جب قوم جاگتی ہے، دشمن ہار جاتا ہے

ڈاکٹر ناصر خان

دنیا بھر میں اقوامِ عالم ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ انسان نے چاند کو چھوا، مریخ پر قدم رکھنے کی تیاری کر رہا ہے، مصنوعی ذہانت (AI) نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے دو بڑے ممالک — پاکستان اور بھارت—تاحال نفرت، تنازع اور جنگ کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔ 1947 سے آج 2025 تک یہ دشمنی کئی روپ بدل چکی ہے، مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ جنگ کا دھواں آج بھی اسی شدت سے فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔
آج کی جنگ صرف بارود اور ٹینکوں کی نہیں رہی، بلکہ یہ ایکہائبرڈ وار ہے۔ بھارت نے میڈیا، سائبر اٹیک، سفارتی دباؤ، اور پروپیگنڈے کے ذریعے پاکستان پر نفسیاتی اور سٹریٹیجک دباؤ ڈالنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں، جعلی ویڈیوز، اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو دہشت گرد ریاست ظاہر کرنے کی کوششیں اس جنگ کا حصہ ہیں۔
پاکستان، جس نے دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی قربانیاں دی ہیں، جس نے اپنے ستر ہزار شہریوں اور ہزاروں فوجیوں کی جانیں دی ہیں، وہی ملک آج دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ لڑنے پر مجبور ہے۔
بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کوئی نئی بات نہیں۔ مگر 2025 کے آغاز سے ہی بھارتی فوج کی اشتعال انگیزیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ سیز فائر معاہدے کو توڑنا، عام شہریوں کو نشانہ بنانا، اور پاکستان کے دفاعی اداروں کو اشتعال دلانا — یہ تمام اقدامات ایک بڑے مقصد کا پیش خیمہ لگتے ہیں۔پاکستان نے ہمیشہ صبر و تحمل اور دفاعی پالیسی اپنائی ہے۔ مگر جب دشمن حد پار کرے، تو خاموشی غداری بن جاتی ہے۔ پاک فوج نے حالیہ جنگ میں نہ صرف دشمن کو منہ توڑ جواب دیا بلکہ یہ بھی واضح کر دیا کہ پاکستان کی خودمختاری پر آنچ آئی تو ہر پاکستانی سپاہی آخری گولی اور آخری سانس تک لڑے گا۔
پاکستان کی سادہ لوح مگر غیرت مند عوام ہر بار کی طرح اس بار بھی متحد ہے۔ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی بیداری، شہداء کو خراج تحسین، اور حب الوطنی کے نعرے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ قوم بیدار ہے۔ چاہے طلبہ ہوں یا تاجر، کسان ہوں یا خواتین — سب نے ایک ہی پیغام دیا ہے:
"پاکستان ہے تو ہم ہیں، اور ہم اپنی مٹی پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے"۔
یہ جنگ صرف افواج کی نہیں، بلکہ پوری قوم کی جنگ ہے۔ دشمن کی جارحیت صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہتی، بلکہ یہ ہمارے قومی وقار، نظریے، اور آزادی پر حملہ ہوتا ہے۔ ایسے میں صرف وردی پہنے ہوئے جوان ہی محاذ پر نہیں ہوتے، بلکہ ہر پاکستانی، چاہے وہ استاد ہو، طالبعلم ہو، صحافی ہو یا مزدور — سب ایک سپاہی بن جاتے ہیں۔ کوئی قلم سے لڑتا ہے، کوئی زبان سے، کوئی علم سے اور کوئی دعا سے۔ قوم کے اتحاد، جذبے اور عزم سے بڑی کوئی فوج نہیں ہوتی، اور یہی وہ طاقت ہے جس نے ہر محاذ پر پاکستان کو سرخرو کیا ہے۔
بھارت میں 2024 کے انتخابات کے بعد انتہا پسند حکومت نے ہندوتوا نظریے کو مزید تقویت دی۔ مسلمانوں پر مظالم، اقلیتوں کے خلاف پالیسیاں، اور پڑوسی ممالک پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی — یہ سب بھارت کے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کا حربہ ہے۔ جب بھی بھارت کی معیشت گرتی ہے، یا اندرونی بغاوتیں بڑھتی ہیں، تو حکومت ایک نئی "دشمن کی کہانی" گھڑتی ہے، اور سب سے آسان ہدف بنتا ہے پاکستان۔
پاکستان نے ہر فورم پر بھارت کی جارحیت کو بے نقاب کیا ہے — اقوام متحدہ، او آئی سی، عالمی عدالتِ انصاف، اور دیگر پلیٹ فارمز پر پاکستان نے ثبوتوں کے ساتھ بتایا ہے کہ بھارت کس طرح بلوچستان، خیبرپختونخوا، اور آزاد کشمیر میں دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے:
