’’اللہ میاں ۔0کلومیٹر‘‘

یہ ہیں وہ الفاظ جو ایک نوجوان فوجی آفیسر نے دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ سیاچن میں اپنی پوسٹ پر پہنچ کر ایک چنان پر لکھے۔ یہ سادہ سے الفاظ اپنی تہہ میں گہرے معنی رکھتے ہیں۔ اس واقعہ کاپس منظر کچھ اسطرح ہے کہ 1984ء میں جب فوج کو یہ محاذ سنبھالنا پڑا تو محاذ جنگ پر جانے والی یونٹوں میں بہت شہادتیں ہوئیں اور یہ سب کی سب بغیر دشمن سے لڑے ہوئے ہوئیں۔ سامنے بھارتی فوج تو دشمن تھی ہی لیکن سب سے بڑا دشمن موسم ثابت ہوا اور تقریباً آدھی یونٹ بغیرلڑے اس موسم کا شکار ہوگئی کیونکہ پاکستان فوج بنیادی طور پر برفانی علاقے میں لڑائی کے لئے تیار نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس سے پہلے کبھی اس قسم کی جنگ لڑنے کا اتفاق ہوا تھا۔ لہٰذا جتنی زیادہ بلند پوسٹ ہوتی اتنے زیادہ خطرات بھی تھے۔ وطن کی حفاظت کے لئے ہر فوجی کی جہاں بھی ضرورت ہوتی ہے جانا پڑتا ہے۔ وہاں کیا ہوتا ہے وہ اس کی قسمت۔ شروع شروع میں شدید موسم اور زمینی حقائق کی پرواہ کئے بغیر لوگوں کو آگے پوسٹوں پر بھیجا گیا۔ شاید اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ یہ لوگ اتنے شدید موسم کو برداشت کرنے کے عادی نہ تھے اور نہ ہی اتنی بلندی پر برف میں چلنے کی کوئی تربیت تھی لہٰذا نتیجہ اموات کی صورت میں سامنے آیا۔ شدید موسم اور برفانی سرزمین کا مقابلہ کرنا ہر سپاہی اور ہر آفیسر کے بس میں نہ تھا۔ اس وقت برفانی علاقے والی وردی اور وہاں پر ستعمال ہونے والے اوزار یا ہتھیا رو غیرہ بھی میسر نہ تھے۔
سیاچن گلیشیئر تقریبا 78 کلومیٹرلمبا ہے۔ بحر منجمد شمالی اور بحر منجمد جنوبی کے بعد اس کا نمبر آتا ہے۔ اسے دنیا کا تیسرا بحر منجمد یا تیسرا پول بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ اٹلس کے مطابق اس کی بلندی 18 ہزار فٹ سے 24ہزار فٹ تک ہے۔ سردیوں میں درجہ حرارت منفی 60 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ 150 سے 250 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے برفانی ہوائیں چلتی ہیں جنہیں Snow Blizzard کا نام دیا جاتا ہے۔ سردیوں میں 10 میٹر تک برفباری ہوتی ہے۔ ان حالات میں کسی ذی روح کا زندہ رہنا ممکن ہی نہیں۔ ذرہ سی لا پرواہی ہمیشہ کے لیے معذور کر سکتی ہے۔
 ’’سیاہ چن‘‘ کا مطلب مقامی بلتی زبان میں ’’سیاہ گلاب‘‘ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے کچھ زیریں علاقے میں جب برف پگھلتی ہے تو پورا علاقہ خودرو پھولوں سے مہک اٹھتا ہے۔ گلاب اس علاقے کا سب سے زیادہ اگنے والا پھول ہے جو گرمیوں میں میلوں تک پھیلا ہوتا ہے اور اس کے پودے بھی پاکستان میں پیدا ہونے والے عام پودوں سے بڑے ہوتے ہیں لیکن جیسے جیسے بلندی پر آگے بڑھتے ہیں تو یہ خود رو پودے ختم ہو جاتے ہیں اور تمام علاقہ برفانی میدان میں تبدیل ہو جاتا ہے جہاں برفانی چوہوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ انسانی آبادی کا تصور بھی ممکن نہیں۔
یہ غالباً  1985ء کا واقعہ ہے کہ ایک نو جوان آفیسر کی پوسٹنگ سیاچن کے لئے ہوئی۔ وہ اپنے بیس کیمپ سکردو پہنچا۔ کمانڈ رسے ملاقات ہوئی۔ تو اس نے پوچھا:۔’’سر میری پوسٹنگ کس پوسٹ (چوٹی) پرہوئی ہے؟‘‘
 ’’تمہیں ہم اللہ میاں کے پاس بھیج رہے ہیں۔‘‘ کمانڈر نے مذا قاً جواب دیا۔ اسکا مطلب تھا بلند ترین چوٹی۔
اللہ میاں کے پاس جانے کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ انسان لوٹ کر واپس نہیں آتا اور تقریباً یہی کچھ حالت اس وقت ان پوسٹوں کی تھی۔ فوجی او پر جاتے تو تھے لیکن بسلامت واپسی کی شرح قدرے کم تھی۔ کچھ راستے ہی میں حادثات کا شکار ہوکر اللہ میاں کے پاس پہنچ جاتے اور کچھ سخت بیماری کی حالت میں بذریعہ ہیلی کا پٹر نیچے لائے جاتے۔ یوں یہ مذاق حقیقت کا روپ دھارگیا۔ لہٰذا وہ نو جوان آفیسر او پر اپنی پوسٹ پر جاتے ہوئے اپنی پوسٹ کا فاصلہ  راستے میں آنے والی چٹانوں پر ''اللہ میاں۔ کلو میٹر ''ظاہر کرتا گیا۔ جب اپنی پوسٹ پر پہنچا تو لکھا ''اللہ میاں 0کلومیٹر ''کیونکہ یہ وہاں کی بلند ترین پوسٹ تھی۔ وہاں سردی کا یہ عالم تھا کہ سانس باہر نکالتا تو برف کی ٹکڑیاں بن کر گر تیں۔ چائے پکانے میں ایک گھنٹہ لگتا اور دال پکنے میں دو سے تین گھنٹے لیتی۔ دو قدم چل کر رکنا پڑتا کہ سانس بند ہو جاتا۔ پیاس بجھانے کے لئے برف منہ میں رکھنی پڑتی کہ وہاں پانی کا وجودہی نہ تھا۔ اردگرد نظر اٹھتی تو ہرطرف برف ہی برف نظر آتی یا سامنے دشمن کی پوسٹ۔ اس آفیسر کی جب دشمن کی پوسٹ پر نظر پڑی تو اسے اپنی اہمیت اور یہاں آنے کے مقصد کا احساس ہوا۔ تھکاوٹ بھول کر آگے بڑھا۔ پوسٹ پر لگے پرچم کوسیلوٹ کیا اور نیچے لکھ دیا '' پیارے پاکستان تیرے بیٹے حاضر ہیں'' حالات جیسے بھی ہوں۔ موسم کتناہی شدید ہو وطن کے یہ بیٹے آج تک وہاں عیار دشمن کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ آفیسر زندہ واپس نہ آسکا۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ بعد میں آنیوالے آفیسر ز نے اس لکھائی کو مزید پکا کر دیا۔ چٹانوں پرلکھی گئی یہ تحریر شاید تا حال قائم ہو۔
معزز قارئین یہ ہے دنیا کا بلند ترین محاذجنگ جہاں اسوقت ہماری فوج وطن کی حفاظت کے لیے 1984ء سے سینہ سپر ہے۔ اس وقت تک تقریبا 4 ہزار شہادتوں کا ہد یہ پیش کر چکی ہے۔ معذور ہونے والے فوجیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ جنگ ایسے ہی ایک خطر ناک اور تباہ کن انسانی فعل کا نام ہے لیکن یہ محاذ خصوصی طور پر انسانی تباہی و بربادی کی زندہ مثال ہے۔ وطن کی حفاظت میں دشمن سے لڑ کر شہادت حاصل کرنا اعزاز ہے لیکن بن لڑے موت کا شکار ہو جانا افسوسناک ہے۔ یہی وہ محاذہے جہاں سکردوکے نزدیک گیاری سیکٹر میں7اپریل 2012ء کی صبح ایک پہاڑ نما برفانی تودہ بٹالین ہیڈ کوارٹر پر آگرا اور 140 مجاہدین اور اس ارض پاک کے بیٹے برف کے اس تودے تلے دب گئے اور موت کے منہ میں چلے گئے۔بہرحال اس سانحہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ پورا پاکستان غم و افسوس میں ڈوبا رہا۔ پوری قوم پاک وطن کے ان بیٹوں کو ہدیہ عقیدت پیش کرتی رہی اور ان کے وارثین کے ساتھ غم میں برابر کی شریک تھی۔صحرا اور برف کی جنگ تو ویسے بھی بہت خوفناک ہوتی ہے جو ہر زندہ چیز کونگل جاتی ہے۔ 1942ء میں مہاراجہ گلاب سنگھ کی تقریبا دس ہزار فوج جنرل زور آور سنگھ کی زیر کمان تبت کے برفانی میدان میں پھنس کر ختم ہوگئی تھی۔ ایک شخص بھی زندہ نہ بچا۔ یہی کچھ دوسری جنگ عظیم میں ہوا۔ اس وقت کی عظیم طاقت اور دنیا کی بہترین فوج ’’جرمن آرمی ''سٹالن گراڈ کے برفانی میدان میں پھنس کر تباہ ہوگئی اور اس جنگ نے ہٹلر کی تاریخ کا فیصلہ کر دیا۔ پاکستان اور بھارت تو ویسے ہی غریب ممالک کی صف میں شمار ہوتے ہیں جو اتنے زیادہ جنگی مصارف اور انسانی جانوں کے ضیاع کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے۔
سیاچن پر لڑی جانیوالی جنگ ایک بے مقصد جنگ ہے جہاں دونوں طرف بہت سے لوگ بغیر لڑے ہوئے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ دونوں افواج کا مشتر کہ دشمن شدید موسم ہے لہٰذا دونوں افواج کو بیک وقت دو دشمنوں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ 1984ء سے اب تک دونوں ممالک کی افواج 8 ہزار سے زائد افراد اللہ میاں کے پاس بھیج چکی ہیں اور یہ سلسلہ بغیرتعطل جاری ہے۔
پاکستان اور بھارت دونوں سنگدل ممالک ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں۔ اچھے پڑوسی ہونے کے آداب اور اہمیت ایک دوسرے کو بار بار بتاتے رہتے ہیں۔ مورخین کا خیال ہے کہ صدیوں سالوں پر محیط ہماری تاریخ بھی مشترک ہی تھی۔ اس کے باوجود دونوں ممالک کی خوبی یہ ہے کہ دونوں اچھا پڑوسی بننے کے لیے تیار نہیں۔ تقسیم ہند کے وقت سے لیکر اب تک ہم ایک دوسرے کے کسی نہ کسی بہانے ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 7 لاکھ آدی اللہ میاں کے پاس بھیج چکے ہیں لیکن زباں پر اچھے پڑوسی ہونے کا ورد جاری ہے۔ دونوں ممالک دھڑلے سے بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر مذاکرات کرتے ہیں لیکن ہر دفعہ مذاکرات کا نتیجہ پہلے ہی غریب عوام کو معلوم ہوتا ہے یعنی'' عدم اتفاق''۔ یہی کچھ اب تک ہوا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ ساری دنیا مل سکتی ہے لیکن ہم دونوں ممالک میں باہمی اتفاق کی صلاحیت ہی نہیں۔ ہم مذاکرات کرتے ہی ناکامی کے لئے ہیں تاکہ ایک دوسرے پر الزامات لگائے جاسکیں۔ بہر حال مایوسی گناہ ہے۔ دنیا امید پر قائم ہے کے مصداق اچھے نتائج کی امیدرکھنی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن