دوسرے سنڈے کو منایا جاتا ہے،اس بار ۱۱ مئی کو ملک میں غیر معمولی صورتحال یعنی بھارت کی مسلط کردہ جنگ کی وجہ سے یہ دن  اپنی تمام تر عظمت و حقانیت کے ساتھ  رخصت ہوا۔ ماں کا رتبہ دین اسلام میں بھی بلند ترین درجے پر رکھا گیا ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی عظمت کو واضح طور پر بیان کیا گیا۔ ماں کی شفقت، قربانی اور محبت کو اس قدر اہمیت دی گئی کہ اس کا احترام اور خدمت انسان کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے:  "اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا، اس کی ماں نے اسے تکلیف کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور تکلیف کے ساتھ اسے جنا ''یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ ماں کی عظمت اس کی قربانیوں، مشقت اور محبت کے سبب انتہائی اہم ہے۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:  "جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ''ایک صحابی نے سوال کیا: "یا رسول اللہ! لوگوں میں سے کون میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار ہے؟"  آپ ؐنے فرمایا: "تمہاری ماں"اس نے دوبارہ پوچھا: "پھر کون؟"آپ ؐ نے فرمایا: "تمہاری ماں  اس نے تیسری بار پوچھا "پھر کون؟" آپ ؐ نے فرمایا: "تمہاری ماں"  جب اس نے چوتھی بار پوچھا، تو آپ ؐ نے فرمایا: تمہارا والد (صحیح بخاری )…ماں کے دل سے قریب عزیز ترین رشتے کے تعارف کیلئے لفظوں کا سہارا لینا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ بڑے سے بڑا فلاسفر اور تاریخ دان بھی آج تک ماں اور ماتا کے انمول جذبے کو لفظوں میں ڈھال نہیں سکا۔ سابق جوائنٹ سیکرٹری نیشنل پریس کلب شکیلہ جلیل' پریذیڈنٹ آل پاکستان چائینز اوورسیز فیڈریشن عاصمہ اسماعیل بٹ' ممتاز محقق دانشور ڈاکٹر مسرت امین ' پرنسپل اسلامیہ پبلک سکول بیگم شازیہ اختر' علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی شعبہ ابلاغیات کی معلمہ سویرا ندیم عباسی' راولپنڈی تعلیمی بورڈکی مریم افتخار' راول انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنز کی عامرہ حیات' پرنسپل پنجاب کالج ریاض چوہان، سینئر معلمہ بیگم نورین ثاقب' سربراہ ترک پاک وویمن فورم شبانہ ایاز'  ادارہ فروغ قومی زبان کی نایاب شاہ ، پرسٹن یونیورسٹی کی ڈاکٹر مقصودہ حسین اور سابق وفاقی وزیر قانون اقبال احمد خان کی صاحب زادی فرح اقبال اور ان سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی  میں خدمات انجام دینے والی خواتین مائیں بھی ہیں اور بیٹیاں بھی ان کا کہنا ہے اپنی تمام تر کامیابیوں کیلئے آج تک وہ اپنی ماں کی قابل ر شک محبت اور عقیدت کی مقروض ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی اور زندگی سے جڑی ساری خوشیاں’ ساری کامیابیاں اور ساری عزتیں ماں کی خدمت‘ رہنمائی اور ان کی دعاؤں کا بدلہ اور ثمر ہے۔
پیار کرتا ہے نیازی یہ زمانہ مجھ سے
یہ میری ماں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے
 عالمی یومِ ماں کی ابتدا 1908 میں ہوئی جب گھریلوں مصنوعات بنانیوالی خاتون انا جاروس نے اپنی والدہ کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے پہلی بار یہ دن منایا۔ بعد ازاں، 1914 میں امریکی صدر ووڈرو ولسن نے اسے سرکاری تعطیل کے طور پر منانے کا اعلان کیا، اور تب سے یہ دنیا بھر میں مختلف تاریخوں پر منایا جاتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ماں کے احترام کا تصور قدیم تہذیبوں میں بھی موجود تھا۔ یونانی اور رومی تہذیبوں میں ماں دیویوں(Mother Goddesses) جیسے ریا (Rhea) اور سائبیل (Cybele) کی تعظیم کے لیے خصوصی تقریبات منعقد کی جاتی تھیں  برطانیہ میں مدرنگ سنڈے کی روایت قرونِ وسطی میں شروع ہوئی، جہاں لوگ چوتھے اتوار کو اپنی "مدر چرچ" (Mother Church) میں عبادت کے لیے جاتے اور اپنی ماں کو تحائف دیتے تھے۔  یہ دن آج بھی مختلف ممالک میں مختلف تاریخوں پر منایا جاتا ہے، لیکن زیادہ تر ممالک میں مئی کے دوسرے اتوارکو عالمی یومِ ماں منایا جاتا ہے۔آج بھی  ماں کا کردار دنیا کے ہر خطے میں معاشرتی اور نفسیاتی سطح پر بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ماں  نسلوں کی تربیت کرتی ہے، معاشرتی اقدار کو پروان چڑھاتی ہے، اور بچوں کی شخصیت سازی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ ماہرینِ عمرانیات کے مطابق ماں نہ صرف گھر کی روحانی و اخلاقی راہنما ہوتی ہے بلکہ پورے سماجی ڈھانچے کی بنیاد بھی ہوتی ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ماں کی شفقت اور تربیت بچوں میں خود اعتمادی، اخلاقی استحکام اور ذہنی مضبوطی پیدا کرتی ہے۔ نفسیاتی ماہرین کے مطابق وہ اپنے بچوں کی کامیابی کے لیے ہر مشکل برداشت کرتی ہے اور ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ عظیم مائیں جنہوں نے تاریخ ساز شخصیات کی تشکیل میں کردار ادا کیا۔ وہ نہ صرف خود عظیم تھی بلکہ ان کی تربیت میں بھی اعلی اخلاقی عزائم شامل تھے۔تاریخ میں کئی عظیم شخصیات کی کامیابی کے پیچھے ان کی ماں کی انتھک محنت اور جدوجہد شامل رہی ہے۔ نینسی ایڈیسن، جنہوں نے تھامس ایڈیسن کی تعلیم و تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ جب اسکول نے انہیں "نااہل" قرار دیا، تو ان کی ماں نے خود انہیں پڑھایا، اور وہ دنیا کے سب سے بڑے موجدوں میں شمار ہونے لگے۔  ماری کیوری، جو دو مرتبہ نوبل انعام جیتنے والی خاتون تھیں، اپنی بیٹی آئرین جولیئٹ کیوری کو بھی سائنس کی دنیا میں کامیاب بنانے میں مددگار ثابت ہوئیں۔  سوجورنر ٹروتھ ، غلامی کے خلاف مضبوط آواز، اپنی ماں کی تربیت سے متاثر ہو کر عظیم سماجی راہنما بنیں۔  ابراہام لنکن، جو امریکہ کے سب سے اہم صدور میں شمار ہوتے ہیں، اپنی ماں کی شفقت اور تربیت کو اپنی کامیابی کا باعث سمجھتے تھے۔  البرٹ آئن سٹائن، جنہوں نے اپنی ماں کے تعاون اور حوصلہ افزائی کے نتیجے میں دنیا کے عظیم ترین سائنس دانوں میں اپنا مقام پیدا کیا۔
 سینئر صحافی رباب عائشہ نے "مثالی مائیں" کے نام سے جو کتاب لکھی ہے۔ اس میں مشرقی مشاہیر بشمول حضرت سر سید احمد خان ،قائد اعظم ، جوہر برادران حکیم سعید اور بابا فرید گنج شکر جیسی شخصیات پر رشحاتِ قلم رواں کئے دنیا کے کئی ممتاز مفکرین، دانشوروںاور ادیبوں کے حوالے سے ماں کی عظمت پر روشنی ڈالی ہے۔  نپولین بوناپارٹ نے کہا"تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔"  ولیم شیکسپیئر بولا "ماں وہ ہستی ہے جو ہمارے لئے زمین پر خدا کا روپ ہے"  ماں کی عظمت پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔  نمایاں کتابوں میں   "Mother: The Story of Her Life" ایڈم سی. بیری  "The Joys of Motherhood" بوچی ایمیچیٹا  - "To the Motherland"  میکسم گورکی  - "Ma"  مارسیلہ سریانو شامل ہیں  ان کتابوں میں ماں کی قربانیوں، اس کی بے لوث محبت، اور اس کے ناقابلِ فراموش کردار کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔  مغربی معاشروں میں سنگل ماں کے سماجی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق پر مختلف زاویوں سے بحث کی جاتی ہے۔ سنگل ماں کو قانونی تحفظ، مالی امداد، اور سماجی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے مختلف پالیسیز موجود ہیں، لیکن ان کے چیلنجز بھی نمایاں ہیں۔سنگل ماں کو مغربی معاشروں میں عمومی طور پر قبولیت حاصل ہے اور انہیں مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے مختلف قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر، برطانیہ اور امریکہ میں سنگل والدین کے لیے خصوصی مراعات دی جاتی ہیں، جیسے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے حکومتی امداد اور فلاحی پروگرام ہوں۔مغربی معاشرتی  تشکیل  میں ماں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جس کے نتیجے میں خاندانی نظام میں تبدیلیاں آئی ہیں۔ 2007 میں امریکہ میں 13.7 ملین سنگل والدین بچوں کی پرورش کر رہے تھے، جن میں سے 84 فیصد خواتین تھیں۔ اس رجحان نے بچوں کی نفسیاتی نشوونما اور سماجی تعلقات پر بھی اثر ڈالا ہے۔مغربی تہذیب میں سنگل ماں کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور انہیں کام کی جگہ پر مساوی حقوق دیے جاتے ہیں۔ تاہم، کچھ معاشرتی حلقے اس رجحان کو خاندانی نظام کی کمزوری کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مغربی معاشروں میں "فیملی اسٹرکچر" پر بحث جاری ہے اور کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سنگل پیرنٹنگ بچوں کی تربیت پر اثر انداز ہو سکتی ہے ماں کا مقام نہ صرف انسانی زندگی میں بلکہ معاشرتی، ثقافتی اور روحانی سطح پر بھی انتہائی بلند ہے۔ اس کی محبت، قربانی، اور تربیت نسلوں کی تشکیل کرتی ہے۔ عالمی یومِ ماں ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اس رشتے کو مزید مضبوط بنائیں، اس کی قدردانی کے جذبے کو فروغ دیں اور اپنی زندگی میں ماں کے کردار کو حقیقی عزت دیں!!

ای پیپر دی نیشن