"ہم امن چاہتے ہیں، مگر کمزوری نہیں۔ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں، مگر بلیک میلنگ کے لیے نہیں۔"
جنگ میں فتح کسی کی نہیں ہوتی۔ دونوں ممالک کی معیشت، عوام، نوجوان، اور امن خواب بن کر رہ جاتا ہے۔ اگر آج بھی بھارت اپنے رویے میں تبدیلی نہ لائے، تو انجام دونوں کے لیے تباہی کا باعث بنے گا۔ ایک ایٹمی جنگ کا تصور ہی ہولناک ہے۔ہمیں دشمن کی نیت کو پہچاننا ہے، مگر ساتھ ہی امن کے دروازے کھلے رکھنے ہیں۔ ہمیں نہ صرف دفاع کرنا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ پاکستان امن پسند، باوقار، اور باشعور قوم ہے، جو اپنے دفاع کے ساتھ دنیا میں ترقی، علم، اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ پاکستانی قوم متحد ہو۔ دشمن کی چالوں کو سمجھے، میڈیا وار سے باخبر رہے، اور ہر محاذ پر اپنی فوج اور ریاست کے ساتھ کھڑی ہو۔ یہ جنگ صرف بندوقوں کی نہیں — یہ بیانیے، نظریے، اور عزم کی جنگ ہے۔
بھارت، جو ہمیشہ اپنی آبادی، معیشت اور عسکری قوت پر فخر کرتا رہا ہے، حالیہ جنگ میں پاکستان کے عزم، حکمتِ عملی اور عوامی اتحاد کے سامنے بے بس نظر آیا۔بھارتی افواج نے "آپریشن سندور" کے تحت پاکستان کے مختلف علاقوں میں حملے کیے، تاہم، ان حملوں کے نتیجے میں پاکستان نے "آپریشن بنیان مرصوص" کے تحت مؤثر جوابی کارروائیاں کیں، جن میں بھارتی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا اور متعدد بھارتی ڈرونز کو مار گرایا گیا۔
پاکستان کی فضائیہ نے نہ صرف بھارتی حملوں کو ناکام بنایا بلکہ بھارتی فضائی دفاعی نظام کو بھی نقصان پہنچایا۔اس کے علاوہ، پاکستان نے بھارتی ڈرونز کو مار گرایا اور بھارتی فضائیہ کے کئی طیاروں کو نشانہ بنایا، جس سے بھارت کو شدید جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔یہ جنگ صرف عسکری میدان تک محدود نہیں رہی، بلکہ سفارتی اور اطلاعاتی محاذ پر بھی پاکستان نے بھارت کو مؤثر جواب دیا۔
ان تمام اقدامات نے ثابت کر دیا کہ پاکستان نہ صرف عسکری میدان میں بھارت کا مؤثر مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ سفارتی اور اطلاعاتی محاذ پر بھی بھارت سے آگے ہے۔یہ صرف گولیوں کی جنگ نہیں تھی، بلکہ حوصلے، اصول اور حب الوطنی کی وہ جنگ تھی جس میں پاکستان ہر محاذ پر سرخرو رہا۔
پاکستان اور بھارت کے موجودہ حالات نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے امن، ترقی اور استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ ایسے میں عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف بیانات تک محدود نہ رہے بلکہ ٹھوس اور مؤثر اقدامات کرے۔ اقوامِ متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC)، یورپی یونین اور چین، ترکی، سعودی عرب جیسے علاقائی اثرورسوخ رکھنے والے ممالک کو چاہیے کہ وہ فوری بامقصد مذاکرات کی بحالی کے لیے فعال ثالثی کا کردار ادا کریں۔ مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیے بغیر اس خطے میں دیرپا امن کا قیام ممکن نہیں۔ اس مقصد کے لیے دو طرفہ مذاکرات اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں دوبارہ شروع کیے جائیں، اعتماد سازی کے اقدامات جیسے ثقافتی تبادلے، تجارتی روابط اور ویزہ پالیسی میں آسانی کو فروغ دیا جائے، فوجی سطح پر ہاٹ لائنز کو فعال اور مؤثر بنایا جائے تاکہ غلط فہمیاں کم ہوں، اور سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اختیار کی جائے۔ خطے میں پائیدار امن اسی وقت ممکن ہے جب عالمی طاقتیں انصاف، مساوات، اور اقوام کی خودمختاری جیسے اصولوں پر مبنی غیر جانب دار مؤقف اپنائیں، ورنہ دو ایٹمی طاقتوں کے مابین جاری کشیدگی کسی بھی وقت عالمی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن