عوامی کتب خانے وزیراعلیٰ پنجاب کی توجہ کے منتظر

کسی بھی معاشرے میں عوامی کتب خانے یا پبلک لائبریریز تعلیمی، ثقافتی اور تحقیقی ترقی کے اہم مراکز ہوتے ہیں۔ یہ نہ صرف جویانِ علم کو ایک سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں بلکہ معاشرے میں مثبت رجحانات اور شعور بیدار کرنے میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عوامی کتب خانوں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ یہ تحقیق، تخلیق اور سیکھنے کے عمل کو تقویت دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں عوامی کتب خانوں کی حالت تشویش ناک ہے جس کی وجہ سے معاشرہ ایک علمی خلا کا شکار ہو رہا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر حکومتی سطح پر یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ عوامی کتب خانے تعلیمی ترقی میں ایک کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ طلبہ، اساتذہ اور محققین کو نہ صرف نصابی کتب بلکہ غیر نصابی اور تحقیقی مواد بھی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ طلبہ کو ایک پرسکون اور علمی ماحول فراہم کرتے ہیں جہاں وہ یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کر سکتے ہیں۔
دیگر ممالک میں عوامی کتب خانے صرف کتابوں کی فراہمی یا ان کے مطالعے کے لیے جگہ مہیا کرنے تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان میں مختلف ادبی نشستیں، مشاعرے، سیمینارز اور علمی مباحثے منعقد کیے جاتے ہیں جو معاشرے میں تخلیقی سوچ کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ کتب خانے ایک ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں جہاں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد مل کر علمی گفتگو کرتے ہیں جس سے باہمی رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے۔ ڈیجیٹل دور میں تو عوامی کتب خانوں کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ اگر انھیں جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے تو وہ مزید مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل لائبریریوں کے ذریعے طلبہ اور محققین دنیا بھر کے علمی ذخائر تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ عوامی کتب خانے ای بکس، آڈیو بکس اور دیگر ڈیجیٹل مواد فراہم کر کے جدید قارئین کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔ جدید عوامی کتب خانوں میں انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سہولیات فراہم کی جانی چاہیے تاکہ طلبہ اور محققین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ 
اسی طرح عوامی کتب خانے معیشت اور پیشہ ورانہ ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ کتب خانوں میں مختلف موضوعات پر مواد دستیاب ہونے کی وجہ سے لوگ مختلف ہنر سیکھ سکتے ہیں جو ان کی ملازمت کے مواقع میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ کاروباری حضرات اور چھوٹے سرمایہ کار بھی عوامی کتب خانوں سے استفادہ کر کے مختلف کاروباری حکمت عملی اور مارکیٹ ریسرچ کر سکتے ہیں۔ کئی ممالک میں عوامی کتب خانے تربیتی مراکز یا ٹریننگ سنٹرز کے طور پر بھی کام کرتے ہیں جہاں نوجوانوں کو ڈیجیٹل، زبانوں اور دیگر مہارتوں کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے ملک میں بھی ممکن ہے لیکن اس کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمرانوں کو عوامی کتب خانوں کی اہمیت کا احساس دلایا جائے۔
پنجاب کے عوامی کتب خانوں سے متعلق تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے بھی ایک مضمون (’پنجاب کے عوامی کتب خانے: ایک نظر انداز خزانہ‘) اسی موقر اخبار میں لکھا گیا تھا اور اب پھر اس موضوع پر بات کرنے کا مقصد یہی ہے کہ حکمران عوامی کتب خانوں کی حالتِ زار پر فوری توجہ دیں۔ ماضی میں پنجاب کے عوامی کتب خانے علم و ادب کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ کتب خانے حکومتی عدم توجہی کا شکار ہو گئے۔ پنجاب میں کئی بڑے اور تاریخی عوامی کتب خانے موجود ہیں جن میں لاہور کی پنجاب پبلک لائبریری، قائداعظم لائبریری، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان کے مرکزی کتب خانے شامل ہیں۔ یہ علمی مراکز کسی زمانے میں طلبہ، محققین اور کتاب دوست افراد کے لیے علم کے خزانے کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن اب ان میں سہولیات کا فقدان، کتابوں کی کمی اور خستہ حال عمارتیں ان کے زوال کی نشاندہی کر رہی ہیں۔
آج پنجاب کے زیادہ تر عوامی کتب خانے حکومتی غفلت اور جدید ٹیکنالوجی کے فقدان کی وجہ سے ویران ہو چکے ہیں۔ کئی کتب خانوں میں نئی کتابیں نہیں منگوائی جاتیں، پرانی کتابیں بری حالت میں ہیں اور ریڈنگ رومز بھی مناسب دیکھ بھال سے محروم ہیں۔ اس کے علاوہ، انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل سہولیات کا نہ ہونا بھی طلبہ کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے وہ ان کتب خانوں کا رخ کرنے کے بجائے دوسرے ذرائع کو ترجیح دیتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف جہاں طلبہ کی فلاح و بہبود اور تعلیم کے فروغ کے لیے دیگر بہت سے اقدامات کر رہی ہیں وہیں انھیں چاہیے کہ وہ عوامی کتب خانوں کی بحالی اور انھیں طلبہ اور عوام کی توجہ کا مرکز بنانے کے لیے بھی فوری اور ٹھوس اقدامات کریں۔
پنجاب میں عوامی کتب خانوں کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات یہ ہیں کہ جدید اور معیاری کتابوں کی خریداری کو یقینی بنایا جائے تاکہ قارئین کو تازہ علمی مواد میسر ہو؛ عوامی کتب خانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان سے فائدہ اٹھا سکیں؛ لائبریرین اور عملے کو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت دی جائے تاکہ وہ قارئین کی بہتر رہنمائی کر سکیں؛ حکومت کو چاہیے کہ عوامی کتب خانوں کے بجٹ میں اضافہ کرے اور ان کی ترقی کے لیے خصوصی منصوبے متعارف کرائے؛ کتاب بینی کی عادت کو فروغ دینے کے لیے میڈیا اور دیگر ذرائع سے آگاہی مہم چلائی جائے۔ اگر مریم نواز شریف ان اقدامات کے ذریعے پنجاب کے عوامی کتب خانوں کو دوبارہ عوامی توجہ کا مرکز بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو انھیں صوبے کی تاریخ میں ہمیشہ ایک بہت اچھی اور علم دوست وزیراعلیٰ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

مشفق لولابی--- سماج دوست

ای پیپر دی نیشن