انجہانی جنرل بعد میں فیلڈ مارشل کے۔ ایم کری آپا آزادی کے بعد بھارتی فوج کا پہلا بھارتی کمانڈر انچیف بنا۔ 1946 میں یہ شخص بنوں میں برگیڈ کمانڈر تھا اور مرحوم فیلڈ مارشل ایوب خان اسکے تحت بٹالین کمانڈ ر۔دونوں میں دوستی کی حد تک انڈرسٹینڈنگ تھی۔ 1965 کی جنگ میں فیلڈ مارشل کری آپا کا بیٹا کے سی کری آپا جو’’ نندا کری آپا‘‘ کے نام سے مشہور تھا بھارتی ائیر فورس میں فلائیٹ لیفٹیننٹ تھا۔
جنگ کے دوران 22 ستمبر کو نندا کا سکارڈن پاکستان فوج پر حملہ آور ہوا۔ قصور سیکٹر میں بھارتی جہازوں کو ہماری توپوں نے نشانہ بنایا۔اِن میں نندا کا جہاز بھی نشانہ بنا۔ نندا پر اشوٹ پر نیچے جمپ گر گیا۔ نندا فوج نے زندہ پکڑ کرجنگی قیدی بنالیا گیا۔ مرحوم صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کو پتہ چلا تو اس نے اپنے پرانے دوست فیلڈ مارشل کری آپا سے رابطہ کیا جو اس وقت تک فوج سے ریٹائر ہو چکا تھا۔ اُسے اُسکے جنگی قیدی بیٹے کو باعزت رہا کرنے کی پیشکش کی۔ فیلڈ مارشل کری آپا نے شکریے کے ساتھ یہ آفر ٹھکرا کر کہا: ’’ نندا اب میرا نہیں بلکہ دیش کا بیٹا ہے اور اسکے ساتھ وہی سلوک کریں جو باقی جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا جائے‘‘ لہٰذانندا 22 جنوری 1966 ء میں باقی قیدیوں کے ساتھ رہا ہو کر دلی پہنچا۔ بھارت نے وطن کی محبت کا یہ سبق 1962 ء میں چینیوں سے مارکھانے کے بعد سیکھا ۔
اسرائیلی فوج کے لیفٹیننٹ شیرون نے 1967 ء میں شادی کی ہنی مون کے لئے نیپال آیا۔ دوسرے دن وہ بیوی کے ساتھ ٹیکسی میں گھومنے نکلا۔ ہمالیہ کے پہاڑوں میں پھر رہا تھا کہ اُسنے اپنا ریڈیو آن کیا۔ عرب اسرائیل جنگ شروع ہو چکی تھی۔ اُس نے وہیں سے ٹیکسی واپس مڑوائی۔ ہوٹل سے والدین کو فون پر بتایا کہ اس کی یونیفارم تل ابیب ائیر پورٹ پر پہنچا دی جائے۔ پہلی ممکن فلائیٹ سے وہ واپس پہنچا۔ والدین یو نیفارم کے ساتھ موجود تھے۔ یونیفارم پہنا۔ دوگھنٹوں بعد صحرائے سینا میں وہ اپنی یونٹ کے ساتھ موجود تھا۔ یہودیوں نے وطن کی محبت 2800 سالہ در بدری سے سیکھی۔ اسرائیل آج مشرقِ وسطیٰ کی سپر پاور ہے۔
1947 ء میں تقسیم ہند کے وقت بھارت سے آنیوالے بے حال اور زخمی مہاجرین سے پاکستان بھر گیا۔ ہندؤوں اور سکھوں کے اچانک چلے جانے سے سول انتظامیہ بریک ڈاؤن ہوگئی۔ سول انتظامیہ کا کر دار فوج نے سنبھالا۔ قائد اعظم نے قوم سے مدد کی اپیل کی تو مہاجرین کی امداد کے لئے پوری قوم متحد ہو کر کھڑی ہوگئی۔ اپنا سب کچھ نچھاور کر کے مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کوسنبھال لیا۔ فوجی جوانوں نے اپنی پوری پوری تنخواہیں اور راشن تک دے ڈالا۔ نتیجتاً فوجیوں کے اپنے گھروں میں فاقے ہونے لگے۔ اچانک فوجی ہسپتال فوجی فیملیز اور بچوں سے بھر گئے۔ لمبی چوڑی انکوائری ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ سب لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہو گئے تھے۔ اُسوقت کے کمانڈر انچیف جنرل میسروی کو ایک خصوصی حکمنامہ جاری کر کے فوجیوں کی طرف سے امدادی فنڈ جبراً بند کرانا پڑا۔ یہ قومی جذ بہ دو سو سالہ غلامی اور ہندو بنیا کے تحقیر آمیز رویے کا نتیجہ تھا۔
1965 ء کی جنگ کے بعد مجھے ایک دن کیلئے گاؤں جانا پڑا۔ میرا گاؤں ضلع جھنگ کے بہت ہی پس ماندہ دور دراز علاقے میں واقع ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔
شام کو ہمارے گاؤں کی سب سے معمر خاتون ’’ماں بھاگن‘‘ دوہری کمر کے ساتھ لاٹھی نیکتی ہوئی ہانپتی کانپتی میرے پاس پہنچی۔ پیچھے اُسکے نواسے نے ایک میلے کپڑے میں بندھی کوئی چیز اٹھا رکھی تھی۔ آتے ہی ماں بھاگن نے پوچھا: ’’پتر میں نے سنا ہے کہ کراڑوں (ہندؤوں) نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے‘‘۔’’ یہ سچ ہے ماں‘‘ میں نے جواب دیا۔ ماں بھاگن نے نواسے کو کہا کہ گٹھری میرے آگے رکھے۔ گٹھری رکھوا کر کہنے لگی ’’پتر میرے پاس دینے کے لئے اور کچھ نہیں۔ بس یہ دوٹو پے (4) کلو) گندم ہے۔ یہ لیتے جائیں اور ایوب خان کو دیکر پیغام دینا کہ کراڑوں سے لڑنے کے لئے ایک بندوق اماں بھاگن کی طرف سے بھی خرید لینا۔ یہ قومی جذ بہ ہر طرف نظر آیا اور یہ قومی سوچ کی اعلیٰ مثال تھی ۔
2005 ء کا زلزلہ اتنا شدید تھا کہ کئی آبادیاں صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئیں۔ لگ بھگ 80 ہزار لوگ موت کے منہ میں چلے گئے یا معذور ہو گئے۔ قوم کی طرف سے جگہ جگہ امدادی کیمپس لگے۔ لوگوں نے دل کھول کر امداد بھی دی۔ ایک عوامی نمائندے کے ڈیرے پر لوگوں کی طرف سے کپڑے، بستر اور کھانے پینے کا بہت سا سامان جمع ہوا۔ نمائندے صاحب نے اچھے اچھے بستر اور کپڑے اٹھوا کر ان کی جگہ اپنے پرانے یا بچوں کے استعمال شدہ کپڑے اور بستر رکھوا دیئے۔ آٹے، چینی کی بوریاں اور گھی کے کنستر تک غائب ہو گئے کہ محترم نمائندے صاحب کی فیملی چینی اور گھی دو سال بعد تک بھی استعمال کرتی رہی۔ بستر وغیرہ شاید تاحال بھی استعمال ہو رہے ہیں۔یہ حب الوطنی کا دو سرا رخ تھا۔
2010 ء کے سیلاب نے جو تباہی مچائی سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ غیر ممالک سے بہت سی امداد آئی۔ اُس میں اچھی قسم کے کمبل، گھی کے ڈبے، کپڑے، کھجوریں اور بہت سی قیمتی اشیاء غریبوں تک پہنچنے سے پہلے ہی غائب ہو گئیں۔ کچھ ممالک نے غریب غرباء کے لئے گھر بنوا دیئے وہ بھی پارٹی ورکرز کو چلے گئے۔ غریبوں کی امداد کا ایک بے مثال موقع دیکھنے کو ملا۔ ایک شام سیر کے لئے میں باہر نکلا۔ سامنے 6 بڑے ٹرکوں کا قافلہ نظر آیا۔ یہ ٹرک چاروں طرف سے کپڑے کے بڑے بڑے بینروں سے ڈھکے تھے۔ ان بینرز پر جلی حروف میں لکھا تھا،’’ جناب صدرِمحترم کی طرف سے سیلاب متاثرین کے لئے امدادی سامان‘‘۔ نیچے ایک بہت ہی معزز عوامی نمائندے کا نام تھا۔ دیکھ کر یقینا خوشی ہوئی۔ ریلوے پھاٹک پر یہ قافلہ رکا تو میں نے جھانک کر اندر دیکھا۔ اندر ٹرک کے کونے میں 10 یا15 آٹے اور چاولوں کے تھیلے اور اتنے ہی 5,5 کلو والے گھی کے ڈبے رکھے تھے۔ تمام ٹرکوں میں فقط اتنا اتناہی سامان تھا۔ باقی ٹرک سب خالی تھے۔ میں نے ایک ڈرائیور سے پوچھا: ’’امدادی سامان کہاں ہے؟ جواب ملابس یہی کچھ ہے‘‘ شام کوٹی وی پر یہ سب سے اہم خبر تھی اور بار بار امدادی سامان والے یہ ٹرک دکھائے گئے۔ دوسرے دن اخبارات میں بھی سب سے اہم خبر یہی تھی۔ اور یہ تھی ہماری’’ جمہوری حب الوطنی ‘‘کی نئی مثال۔
معزز قارئین! مشرقی پاکستان چلا گیا۔ ہم نے کچھ نہ سیکھا۔باقی ماندہ پاکستان وڈیروںنے لوٹ لیا۔ ہمارے راہنما وطن ِ عزیز کی بجائے بھارت اور امریکی مفادات کے تحفظ میں لگ گئے۔ عوام مہنگائی اور دہشتگردی کے سامنے بے بس ہوگئے۔ جرنیل سڑکوں پر مرنے لگے۔ڈالر 300روپے تک پہنچ گیا۔ حکومت مذاکرات اور ہوائی منصوبوں کی خوشخبریاں سنانے تک محدود ہوگئی۔ عوام کے خون پر سیاست چمکنے لگی۔
ہوسِ اقتدار کے معاونوں کی بزدلی ، بے عملی، بے حسی اور نا اہلی نے پوری قوم کو بھکاری بنا دیا۔ یہ ہے موجودہ حکمرانوں کی ’’حُب الوطنی‘‘۔ اپنے زر پرست حکمرانوں سے اپیل ہے کہ اگر کچھ کر سکتے ہیں تو کریں ورنہ ملک کسی اور کے حوالے کر دیں جو غریب عوام کے جان و مال کا تحفظ کر سکے۔ پاکستان زندہ باد!